امامت کی فضیلت و عظمت اِس سے بڑھ کر کیا بیان کی جائے کہ یہ وہ منصب ہے جسے رسول ُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اور خلفائے راشدین رضی اللہُ عنہ نے نبھایا اور اس کے لئے بہترین افراد منتخب کئے۔ اور مقتدی بھی کتنے خوش نصیب ہیں کہ اللہ پاک نے انہیں اپنی بارگاہ میں آنے کی دعوت دی بلکہ انہیں حکم دیا کہ وہ نمازیں پڑھے ۔اب امام و مقتدی کے متعلّق دو روایات قلم بند کرتا ہوں :

(1) رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : روزِ قیامت تین شخص کستوری کے ٹیلوں پر ہونگے ان میں سے ایک شخص وہ جو قوم کا امام رہا اور وہ (یعنی قوم کے لوگ ) اِس سے راضی تھے ۔(ترمِذی،3/ 397 ، حدیث: 1993 )

(2) ایک اور روایت میں ہے کہ اِمام کو اس قدر اجر ملے گا جس قدر اس کے پیچھے نماز ادا کرنے والے سب مقتدیوں کو ملے گا ۔(نسائی ص 112 ، حدیث : 643 )

اب آتے ہیں ہم مقتدیوں کے حقوق کی جانب :

(1) محافل ، بڑی را توں، اور دیگر مسجد انتظامیہ اور نمازیوں کو وقت دینے کی عادت ہونی چاہئے۔

(2) مقتدی اکثر خوشی و غمی کے مواقع پر امام صاحب کی شرکت سے خوش ہوتے ہیں اس لئے چاہئے کہ اگر کوئی شخص محبت سے دعوت دے تو امام صاحب کو کچھ نہ کچھ وقت نکال کر شرکت کر لینی چاہئے۔

(3) نمازِ باجماعت کے بعد کئی لوگ بچوّں کو دم کرانے کے لئے آتے ہیں ۔ امام صاحب اگر باقاعدہ اَوراد و وظائف اور عملیات نہ بھی کرتے ہوں تو بھی مختصراً اَوْراد جیسے ”درودِ پاک “ ”یا سلامُ “ سورۃ الفلق یا سورۃ الناس پڑھ کر دم کر دینا چاہئے ۔

(4)امام صاحب کو ایسی عادات اور باتوں سے اجتناب کرنا چاہئے جو مروّت(رواج ) کے خلاف تصوّر کی جاتی ہوں جیسے راستے میں عوامی طریقے سے کھانا ، عوامی مقامات پر یا روڈ کنارے استنجا کرنا ،سگریٹ نوشی کرنا اور ہر دوسرے شخص سے اُ دھار مانگنا ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ امام صاحبان کو مقتدیوں کے حقوق اور مقتدیوں کو امام صاحبان کے حقوق نبھانے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بِجاہِ خَاتمِ النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم