صحابی اس ذات کو  کہتے ہیں جس نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پا ئی ہو اور ایمان کی حالت میں ان کا خاتمہ ہوا ہو ۔ صحابۂ کرام وہ ذاتِ عالیہ ہیں کہ جنہوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے (direct) علم حاصل کیا ، انبیا و مرسلین کے بعد تمام جن و انس اور ملک سے افضل جناب صدیق اکبر ہیں پھر عمر فاروقِ اعظم پھر عثمانِ غنی پھر علی پھر عشرہ مبشرہ پھر حضرات حسنین کریمین اہلِ بدر پھر اہلِ احد پھر بیعتِ رضوان والے پھر ان کے بعد سب صحابۂ کرام برابر ہیں ۔ یہ سب کے سب جنتی ہیں کوئی ولی چاہے کتنے ہی مرتبے کو نہیں پہنچ سکتا کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بد گمراہی ہیں۔ رسول اللہ کے سب کے سب صحابۂ کرام عادل و ثقہ تھے ۔ اللہ سب سے راضی ہے جیسے قراٰن میں ہے: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔( پ 11 ، التوبۃ: 100)

(1)خلفائے اربعہ کی خلافت کو تسلیم کرنا :خلفائے اربعہ نے رسول اللہ کی خلافت کا حق ادا کیا ، ان کی خلافت بترتیب و فضلیت ہے یعنی جو ان میں سے افضل تھا وہ خلافت پاتا گیا ، جو شخص حضرت علی کو شیخین سے افضل بتائے وہ گمراہ بد مذہب ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہسے روایت ہے کہ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ابوبکر بہتر ہیں سب اگلوں سے اور سب پچھلوں سے بہتر ہیں ،سب آسمان والو ں سے اور زمین والوں سے سوائے انبیا و مرسلین کے۔ ( کنز اعمال )

(2)ان کی لغزش میں نہ پڑنا :صحابۂ کرام کے آپس کے معاملات میں جو لغزشیں ہوئی ان میں پڑنا حرام اور سخت حرام ہے ۔ سب صحابہ حق پر تھے جو ان کے درمیان معاملات ہوئے اللہ ان کو دور فرما دیا ۔جیسے قراٰنِ کریم میں ہے : وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیے۔( پ 8 ، الاعراف: 43)

کیونکہ جن سے لغزشیں ہوئی وہ مجتہد تھے اور مجتہد غلطی پر ہو تو اسے ایک نیکی ملتی ہے ۔ کیونکہ یہ اختلاف خواہش نفس کے لیے نہیں تھا ۔

(3)صحابہ کو گالیاں دینا: صحابۂ کرام میں سے کسی ایک کو گالی دینا برا اور گستاخی ہے اور ایسا کا قائل رافضی ہے ۔ سب صحابہ متقی تھے اور متقی ایسے کہ ان کے جیسا پرہیزگار کوئی نہیں تھا حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسو لِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا( اللہ کی راہ ) میں خرچ کرے تو اس کا ثواب میرے صحابہ کے ایک مد یا آدھے مد کے ثواب کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔( مشکوۃ ،کتاب مناقب الصحابہ ، حدیث:5750)

(4) صحابہ سب سے زیادہ برگزیدہ اور نیک تھے کیونکہ تربیت سے براہ راست تربیت یافتہ تھے ، حضرت عمر کہتے ہیں میں کہ رسول اللہ نے فرمایا: میرے اصحاب کی تعظیم و تکریم کریں کیونکہ تم میں بہترین ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب ہیں ( تابعین ) پھر وہ لوگ جو ان کے( تابعین ) کے قریب ہیں ( تبع تابعین ) اور اس کے بعد جھوٹ ظاہر ہو جائے گا یہاں تک کہ ایک شخص قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے قسم کا مطالبہ نہ ہوگا اور گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی دینے کا نہ کہا جائے گا۔ دیکھو جو جنت کے قریب رہنا چاہئے تو اس کو چاہئے کہ جماعت کا لازم پکڑے کیونکہ شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے جوتنا ہوتا ہے۔ جس شخص کو اس کی نیکی خوشی پہنچائے اور اس کی بری اس کو غمگین کردے وہ مؤمن ہے۔( مشکوۃ ، کتاب مناقب الصحابہ ج 1 ،حدیث: 5958)

