محمد کامران عطّاری (درجۂ سادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ کنزالایمان کراچی،
پاکستان)
دینِ اسلام ہماری ہر معاملے میں راہنمائی کرتا ہے چاہے وہ
دینی معاملات ہوں یا دنیاوی، ذاتی ہوں یا اجتماعی، معاشی ہوں یا معاشرتی۔الغرض ہم
زندگی کے جس بھی شعبے کو دیکھ لیں ہمیں شریعت میں اس کے متعلق کَمَا حَقُّہٗ
معلومات ملیں گی۔ جب ہم معاشرتی حقوق کی بات کرتے ہیں تو ان میں سے ایک طبقہ مقتدی
حضرات کا بھی ہے، ہمارا پیارا دین ان کے حقوق کا بھی محافظ ہے۔ اسی تعلق سےیہاں
چند حقوق زینت قِرطاس کئے جا رہے ہیں توجہ سے پڑھئے:
(1)مقتدی گویا کہ
امام کواپنی نماز سونپ رہا ہوتا ہے اگر امام کی نماز دُرست ہوگی تب ہی مقتدی کی
نماز بھی درست کہلائے گی تو سب سے پہلا اور بنیادی حق تو یہ ہے کہ امام وہ بنے جس
میں امام بننے کی شرائط پائی جاتی ہوں اور جو اُمور منافیِ امامت ہیں ان سے پاک
ہو۔
(2)امام اس نماز کو
دُرست طریقے سے ادا بھی کرے، نماز میں بھولے سے کوئی واجب رہ جانے کا علم ہوجانے
کے بعد سجدۂ سہو کرکے اپنی اور مقتدیوں کی نماز بچائے۔
(3)امام نماز کے
متعلق احکامات مقتدیوں کو سکھائے تا کہ اگر مقتدیوں کی نماز میں کوئی کمی ہو تو وہ
بھی دور ہو جائے۔ امام صاحب کو چاہئے کہ جمعہ کے علاوہ بھی موقع بموقع درس و بیان
کا سلسلہ جاری رکھے بالخصوص وُضو، نماز، طہارت کے اہم مسائل اور عقائد کے حوالے سے
درس کا سلسلہ جاری رکھے لوگوں کے سوالات کا مناسب انداز میں جواب دے، معلومات نہ
ہونے کی صورت میں اس کے متعلق معلومات حاصل کر کے ہی جواب دینا چاہئے۔
(4)امام کو چاہئے کہ
چھوٹوں، بزرگوں، کمزوروں اور ضعیف لوگوں کا لحاظ رکھتے ہوئے قِراءَت کرے، حدیث سے
یہ بھی ثابت ہے کہ ایک صحابی نے حضور علیہ السّلام کی بارگاہ میں عرض کی: فلاں کے
لمبی نماز پڑھانے کی وجہ سے میں نماز (جماعت سے) نہیں پڑھ پاتا تو نبیِّ کریم
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سخت تنبیہ فرمائی اور ناراضی کا اظہار کیا اور
فرمایا: جو لوگوں کو نماز پڑھائے تخفیف کے ساتھ پڑھائے کیونکہ نمازیوں میں بیمار،
کمزور اور کسی ضروری کام کے لئے جانے والے بھی ہوتے ہیں۔(بخاری،
1/50،حدیث:90ملخصاً)
(5)مقررہ اوقات پر
نماز کی پابندی کے ساتھ مسجد میں حاضر ہو مگر یہ کہ کوئی شرعی عذر مانع ہو۔
(6)مقتدیوں کے
انفرادی مسائل کا خیال رکھے، ان کی پریشانی اور مشکل میں ان کا ساتھ دے، انہیں
اپنی طرف راغب کرے، مُتَنَفر نہ کرے، جیسے اگر کوئی مقتدی اپنے گھر محفل میں شرکت
کرنے، ایصالِ ثواب کرنے،کسی موضوع پر درس و بیان کرنے کا مُطالبہ کرے تو حتی الامکان
قبول کرے، مقتدی اکثر خوشی و غمی کے موقع پر امام صاحب کی شرکت سے خوش ہوتے ہیں،
اس لئے چاہئے کہ اگر کوئی کسی خوشی کے موقع پر دعوت دے تو مناسب صورت میں ضرور
جائے، کوئی نمازی بیمار ہوجائے تو عیادت کیلئے جائے، اسی طرح اگر علاقے میں کوئی
میّت ہوجائے بِالخصوص کسی نمازی یا اس کے رشتے دار کا انتقال ہوجائے تو نمازِ
جنازہ اور کفن دفن کے معاملات میں شرکت کرے، یہ عمل جہاں سوگواروں کیلئے دِلجوئی
کا سبب ہوگا وہیں امام صاحب کی قدر بھی لوگوں کی نظر میں بڑھے گی۔ اسی طرح بعض
مقتدی بچّوں کو دَم کروانے کے لئے آتے ہیں، امام صاحب کو چاہئے کہ امیرِ اہلِ سنّت
دامت بَرَکاتُہمُ العالیہ نے مدنی پنج سورہ میں جو اوراد وظائف ذکر فرمائے ہیں یا
جو ہمارے بزرگوں سے منقول ہیں ان کے ذریعے دَم کردے۔
اللہ پاک ہمیں حقوق اللہ کے ساتھ ساتھ حقوقُ العباد بھی
پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم