صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم تمام جہان کے مسلمانوں سے افضل ہیں، روئے زمین کے سارے ولی، غوث،
قطب ایک صحابی کے گردِ قدم کو بھی نہیں پہنچ سکتے، صحابہ میں خلفائے راشدین
بترتیبِ خلافت افضل ہیں، پھر عشرۂ مبشرہ پھر بدر والے پھر بیعت رضوان والے، پھر
صاحب قبلتین افضل ہیں، اللہ پاک قرآن مجید میں صحابہ کرام کے بارے میں ارشاد
فرماتا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ
الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ
اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ
اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ
اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 11، التوبۃ:
100) ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے
پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں
باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
صحابی
کی تعریف:
صحابہ جمع ہے صاحب کی یا صحابی کی بمعنی ساتھی، شریعت میں صحابی وہ انسان ہے جو
ہوش و ایمان کی حالت میں حضور اکرم ﷺ کو دیکھے یا صحبت میں حاضر ہو اور ایمان پر
اس کا خاتمہ ہوجائے اگر درمیان میں مرتد ہو گیا پھر مسلمان ہو کر مرا تب بھی صحابی
ہے جیسے اشعث بن قیس کے متعلق مشہور ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 8/281) قرآن اور احادیث
میں صحابہ کرام کے بہت سے حقوق وارد ہوئے ہیں جیسے ان کی تعظیم و توقیر کرنا، ان
سے محبت کرنا، ان کے لیے دعا و استغفار کرنا وغیرہ وغیرہ۔
پہلا
حق۔ صحابہ کرام سے محبت: ان کا سب سے اہم حق یہ ہے کہ ان سے محبت کی جائے،
رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ایمان کی نشانی انصار سے محبت کرنا ہے اور نفاق کی
نشانی انصار سے بغض رکھنا ہے۔ (بخاری، 1/715، حدیث: 3787)
دوسرا
حق۔ ان کی تعظیم و توقیر کی جائے: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے
صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث:
6012)
تیسرا
حق۔ انہیں برا بھلا نہ کہا جائے: حدیث شریف میں ہے: میرے صحابہ کو برا
بھلا نہ کہو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی
احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کرے تو وہ ان کے مد یا نصف کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔
(ابو داود، 2/296، حدیث: 4660)
چوتھا
حق۔ صحیح دلیل سے ثابت ان کے فضائل کا اقرار کیا جائے: جیسے عشرہ
مبشرہ، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا، حضرت فاطمہ، حضرات حسنین کریمین کے فضائل
میں وارد احادیث۔
پانچواں
حق۔ ان کی عدالت کا اعتراف کیا جائے: یعنی وہ ہر قسم کے گناہ سے پیرہیز
کرتے تھے، تقویٰ کا التزام کرتے تھے، ہر معاملہ پر حق و صواب کو حرز جاں بناتے
تھے، اگر ان میں سے کسی سے کوئی غلطی ہو جائے تو وہ اجتہادی غلطی ہے یا پھر بتقائے
بشریت ہے جس پر وہ اصرار نہیں کرتے تھے۔
وَ اعْلَمُوْۤا اَنَّ فِیْكُمْ رَسُوْلَ
اللّٰهِؕ-لَوْ یُطِیْعُكُمْ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنَ الْاَمْرِ لَعَنِتُّمْ وَ لٰكِنَّ
اللّٰهَ حَبَّبَ اِلَیْكُمُ الْاِیْمَانَ وَ زَیَّنَهٗ فِیْ قُلُوْبِكُمْ وَ
كَرَّهَ اِلَیْكُمُ الْكُفْرَ وَ الْفُسُوْقَ وَ الْعِصْیَانَؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الرّٰشِدُوْنَۙ(۷) (پ 26، الحجرات: 7) ترجمہ کنز الایمان:
اور جان لو کہ تم میں اللہ کے رسول ہیں بہت معاملوں میں اگر یہ تمہاری خوشی کریں
تو تم ضرور مشقت میں پڑجاؤ لیکن اللہ نے تمہیں ایمان پیارا کر دیا ہے اور اسے
تمہارے دلوں میں آراستہ کر دیا اور کفر اور حکم عدولی اور نا فرمانی تمہیں ناگوار
کردی ایسے ہی لوگ راہ پر ہیں۔