(5)صحابۂ کرام کو جنتی ماننا: حضور کے سارے سب صحابہ جنتی ہیں اللہ نے سب سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے ، صحابۂ کرام کو برا کہنے والا لعنتی ہے سب صحابہ آقا کے سچے عاشق تھے اور آقا کے غلام تھے ،انکےجنتی ہونے کے بارے میں آیت پیش کی جاتی ہے : اِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ وَهُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲) یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ تُوْعَدُوْنَ(۱۰۳)

پیارےپیارے اسلامی بھائیوں ! صحابۂ کرام مصیبتیں جھیل کر اسلام کو ہم تک پہنچانے کا سبب بنے، انہوں نے قراٰنِ پاک کو محفوظ کیا ، یہ حضرات خوفِ الٰہی ، دنیا سے بے رغبتی ،محبت کرنے والے، ہمدردری ، غمگسار اور ایک دوسرے پر مہربان تھے ۔ سب کے سب عادل اور متقی تھے ، ان کے بارے میں اپنی زبان کو لگام دینا چایئے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے انکی پیروی اور ان سے محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔

نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند تو ان میں سے جس کی تم پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے۔ ( مشکوۃ ،ج 2 ،حدیث: 5964)

اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحابۂ کرام سچائی کے راستے کو ظاہر کرنے اور برائی کے اندھیروں کو دور کرنے والے ہیں ، انکے روحانی و جدانی چہرے اوار ان کے اخلاق ، کردار کی روشنی میں حق کا راستہ ظاہر ہوتا ہے اور بری کا اندھیرا چھٹ جاتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :

اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہیں عزت رسول اللہ کا

ہمیں صحابۂ کرام کی سیرت کو پڑھنا اور ان پر عمل کرنا چا ہیے ، اس کے لئے سب سے بہترین کتاب دعوت اسلامی کے شعبہ مکتبہ المدینہ نے چھاپی ہے جس کا نام ہے "صحابہ کا عشق رسول" ہے۔ اللہ سے دعا ہے ہمیں صحابہ سے محبت کرنے اور ان سے وفا داری کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین

مقرب فرشتوں کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ مرتبہ صحابۂ کرام کا ہے۔ اہلسنت کا اس بات پر اجماع ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :  میری امت کے سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں۔( الشفاء ، 2/52)

صحابی کی تعریف :جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی اور ایمان پر انتقا ل ہو ا۔ ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں ۔(نخبۃ الفکر، ص111)

تو ظاہر ہوا کہ صحابۂ کرام کے حقوق کو پہچاننا نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم میں سے ہے۔ تو ہر مسلمان پر صحابۂ کرام کے حقوق کا جاننا لازمی ہے تاکہ ان حقوق کو ادا کرکے مسلمان اپنی زندگی کے مقصد کو پانے میں کامیاب ہوسکے ۔

(1) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے انکی تعظیم کی جائے : اس لئے کہ صحابۂ کرام انبیاء و مرسلین کے بعد سب سے بہتر ہیں ۔ کیونکہ اللہ پاک کے ان پیارے بندوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پائی جن کے تقویٰ و پرہیزگاری کی گواہی خود قراٰن پاک نے دی : وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پرہیزگاری کا کلمہ اُن پر لازم فرمایا۔( پ 26 ، الفتح: 26)

(2) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر صحابی کو جنتی مانا جائے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے : وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا۔(پ 27 ،الحدید : 10)

حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس شخص کو آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا اور میرے دیکھنے والے کو دیکھا ۔( ترمذی ،5 / 1461 حدیث: 8438)

(3) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کو برا بھلا نہ کہا جائے اور ان کے گستاخوں کے ساتھ نہ بیٹھا جائے ، جیسا کہ حدیث میں ہے : نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس نے انہیں برا بھلا کہا اس پر اللہ پاک اور فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت ہے بروزِ قیامت اللہ پاک نہ تو اس کا نفل قبول کرے گا اور نہ ہی فرض۔( المستدرک للحاکم، 4/833 حدیث: 6715)

ایک اور جگہ نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ پاک نے مجھے منتخب فرمایا اور میرے صحابہ منتخب فرمائے عنقریب ایسی قوم آئے گی جو ان کی شا ن گھٹائے گی انہیں عیب لگائے گی اور گالی دے گی لہذا تم ان کے ساتھ نہ بیٹھنا نہ انکے ساتھ کھانا نہ پینا نہ ان کے ساتھ نماز پڑھنا نہ ہی انکی نماز پڑھنا ۔( الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی، 9/ 199 )

(4) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی پیروی کی جائے جیسا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اَصْحابِیْ کَالنُّجُوْم، فَبِاَیِّہِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں ، ان میں سے جس کسی کی تم پیروی کروگے ، ہدایت پا جاؤگے ۔ (مشکوۃ المصابیح، کتاب المناقب، الفصل الثالث، 3/ 335، حدیث:6018) تو اس سے ثابت ہوا کہ ہر مسلمان پر صحابۂ کرام کی پیروی کرنا لازم ہے ۔

(5) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی باہمی اختلافات پر زبانیں بند رکھیں انکی آپسی معاملات پر "کیا " کیوں "کرنا حرام ہے کیونکہ ہماری کمزور عقلیں انکے درمیان ہونے والی معاملات کی حقیقت تک ہر گز نہیں پہنچ سکتی اور نہ ہی صحابۂ کرام کے درمیان ہونے والے معاملات میں باتیں کرنے کا حق حاصل ہے ۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحابۂ کرام کی تعظیم اور پیروی کرنے کی توفیق عطا فرمائیں اور انکی گستاخی کرنے اور ان کے گستاخوں کی محبت اور صحابۂ کرام کے باہمی اختلافات سے بحث کرنے سے بچائیں ۔ اٰمین

حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : جن  خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی ہو اور ایمان پر ان کا انتقال ہو ، ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں ( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 3)

" صحابی رسول " ہونا اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے ۔ بڑے سے بڑ ا ولی اور عبادت گزار صحابی کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا اور نہ ہی صحابی بن سکتا ہے کیونکہ انہوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پائی ، ان سے علم و عمل حاصل کیے، یہی وہ ہستیاں ہیں جن کی کوششو ں ، محبتوں ، قربانیوں اور تبلیغ سے ہمیں رکنِ اسلام کی دولت ملی ۔ حرمین شریفین کے رہنے والوں کے مزارات کا مصر ، سام ، یمن ، ترکی ، وغیرہ دنیا بھر میں ہونا ان کی کوششوں اور قربانیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ ایسے صحابہ کے ہر مسلمانوں پر کچھ حقوق ہیں جنہیں اس مضمون میں بیان کیا جائے گا ۔

(1) صحابی سے محبت کرنا : فرمانِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو میرے صحابہ ، ازواج اور اہل بیت سے عقیدت رکھتا ہے اور ان میں سے کسی پر طعن نہیں کرتا ( برا بھلا نہیں کہتا) اور ان کی محبت پر دنیا سے انتقال کرتا ہے وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجہ میں ہوگا ۔شرح حدیث : صالحین ( نیک لوگوں ) کے ساتھ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا درجہ اور جزا ہر اعتبار سے صالحین کی مثل ہوگی بلکہ کسی درجے میں کسی خاص اعتبار سے شرکت ہوگی اگرچہ مقام و عزت کے اعتبار سے لاکھوں درجے فرق ہو۔ جیسے محل میں بادشاہ اور غلام دونوں ہوتے ہیں لیکن فرق واضح ہے۔ ( ہر صحابی نبی جنتی جنتی ،ص 18 ح 31)

(2) صحابی کی عزت کرنا : فرمانِ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں۔ ( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 12ح 7)

فرمان آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : بے شک میری اُمت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ پرجُرأَت کرنے والے ہیں۔ شرح حدیث: یعنی وہ لوگ جو میرے صحابہ کو برا بھلا کہتے ہیں اور ان کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کی شان و منصب کے لائق نہیں ایسا کرنا سخت ترین حرام کا کام ہے ۔

صحابہ کو برا کہنا برائی پر جری ہونی کی علامت ہے اور ان کی عزت کرنا اچھے ہونے کی علامت ہے ۔ حق بات یہ ہے کہ تمام صحابہ کی عزت کی جائے اور ان کو برا کہنے سے زبان کو روکا جائے ، چاہے وہ صحابۂ کرام مہاجرین میں سے ہوں یا انصار میں سے ۔( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 17 حدیث: 29)

(3) صحابہ کی پیروی کرنا : فرمان ِ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں ، ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے۔ ( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 4 ،حدیث 8)

