صحابہ کرام وہ
عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے ظاہری آنکھوں سے ایمان کی حالت میں نبی کریم خاتم
النبیین ﷺ کی زیارت کی اور ایمان ہی کی حالت میں ان کا انتقال ہوا، کوئی بھی ولی،
غوث و قطب کتنے ہی اعلیٰ درجے پر کیوں نہ فائز ہو مگر صحابہ کے مرتبے تک نہیں پہنچ
سکتے، قرآن و حدیث میں صحابہ کی شان و عظمت بیان کی گئی ہے، صحابہ کرام کے بے شمار
حقوق ہیں جن کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے، ذیل میں چند حقوق بیان کئے جاتے ہیں:
1۔ صحابہ کرام
سے دل و جان سے محبت کرنا، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے
بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو میرے بعد انہیں نشانہ مت بنانا پس جس نے ان سے محبت کی
تو اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ایسا کیا اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ
سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6014) معلوم ہوا کہ
صحابہ سے محبت نبی کریم ﷺ سے محبت ہے، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے
ہیں:
اہلسنت
کا ہے بیڑا پار اصحاب رسول نجم
ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
2۔ ان کی عزت
کرنا یعنی انہیں بلند و اعلیٰ مرتبے والا سمجھنا، قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ
رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) (پ 9، الانفال: 04) ترجمہ کنز الایمان: یہی سچے
مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
3۔ ان کی
تعظیم کرنا یعنی ان کا ذکر احترام کے ساتھ اور اچھے انداز میں اچھے الفاظ کے ساتھ
ہی کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کوئی
احد پہاڑ سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مد کو پہنچ سکتا ہے
اور نہ ہی مد کے آدھے کو۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3673) ایک اور جگہ رسول کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی
حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا (یعنی اسے جہنم سے محفوظ رکھوں
گا)۔ (ابن عساکر، 44/22) نیز صحابہ کرام کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی بھی کفر ہے۔
(بنیادی عقائد و معمولات اہلسنت) لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جو لوگ صحابہ کے بارے میں
غلط بات کرتے ہیں ان کے سائے سے بھی دور رہیں۔
4۔ ان سب کو
قطعی جنتی جاننا، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ
رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ
10، التوبۃ: 100) ترجمہ: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار
کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی
ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابہ کرام جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق
نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)
ہر
صحابی نبی جنتی جنتی
سب
صحابیات بھی جنتی جنتی
5۔ ان کی سیرت پر عمل کرنا ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا، حضور پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا: میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرو۔ (مؤطا
امام مالک،3/108،حدیث:709)ایک اور جگہ رسول
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی
اقتدا کروگے ہدایت پا جاؤگے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں بھی صحابہ کرام کی بتائی
ہوئی باتوں پر عمل کرنا چاہیے ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے
تاکہ ہمیں بھی ان کا فیضان حاصل ہو۔
صحابیِ رسول
ہونا اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے۔ بڑے سے بڑا ولی صحابی کے مرتبے کو نہیں پا
سکتا۔ہر صحابی عادل اور جنتی ہے۔ کوئی شخص بھلے کتنی ہی عبادت کر لے وہ کبھی بھی
صحابی نہیں بن سکتا۔کیونکہ صحابہ کرام نے حضور انور ﷺ کی صحبت پائی۔ حضور ﷺ سے علم
و عمل حاصل کیے۔حضور ﷺ کی تربیت پائی۔
صحابہ
وہ صحابہ جن کی ہر دن عید ہوتی تھی
خدا کا قرب حاصل تھا، نبی کی دید ہوتی تھی
صحابہ کی تعریف:جن خوش نصیبوں
نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر
ان کا انتقال ہوا،ان کو صحابہ کہتے ہیں۔
حقوقِ
صحابہ علیہم الرضوان:
1) حضرت علامہ مولانا سید محمد نعیم
الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مسلمانوں کو چاہیے کہ صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا نہایت ادب رکھے اور دل میں ان کی عقیدت و محبت کو جگہ دے۔ ان کی
محبت حضور ﷺ کی محبت ہے۔
اہلِ
سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
(غیبت
کی تباہ کاریاں، ص 196)
2) تمام صحابہ
کرام علیہم الرضوان بھلائی والے اور عادل ہیں۔ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے
ساتھ کرنا فرض ہے۔ کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت(یعنی بُرا عقیدہ رکھنا)بد مذہبی و
گمراہی و استحقاق جہنم(جہنم کی حق داری) ہے۔(بہار شریعت،1/252 تا 253 )
3) روایت میں ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: میرے اصحاب
کو بُرا نہ کہو، اس لیے کہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر
دے تو ان کے ایک مُد کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اور نہ اس مُد کے آدھے۔ ( بخاری،
2/ 522،حدیث:3673)
4) حدیثِ مبارکہ ہے: میرے صحابہ کی عزت کرو
کیونکہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
آل و
اصحابِ نبی سب بادشاہ ہیں بادشاہ
میں فقط ادنٰی گدا اصحاب و اہل بیت کا
5) میرے صحابہ کی میری وجہ سے جس نے حفاظت اور
عزت کی تو میں بروزِ قیامت اس کا محافظ ہوں گا۔ اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی
اس پر اللہ پاک کی لعنت ہے۔ ( فضائل الصحابہ للامام احمد، 2 /908، حدیث:1733)
صحابیِ رسول
کے حق میں خدا سے ڈرو ! صحابیِ رسول کو گالیاں دینا گناہ،گناہ بہت سخت گناہ،قطعی
حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان اعلیٰ ادنیٰ
سب جنتی ہیں۔صحابہ کرام کے باہم ( یعنی آپس میں لڑائی وغیرہ کے ) جو واقعات ہوئے، ان
میں پڑنا حرام، حرام، سخت حرام ہے۔ مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات
آقائے دو عالم ﷺ کے جان نثار اور سچے غلام ہیں۔
میری
جھولی میں نہ کیوں ہوں دو جہاں کی نعمتیں میں
ہوں منگتا، میں گدا اصحاب و اہلِ بیت کا
یا
الٰہی ! شکریہ عطار کو تو نے کیا
شعر گو مدحت سرا اصحاب و اہل بیت کا
اللہ پاک نے
جس طرح اپنے پیارے حبیبﷺکو تمام رسولوں کا سردار منتخب فرمایا،اسی طرح آپ کے دین
کو کامل فرمایا اور اس دین کے حاملین کو تمام لوگوں کے درمیان منتخب فرمایا اور وہ
حضرات صحابہ کرام تھے۔اس دینِ اسلام کی خوبصورتی ہے کہ ہر کسی کے حقوق بیان فرمائے۔اسی
طرح صحابہ کرام کے بھی کچھ حقوق امت پر لاگو ہوتے ہیں۔ کچھ حقوق پیش کئے جاتے ہیں:
تذکرہ مع الخیر: تمام صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم اہلِ خیر اور صلاحِ اہل ہیں اور عادل بھی۔ ان کا جب ذکر کیا
جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔(بہارِ شریعت،1/252،حصہ:1)حضرت ابنِ عمر فرمایا کرتے تھے:محمد(ﷺ) کے اصحاب کو
برا بھلا نہ کہو کہ ان کا گھڑی بھر قیام کرنا تمہارے عمر بھر کے اعمال سے بہتر ہے۔(
ابنِ ماجہ،1/110، حدیث:168)
خلافت
کا اقرار کرنا:تمام
انبیا و رسل کے بعد ان صحابہ کرام کا ہی درجہ اللہ کریم نے مقرر فرمایا اور ان کو
رحمۃ للعلمین ﷺ کے نائب و امت کے راہنما بنایا، ان کی خلافت کا اقرار کرنا بھی ہر
مسلمان کیلئے ضروری ہے، کیونکہ ان کی خلافت سے انکار کرنا فقہائے کرام کے نزدیک
کفر ہے۔ من سب الشیخین أو طعن فیھما کفر ولا تقبل توبته (
درمختار، 6/362)
اتباعِ
صحابہ:ان
کی سیرتِ مبارکہ پر عمل کرے کہ حضورﷺنے فرمایا:عنقریب میرے بعد تم بہت سے اختلافات
دیکھو گے۔ پس تم پر میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے۔(
ابنِ ماجہ،1/99، حدیث:42)
مراتب
کا اقرار:اللہ
کریم نے ان کو جو مراتب عطا فرمائے ان میں کمی بیشی نہ کرے اس طرح کہ زیادہ فضیلت
والے کو کم درجہ پر رکھے۔جو (حضرت) علی کو تین (خلفائے راشدین) پر افضل کہے وہ
رافضی ہے اور گمراہ ہے۔(تبیین الحقائق،2/358)
عقیدت
و احترام:کسی
بھی صحابی کے ساتھ سوء عقیدت،بد مذہبی و گمراہی اور استحقاقِ جہنم( جہنم کا حق دار
بنانے والی) ہے کیونکہ وہ حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض ہے۔(بہارِ شریعت،1/252،حصہ:1)
حدیثِ مبارکہ
میں ہے:میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو،میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنا لو۔ (ترمذی،
5/563،حدیث:3888)ہر مسلمان تمام جانثارانِ تاجدار مدینہ
کی عقیدت و احترام رکھے اور ان کے حقوق کو بجا لائے،ایسے لوگوں کے قریب بھی نہ
جائے جو ان صحابہ کی بے ادبی یا شان میں کمی کرنے والے ہوں۔اللہ کریم ہمیں ان کی
پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ
بلاشبہ حضرات
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے ترجمان،قرآنِ عظیم کے محافظ و پاسبان،سنتِ نبوی
کے عامل اور بلند سیرت کے حامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ میں ان کو بڑا اونچا
مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں آپ ﷺ کی
زیارت کی ہویااسے آپ کی صحبت نصیب ہوئی ہو،خو اہ ایک لمحے کے لیے کیوں نہ ہو۔اللہ
پاک نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر صحابہ کرام کے حقوق کےبارے میں ارشاد فرمایا
ہے:اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ
اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ
رٰكِعُوْنَ(۵۵)
(پ6،المائدۃ:55)تر جمہ:تمہارے دوست تو خدا اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہیں جو نماز
پڑھتے اور زکوة دیتے اورخدا کے آگے جھکتے ہیں۔
اس آیتِ
مبارکہ میں اہلِ ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ پاک کا ولی قرار دیا گیا اور جس
وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہلِ ایمان صرف صحابہ کرام تھے۔آیاتِ قر انیہ کے
علاوہ کتبِ احادیث بھی فضائلِ صحابہ سے مالا مال ہیں:
1-آپ ﷺ نے
ارشاد فر مایا:میرے صحابہ کو گالی مت دو! اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر
بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے
برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (بخاری،2/522،حدیث: 3673 )
2-آپ ﷺ نے
ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ
المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
3-حدیثِ پاک
میں ہے: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروہدایت پا
جاؤ گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)
4-حدیثِ پاک
میں آپ کا ارشادِ گرامی ہے: جو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں رعایت رکھے
گا وہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچ سکے گا اور جوان کے بارے میں میری رعایت نہ کرے
گا وہ میرے پاس حوضِ کوثرتک نہ پہنچ سکے گا اور مجھے دور سے ہی دیکھے گا۔ (حکایات
صحابہ)
جن خوش نصیبوں
نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال
ہوا، انہیں صحابی کہتے ہیں۔ (نخبۃ الفکر، ص 111) نبیِ کریم ﷺ کے تمام صحابہ جنتی
ہیں۔ ان میں کوئی گنہگار و فاسق نہیں اور نہ ہی کسی تاریخی واقعہ کو بنیاد بناکر
قرآن و حدیث میں موجود ان عظیم اشخاص کے فضائل کا انکار کیا جاسکتا ہے۔حقیقت تو یہ
ہے کہ جس طرح اللہ پاک کی اطاعت حضور ﷺ کی پیروی کے بغیر ناممکن ہے،اسی طرح حضور ﷺ
کی پیروی صحابہ کرام علیہم الرضوان کی اتباع کے بغیر ممکن نہیں۔نیز یہی حضرات امت
تک دین پہنچانے والے ہیں۔ لہٰذا امت پر ان بزرگ افراد کے بہت سے حقوق ہیں، جن میں
سے 5 درج ذیل ہیں۔
1-صحابہ کرام علیہم الرضوان سے محبت رکھنا اور
ان سے بغض نہ رکھنا:رسولُ اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے
معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو
طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنا لینا۔ پس جس شخص نے ان سے مَحبت کی تو اس نے میری
مَحبت کی وجہ سے ان سے مَحبت کی اور جس نے ان سے بُغْض رکھا تو اس نے میرے بُغْض
کے سبب ان سے بُغْض رکھا اور جس نے انہیں اِیذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے اِیذا
پہنچائی اور جس نے مجھے اِیذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو
جس نے اللہ پاک کو اِیذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔(ترمذی،
5/463،حدیث: 3888)
2-صحابہ
کرام علیہم الرضوان کی عزت و تعظیم کرنا:حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے
نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/ 413، حدیث: 6012)ایک اور حدیثِ پاک میں ہے:
میرے صحابہ کے معاملے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری امت کے بہترین لوگ ہیں۔
(حلیۃ الاولیاء،1/ 311)
3-صحابہ
کرام علیہم الرضوان کی اتباع و پیروی کرنا:حضور ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:میری
اور خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرو۔(مؤطا امام مالک،3/108،حدیث:709)اور
فرمایا:میرے صحابہ سِتاروں کی مانند ہیں،تم اِن میں سے جس کی بھی اِقْتدا کروگے
ہدایت پاجاؤ گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)
4-
کسی صحابی کو برا نہ کہنا اور ان کی عزت کی حفاظت کرنا:نبی ِکریم ﷺ
کا فرمانِ عظمت نشان ہے:میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی اُحد
پہاڑ سوناخیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مُد کو پہنچ سکتا ہے اور
نہ ہی مُد کے آدھے کو۔(بخاری، 2/522،حدیث:3673)
بہارِ شریعت
میں ہے:تمام صحابۂ کرام رضی ﷲ عنہم اہلِ خیر و صلاح اور عادل ہیں۔ ان کا جب ذکر
کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ ( بہارِ شریعت،حصہ:1)
آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:جو میرے صحابہ کو برا کہے،اس پر اللہ کی لعنت اور جوان کی عزت کی حفاظت کرے
میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔(ابن عساکر،44/22)یعنی اسے جہنم سے محفوظ
رکھوں گا۔ (سراج منیر شرح جامع الصغیر، 3/ 86)
صحابہ
کی تعریف:شریعت
میں ہر وہ شخص صحابی ہے جس نے حالتِ ایمانی میں سید المرسلین،رحمۃ اللعلمین، حضور
اکرم ﷺ کی ظاہری حیات میں ملاقات کی ہو اور پھر ایمان پر ہی خاتمہ ہوا ہو۔مختلف
ائمہ کرام نے مختلف انداز میں صحابی کی تعریف بیان کی ہے۔
حقوق صحابہ: صحابہ کرام
علیہم الرضوان کا مقام و مرتبہ ساری امت سے افضل و اعلیٰ ہے۔ اسی فضیلت کی بنا پر
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے ہم پر کچھ حقوق ہیں۔قرآنِ کریم اور احادیثِ
مبارکہ میں بھی حضرات صحابہ کرام کے کچھ حقوق و آداب بیان ہوئے ہیں جو مندرجہ ذیل
ہیں:
1-
تعظیم و توقیر:حقوق
ِصحابہ میں سب سے اہم حق صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعظیم و توقیر ہے۔
ہم پر لازم ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی شایانِ شان ان کی تعظیم و
تکریم کریں۔ خود احمدِ مجتبیٰ، محمد مصطفٰے ﷺ نے حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی تعظیم کا حکم دیا ہے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے: میرے صحابہ کا
اکرام کرو، کیونکہ صحابہ تم میں سب سے زیادہ بہتر ہیں۔ (نسائی)
2-صحابہ
کرام رضی اللہ عنہ سے محبت:صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت
ہمارے ایمان کا تقاضہ ہے اور صحابہ کرام سے محبت رضائے الہٰی کا ذریعہ ہے اور ان
سے عداوت اور بغض اللہ پاک اور رسول ﷺ کی ناراضی کا باعث ہے۔ حضورِ اقدس،رحمتِ
عالم ﷺ نے حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کی تلقین اس انداز میں فرمائی
ہے:اپنی اولاد کو تین خصلتوں کی تعلیم دو:( 1) اپنے
نبی ﷺ کی محبت(2) نبی ﷺ کے اہلِ بیت کی محبت اور (3) قرآنِ مجید کی تلاوت۔(ترمذی، 2/ 219)
3-صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم کی افضیلت پر ایمان:نبوت کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ
مقام و مرتبہ حضرات صحابہ کا ہے۔ کوئی بھی متقی و پرہیز گار،ولی،محدث،مفسر، صحابہ
جیسی شان نہیں پاسکتا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بےشمار فضائل و کمالات رکھتے
ہیں۔قرآن و حدیث میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کثرت سےفضائل وارد ہوئے
ہیں۔ارشاد باری ہے:
وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ
الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا
عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ
فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 11،
التوبۃ: 100) ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ
ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے
ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔
حضور اکرم ﷺ
نے متعدد مقامات پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی فضیلت بیان فرمائی ہے،چنانچہ حضور
ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو، کیونکہ اگر تم میں کوئی احد (پہاڑ) بھر
سونا خیرات کرے تو ان کے ایک مُدکو پہنچے نہ آدھے کو۔ (بخاری، 2/ 522،حدیث:3673)
4-اِتباعِ
صحابہ:حضرات
صحابہ اُمّتِ محمدیہ کی وہ جماعت ہے جس کے ذریعے اللہ پاک نے اپنا دین اس زمین پر
نافذ فرمایا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی پیروی کرتے ہوئے ہم گناہوں اور فتنوں سے
بچ سکتی ہیں۔ حدیثِ پاک میں بھی ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِتباع کی تاکید
کی گئی ہے۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد پاک ہے:میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار
کرو۔ (مؤطا امام مالک،3/108،حدیث:709)
5-
دفاعِ صحابہ:صحابہ
کرام رضی اللہ عنہم سے سچی محبت رکھنے اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا ایک اہم حصہ
یہ بھی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر تہمتیں لگانے والوں سے ان کا دفاع کیا
جائے اور جو کوئی ان سے بغض رکھتا اور ان کی توہین کرتا ہے اس سے بغض رکھا جائے
اور اس سے نفرت کی جائے۔اس کی دلیل رسولِ اکرم ﷺ کا یہ فرمان ہے:جس نے میرے صحابہ
کا میری وجہ سے دفاع کیا اور عزت کی تو قیامت کے دن میں اس کا محافظ ہوں گا اور جس
نے میرے صحابہ کو گالی دی تو اس پر اللہ کی لعنت ہو۔( فضائل الصحابہ للامام احمد،
2 /908، حدیث:1733) اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ
علیہم اجمعین کی سیرت کا مطالعہ کرتے ہوئے ان کی پیروی کرنے اور محبت و عقیدت کے
ساتھ ان کا ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین
ارشادِ باری
ہے:رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ
جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ
الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)
(پ11، التوبہ: 100)تَرجَمۂ کنز الایمان: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور
ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں
یہی بڑی کامیابی ہے۔
صحابی
کی تعریف:صحابی
وہ خوش نصیب مؤمن ہیں جنہوں نے ایمان اور ہوش کی حالت میں حضور ﷺ کو دیکھا،انہیں
حضور ﷺ کی صحبت نصیب ہوئی، پھر ان کا خاتمہ ایمان پر ہوا ہو۔(امیر معاویہ،ص 19 )
حق
کا مفہوم: حقوق
جمع ہے حق کی، جس کے معنیٰ ہیں:فردیا جماعت کا ضروری حصہ۔(معجم وسیط،ص188)
حق کے لغوی
معنی صحیح، مناسب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ذیل میں صحابہ کرام
رضی اللہ عنہم کے حقوق بیان کیے گئے ہیں:
1)حضرت عمر
فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولُ اللہ ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کی
عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/413،حدیث: 6012)
2)ایک حدیثِ
پاک میں ہے:میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے
ہدایت پاجاؤ گے۔(مشکوٰۃ المصابیح،2/414،حدیث: 6018)
3)حضور ﷺنے
فرمایا: میرے صحابہ کو بُرا نہ کہو، کیونکہ اگر تم میں کوئی احد(پہاڑ) بھر سونا
خیرات کرے تو ان کے ایک مد کو پہنچے نہ آدھے کو۔( بخاری،2/522،حدیث:3673)مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ
اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس حدیث سے معلوم ہو ا!حضرات صحابہ کا ذکر
ہمیشہ خیر سے ہی کرناچاہیے۔ کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔یہ حضرات وہ ہیں
جنہیں رب نے اپنے محبو ب کی محبت کے لیے چنا۔
4)شفیعِ امت ﷺ
نے فرمایا: جو میرے صحابہ کو بُرا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی
حفاظت کر ے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔(ابن عساکر، 44/ 222)یعنی اسے
جہنم سے محفوظ رکھوں گا۔ (سراج منیر، 3/ 86)
5)میرے صحابہ
کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے صحابہ کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد ان کو
طعن وتشنیع کا نشانہ نہ بنالینا۔پس جس شخص نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی
وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کے سبب ان سے
بغض رکھا اور جس نے انہیں ایذا پہنچائی تو اس نے ضرور مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے
مجھے ایذا پہنچائی تو ضرور اس نے اللہ پاک کو ایذا پہنچائی تو جس نے اللہ پاک کو
ایذا پہنچائی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے گا۔ (ترمذی، 5/463،حدیث:3888)
اللہ پاک ہمیں
حقیقی معنوں میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا ادب و احترام کرنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین یارب العالمین
جس
مسلماں نے دیکھا انہیں ِاک نظر اس
نظرکی بصارت پہ لاکھوں سلام
(حدائق
بخشش)
حقوقِ
صحابہ از بنت مصطفٰے حیدر،فیضان فاطمۃ الزہرا مدینہ کلاں لالہ موسیٰ
اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ
دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) (پ 9،
الانفال: 04) ترجمہ کنز الایمان: یہی سچے مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب
کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
صحابی
کی تعریف: حضرت
علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یعنی جن خوش نصیبوں نے
ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان پر ہی ان
کا انتقال ہوا ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔(نخبۃ الفکر،ص111)
حق
کا مفہوم: حقوق
جمع ہے حق کی جس کا معنیٰ ہے فرد یا جماعت کا ضروری حصہ۔(معجم وسیط،ص188)
حق
کے لغوی معنی:
صحیح، مناسب، سچ یا استحقاق کے ہیں۔
تمام صحابہ کی
فضیلت کا اعتقاد رکھنا واجب ہے۔صحابہ کرام کے حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
1)حضرت عمر
فاروق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: حضور ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ
تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
2)حضور ﷺ نے فرمایا: جب تم لوگوں کو دیکھو کہ
میرے صحابہ کو بُرا کہتے ہیں تو کہو:اللہ پاک کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔(ترمذی،
5/464، حدیث: 3892)
شرح
حدیث:حضرت
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یعنی میرے
صحابہ کرام تو خیر ہی خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ بُرائی تمہاری ہی طرف
لوٹتی ہے اور اس کا وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔ (مراۃالمناجیح،8/344)
3)حضور ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کی جس نے میری وجہ سے عزت کی تو میں
بروزِ قیامت اس کا محافظ ہوں گا اور جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اللہ پاک نے اس
پر لعنت کی ہے۔(
فضائل الصحابہ للامام احمد، 2 /908، حدیث:1733)
4)إذا ذكر أصحابي فأمسكوایعنی
جب میرے اصحاب کا ذکر آئے تو باز ہو (یعنی بُرا کہنے سے باز رہو)۔ (معجم کبیر، حدیث:1427)
شرح
حدیث:حضرت
علامہ علی قاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:یعنی صحابہ کرام کو بُرا بھلا کہنے سے
باز رہو۔ قرآنِ کریم میں ان کے لئے رضائے الہٰی کا مثردہ(یعنی خوشخبری)بیان ہو چکی
ہے۔ضرور ان کا انجام پرہیزگاری اور رضائے الہٰی کے ساتھ جنت میں ہوگا۔یہ وہ حقوق
ہیں جو امت کے ذمہ باقی ہیں۔ لہٰذا جب ان کا ذکر کرو تو صرف اور صرف بھلائی اور
نیک دعاؤں کے ساتھ کرو۔(مرقاۃ،9/282)اللہ
پاک ہمیں حقیقی معنوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی محبت عطا فرمائے۔(آمین)
وہ لوگ جنہوں
نے ایمان کی حالت میں آقا ﷺ کی صحبت ِبابرکت کا شرف حاصل کیا ہو اور ایمان ہی کی
حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں ان کو صحابہ کہتے ہیں۔انبیائے کرام کے بعد لوگوں
میں سب سے بہتر صحابہ کرام ہیں۔ان حضرات کی قدر و منزلت کا کیا کہنا کہ اللہ پاک
اور اس کے رسول ﷺ ان سے راضی ہیں۔حتی کہ ان کے جنتی ہونے کی گواہی خود قرآنِ کریم
میں بیان ہے،چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:رَضِیَ اللّٰهُ
عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ۔ان کے تقویٰ و فضائل پر قرآن و حدیث
شاہد ہیں۔وہ لوگ جو ان کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں وہ اپنے لیے اللہ پاک اور اس
کے حبیب ﷺ کی ناراضی مول لیتے ہیں اور اپنے لیے سوائےبُرائی کے کچھ حاصل نہیں
کرتے۔امتِ محمدیہ پر ان عظیم ہستیوں کے حقوق قرآن و حدیث میں ذکر ہوئےہیں،ان میں
سے چند یہ ہیں:
1-
عزت کرو: آقا
ﷺ نے فرمایا:صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/285،حدیث:5751)
اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سب
سے بہتر وہ ہی ہیں جنہوں نے آقا ﷺ کی صحبت اختیار کی ہو اور وہ صحابہ کرام ہیں۔
2-استغفار
یعنی مغفرت کی دعا کرو:بے شک صحابہ جنتی ہیں اور ان کے لیے دعائے
مغفرت کرنے میں ہمارے لیے جنت کی بشارت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے
تمام صحابہ سے جو محبت کرے ان کی مدد کرے اور ان کے لیے استغفار کرے( یعنی مغفرت
کی دعا کرے) تو اللہ پاک اسے قیامت کے دن جنت میں میرے صحابہ کا ساتھ نصیب فرمائے
گا۔ ( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 14)
3-محبت کرو اور بغض نہ رکھو:صحابہ کے حق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ان سے محبت کی جائے اور اپنے دلوں
اور زبانوں پر ان کے لیے کوئی بُرائی نہ لائی جائے اور ان حضرات کے آپس کے معاملات
کو دلیل بنا کر کسی ایک کی تعریف میں اس طرح حد سے گزرنا کہ دوسرے صحابہ کی شان
میں کمی ہو نیز سب صحابہ عادل اور حق پر ہیں اور یہی عقیدۂ اہلِ سنت ہے۔مزید آقا
ﷺ نے ان کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا اور اس ہی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
میرے صحابہ کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو، اللہ پاک سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ
نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی
اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے
انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی
اورجس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے۔ (ترمذی،
5/463، حدیث: 3888)
4۔گالی
نہ دو: جب
مشرکین کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے نہ صرف اسلام لانے سے انکار کیا
بلکہ صحابہ کی شان میں گستاخی کی جس پر اللہ پاک نے سورۃ البقرہ آیت نمبر 13 میں
ان کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ
السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ(۱۳) ترجمہ
کنزالایمان: سنتا ہے! وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں۔
اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں بھی ارشاد ہے: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی
گلوچ نہ کرو۔(ان کا مقام یہ ہے کہ )اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر
سونا(اللہ کی راہ میں) خرچ کرے تو ا س کا ثواب میرے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے ایک
مُد (ایک چھوٹی سی مقدار)بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری،
2/522، حدیث:3673)
5۔
بُرا نہ کہو: رسول
اللہ ﷺ صحابہ کرام کی عزت کرنے اور ان کے بارے میں غلط بات کرنے سے منع فرماتے
ہوئے ارشاد فرمایا:جس نے انہیں بُرا بھلا کہا اس پر اللہ پاک،فرشتوں اور تمام
لوگوں کی لعنت ہو۔ بروزِ قیامت اللہ پاک نہ تو اس کے نفل قبول فرمائے گا اور نہ ہی
فرض۔ ( دس اسلامی عقیدے، ص 107)
لہٰذا ہمیں
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دل سے تعظیم کرنی چاہیے۔اللہ پاک سب مسلمانوں کو ان
کی شان میں ذرہ برابر بھی گستاخی کرنے سے محفوظ فرمائے اور ان مبارک ہستیوں کے
حقوق بجا لانے کی توفیق بخشے۔
حقوقِ
صحابہ از بنت ِمنظور احمد،فیضانِ مدینہ العطار ٹاؤن میرپور خاص سندھ
ارشادِ باری
ہے:مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ
عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُم (26،الفتح:
29) ترجمہ کنز الایمان:”محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت
ہیں اور آپس میں نرم دل۔“آیت کی ابتدا میں اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کی پہچان کروارہا
ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔آیت کے اگلے جُز(وَ
الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ)میں اللہ پاک نے اپنے حبیبﷺ کے صحابہ
کرام کی شان بیان فرمائی کہ وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل۔(تفسیرصراط
الجنان)
یاد رہے!صحابہ
کرام وہ ہستیاں ہیں جنہیں اپنے اللہ پاک اور حبیب ﷺ سے بے پنا ہ عشق و محبت تھی،جس
کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ حضور ﷺکے دشمنوں سے بے حد نفرت اور حضورﷺ کے پیاروں سے بے
حد محبت کرتے۔ چونکہ حضورﷺ کی پیاری چیزوں میں سے ایک آپ کی امت بھی ہے۔لہٰذا
صحابہ کرام نے اس امت کی خیرخواہی،دینِ اسلام کی سربلندی،دین کی نصرت،حمایت اور
دنیا میں امن قائم کرنے کے لیےکئی تکالیف برداشت کیں اور قربانیاں دیں حتّٰی کہ
بعض صحابہ کرام اپنی آنکھیں کھو بیٹھے اور بعض مشرکین کی طرف سے دیئے جانے والے
مصائب کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔انہی ہستیوں کے کچھ حقوق امتِ محمدیہ پر
عائد ہوتے ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
1۔
صحابہ سے محبت:
ان سے محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ کبھی بھی بُرائی سے تذکرہ نہ کریں نہ سنیں۔
2-عیب
جوئی نہ کریں:
مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو،اس لیے کہ اگر تم
میں کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک یا آدھے مُد کے برابر
بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری، 2/522،حدیث: 3673 )
3-ان
کی تعظیم و تکریم کی جائے:فرمانِ مصطفٰے ﷺ:میرے صحابہ کا احترام
کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں۔ (نسائی)
4-خیر
کے ساتھ ذکر کرنا:اہلِ
سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ اہلِ خیرو صلاح اور عادل ہیں۔ لہٰذا خیر کے
ساتھ ان کا ذکر کرنا فرض ہے۔
محمد اویس
طارق عطاری (درجہ ثانیہ جامعۃُ المدینہ فیضان عطار سخی حسن، کراچی پاکستان)
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم وہ خوش نصیب اشخاص ہیں جو حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
صحبت یا زیارت سے مشرف ہوئے اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لائے
اور ایمان کی حالت میں وصال فرمایا۔ ان حضرات کی شان اللہ و رسول نے بیان فرمائی
ہے ۔ ان حضرات کے حقو ق بہت ہیں جن میں سے 5 درج ذیل ہیں :۔
پہلا حق صحابۂ کرام کی پیروی کرنا :صحابۂ کرام کی پیروی ہمارے لئے ذریعہ نجات ہے ۔ حضور اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام
کی پیروی کرنے کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے : میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ان
میں سے جس کی پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے۔ ( جامع بیان العلم، ص 361 ،حدیث: 975) اس
حدیث پاک میں رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام کی پیروی کو
ہدایت کا معیار فرمایا ہے ۔
اسی طرح ایک اور حدیث میں حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ
فرماتے تھے : تم ان کی فضیلت پہچانو ۔ اور
ان کے طریقے کی پیروی کرو ۔ اور جس قدر طاقت ہو تم ان کے اخلاق اور سیرتوں کو اختیار کرو۔ اس لئے کہ وہ سیدھے پر تھے ۔( مشکوۃ
شریف ، کتاب الایمان )
دوسرا حق صحابۂ کرام کی عزت کرنا :صحابۂ کرام کی عزت کرنا ہم پر ضروری ہے کہ انہیں کی وجہ سے
آج ہمارے پاس قراٰن کریم کتاب کی شکل میں موجود ہے ۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے صحابہ کی عزت کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہےکہ میرے صحابہ کی
عزت کرو کیونکہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں ۔ ( الاعتقاد للبیھقی، ص 320)
ایک اور حدیث پاک
میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام کی عزت کرنے کا حکم ارشاد
فرمایا: حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رفعت نشا ن ہے کہ خبردار میرے صحابہ تم میں بہترین ہیں
انکی عزت کرو۔ ( المعجم الاوسط ،حدیث: 6405)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! ہمیں صحابۂ کرام کی عزت دل
کی گہرائیوں سے کرنی چاہئے ۔
تیسراحق صحابۂ کرام سے محبت کرنا :صحابۂ کرام سے محبت کرنا ہم پر ضروری ہے کیونکہ انہوں نے
ہی ہمیں رسول اللہ کی محبت کرنا سکھائی ہے ۔
انصار سے محبت نہ کرے گا مگر مؤمن اور ان سے دشمنی نہ کرے
گا مگر منافق ۔ تو جس نے ان سے محبت کی اللہ پاک اس سے محبت کرے گا اور جس نے ان
سے بغض رکھا اللہ پاک اس سے ناراض ہو ۔(
بخاری ، 2/ 555 ،حدیث: 3783)
پیارے پیارے اسلامی بھائیوں ! اس حدیث پاک میں رسول اللہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انصار ( کہ جو صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم میں سے
وہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم ہیں جنہوں
نے مکے سے ہجرت کرکے آنے والے صحابہ کو
اپنے مال میں سے نصف حصہ دیا ) کی محبت کو مؤمن کی پہچان ارشاد فرمایا اور انصار
سے بغض کو منافق کی پہچان ارشاد فرمایا اس سے ہمیں صحابۂ کرام سے محبت کرنے کی
اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔ صدر الافاضل مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہ علیہ صحابۂ کرام سے محبت کرنے کے
حوالے سے اپنی کتاب سوانح کربلا میں ارشاد فرماتے ہیں کہ مسلمان کو چاہئے کہ صحابۂ
کرام کا نہایت ادب رکھے اوار دل میں ان کی عقیدت و محبت کو جگہ دے۔ ان کی محبت
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت ہے ۔
چوتھا حق صحابۂ کرام
کے بارےمیں سوء ادب سے بچنا :ہم پر ضروری ہے کہ
ہم صحابۂ کرام کے بارے میں کوئی بھی بات
ایسی نہ کرے کہ جس میں صحابۂ کرام کی بے ادبی کا پہلو نکلتا ہو کہ جن کے بارے میں
خود خدائے پاک ارشاد فرماتا ہے : وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ
الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ
لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں
لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور
عزت کی روزی۔(پ 10 ، الانفال، 74)
اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابۂ کرام کو
برا بھلا کہنے والے شخص کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ جو میرے صحابہ کو برا کہے
اس پر اللہ کی لعنت اور جو انکی عزت کی حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں
گا۔ ( یعنی اسے جہنم سے محفوظ رکھا جائے گا)۔ (تاریخ ابن عساکر، 3/ 86)
پانچواں حق تمام صحابۂ
کرام کے جنتی ہونے کا یقین رکھنا : صحابۂ کرام وہ
خوش نصیب اشخاص ہیں کہ جن جنتی ہونے کا اعلان خود خدائے پاک ارشاد فرماتا ہے: لَا تَجِدُ قَوْمًا یُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ
یُوَآدُّوْنَ مَنْ حَآدَّ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَوْ كَانُوْۤا اٰبَآءَهُمْ
اَوْ اَبْنَآءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِیْرَتَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ كَتَبَ
فِیْ قُلُوْبِهِمُ الْاِیْمَانَ وَ اَیَّدَهُمْ بِرُوْحٍ مِّنْهُؕ-وَ یُدْخِلُهُمْ
جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاؕ-رَضِیَ اللّٰهُ
عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُؕ-اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ
اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ۠(۲۲) ترجَمۂ کنزُالایمان: تم نہ
پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے
جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ اُن کے باپ یا بیٹے یا بھائی
یا کنبے والے ہوں یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرما دیا اور اپنی طرف
کی روح سے ان کی مدد کی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان
میں ہمیشہ رہیں اللہ ان سے راضی اور وہ
اللہ سے راضی یہ اللہ کی جماعت ہے سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے۔(پ 27 ،
المجادلۃ: 22)
مزمل حسین ملتانی
(درجہ خامسہ ماڈل جامعۃُ المدینہ اشاعت الاسلام ملتان پاکستان)
صحابی : جس ہستی نے ایمان کی حالت میں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی زیارت کی ہو اور ایمان پرہی اس کا خاتمہ ہوا ہو اسے صحابی کہتے ہیں ۔
صحابی کی جماعت انبیا اور رسولوں کے بعد سب سے افضل ہے اور لوگوں
میں سے سب سے بہتر لوگ ہیں جن کو اللہ نے اپنے حبیب کی محبت کے لئے منتخب فرمایا، صحابۂ
کرام آپ علیہ السّلام پر ایمان لائے اور آپ کی مشکل وقت میں مدد کی اور راہ خدا میں
آنے والی مشکلات پر صبر کیا ، اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا دین ہم
تک پہنچایا۔
صحابۂ کرام کے حقوق
: (1) سب صحابہ کو جنتی ماننا: حضور صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سب صحابہ حق پر تھے ان سب کو جنتی ماننا ہم پر لازم ہے کیونکہ
ان ہستیوں سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور ان ہستیوں کے بارے میں اللہ قراٰن میں فرماتا ہے: وَ كُلًّا وَّعَدَ
اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان
سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا۔(پ 27 ، الحدید :10)
اہل سنت کا ہے بیڑا پار
اصحاب حضور
نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت
رسول اللہ کی
(2)خلفائے اربعہ کی
خلافت کو تسلیم کرنا: سب کے سب صحابۂ کرام ہمارے سروں کے تاج ہیں لیکن فضلیت کے اعتبار سے صحابۂ کرام
کی کچھ ترتیب ہے اور اس ترتیب میں سب سے افضل چار صحابۂ کرام ہیں جن کو خلفائے اربعہ بھی کہا جاتا ہے ۔ مفتی امجد علی اعظمی فرماتے ہیں : صحابہ میں سب سے افضل حضرت
ابوبکر صدیق ہیں پھر حضرت عمر فاروق پھر
حضرت عثمان اور پھر حضرت علی افضل ہیں ۔( بہار شریعت ،1/ 249)
جنان بنے کی محبان چار یار کی
قبر
جو اپنے سینے میں یہ چار باغ
لیکے چلے
(3)صحابہ کے فضائل کو بیان کرنا : صحابۂ کرام کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کے فضائل و مناقب کو بیان کیا جائے اور صحابہ
کے فضائل میں بہت سی احادیث آئی ہیں ان میں سے صرف دو درج ذیل ہیں ۔
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا
:بہترین لوگ میرے زمانہ کے ہیں ( یعنی صحابہ کرام ) پھر جو ان کے قریب ہیں ( یعنی تابعین ) پھر جو لوگ ان کے قریب ہیں
(یعنی تبع تابعین ) ۔ ( بخاری شریف، 2/ 2652)
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کی پیروی کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا
: یعنی میرے صحابہ ستاروں کے مانند ہیں ان
میں سے جس کی بھی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے ۔( مشکوۃ المصابیح ، کتاب المناقب ،
حدیث: 2018)
ہیں مثل ستاروں کے میرے بزم
کے ساتھی
اصحاب کے بارے میں یہ فرمانِ
نبی ہے
(4) صحابہ کی تعظیم
کرنا: صحابہ کے حقوق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ان کی جان و دل سے عزت و تکریم کی جائے اور اس کا حکم
تو خود ہمیں حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے دیا ہے ۔
آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میرے
صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں ۔( الاعتقاد للبیھقی ، ص 320)
صحابہ کا گدا ہو ں اور اہل
بیت کا خادم
یہ سب ہے آپ کی تو عنایت یا
رسول اللہ
(5) صحابہ کو عیب نہ
لگانا :صحابۂ کرام تمام کے تمام متقی و پرہیزگار تھے ان کو برا
بھلا ہر گز ہر گز نہیں کہنا چاہئے اور صحابہ کے بارےمیں زبان درازکرنے والوں سے
بھی کوسوں دور رہنا چاہئے ، صحابۂ کرام
کو برا بھلا کہنے والوں کے بارے میں خود آقا کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے ارشاد فرمایا کہ جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہے اس پر اللہ کی فرشتوں کی اور
تمام انسانوں کی لعنت اللہ پاک نہ اس کا
کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ نفل ۔( الدعا للطبرانی،
ص 581)
ایک اور مقام پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا کہ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ
میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو اللہ پاک کی تمہارے شر پر لعنت ہو ۔( ترمذی ، حدیث: 3892)
اللہ کریم سے دعا
ہے کہ ہمیں صحابۂ کرام کی سچی پکی محبت عطا فرمائے ان کے فضائل و مناقب بیان کرتے
رہنے کی توفیق و سعادت عطا فرمائے اور اللہ ہمیں جنت میں حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ کے پڑوس میں جگہ نصیب فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
جس قدر جن و بشر میں تھے
صحابہ شاہ کے