(4) صحابہ کی عزت کی حفاظت کرنا : سب سے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے : جو ان(صحابہ ٔکرام ) کی عزت کی حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا ( یعنی اسے جہنم سے محفوظ کروں گا )( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 15 ،حدیث :26)

(5) دعائے مغفرت کرنا : فرمانِ احمد مجتبی ٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : میرے تمام صحابہ سے جو محبت کرے ، ان کی مدد کرے اور انکے لئے استغفار ( دعائے مغفرت ) کرے تو اللہ پاک اسے قیامت کے دن جنت میں میں میرے صحابہ کا ساتھ نصیب فرمائے گا۔ ( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 14 ،حدیث: 19)

محترم قارئین! دورِ حاضر میں بھی صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی شان میں نامناسب کلمات استعمال کرنے والے لوگ موجود ہیں جن سے ہمیں خود بھی بچنا ہے اور اپنے بچوں کو بھی بچانا ہے ۔ عالمگیر غیر سیاسی تحریک دعوتِ اسلامی کا دینی ماحول ہمارے اور ہمارے بچوں کے لئے بہترین پناہ گاہ ہے ۔ اللہ پاک ہمیں تمام فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین

سیّدُ المُرسلين امام الانبياء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بذاتِ خود سراپا معجزہ ہیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اَنگ اَنگ(ہر عضو) اور ہر بُنِ مُو(بال کی جڑ) معجزه ہے۔ لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم كا عظيم معجزه صحابۂ کرام کی صورت میں آپ کی تیار کی ہوئی رجالِ کار(مَردوں) کی وہ جماعت اور افرادی قوّت تھی، جنہوں نے آگے چل کر اسلام کو دنیا کی وحدانی (تنہا) سُپر پاور بنادیا اور اُمّت پر اُن کا احسان ہے کہ انہوں نے دین کو اپنی اصل صورت میں بعد والوں تک پہنچایا۔ اِس اُمّت میں ذاتِ رَسالت مآب اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السّلام کے بعد انسانیّت کا سب سے قیمتی اثاثہ(سرمایہ) صحابۂ کرام کی جماعت ہے،جنہیں اللہ پاک نے اپنے حبیبِ مکرَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم كی صحبت سے صحابیت کے شرف سے مشرّف فرمایا۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے ہم پر بڑے احسانات ہیں، اور اِن احسانات کے تقاضے بھی ہیں جنہیں ”صحابۂ کرام کے حقوق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چند مُلَاحَظہ ہوں:۔

پہلا حق: حضرات شیخَین ابو بکْر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا مقام سب صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے بلند و بالا ماننا کیونکہ اس بات پر اَہلسنت کا اتفاق ہے۔ (دس اسلامی عقیدے،ص:119،مکتبۃ المدینہ)

دوسرا حق: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد خلیفہ بَرحق حضرت ابو بکْر صدیق پھر عمر فاروق پھر عثمان غنی پھر علیُّ المرتضی رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اِس ترتیب کو اسی ترتیب کے ساتھ ماننا۔(بنیادی عقائد اور معمولات اہلسنت، ص: 73،مکتبۃ المدینہ)

تیسرا حق: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر صحابی کو عادل اور نیک و پرہیز گار افراد کا سردار ماننا، کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم اُن میں سے جس کی بھی اِقتداء کرو گے ہدایت پاجاؤگے۔(مشکاۃ المصابيح، حدیث:6018)

چوتھا حق: تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے جنتی ہونے کو دل و جان سے تسلیم کرنا، کیونکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا.(پ27،الحدید:10)

پانچواں حق: ہر صحابی رسول کی کمال تعظیم کرنا، کیونکہ اللہ پاک نے اپنے لیے سجدے کرنے کا وہ ثواب نہیں رکھا جو ایمان اور مَحبَّت کے ساتھ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھنے کا رکھا ہے اور اس ثواب سے صرف صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو ہی مشرَّف فرمایا۔

صحابی : وہ ہستی ہے جنہوں نے حالتِ ایمان میں حضورنبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات فرمائی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو۔(شرح نخبة الفکر،ص111)

مراتب : بعد انبیا ومرسلین، تمام مخلوقِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل صدیق اکبر ہیں، پھر عمر فاروق اعظم، پھر عثمان غنی، پھر مولی علی پھر بقیہ عشرہ مبشِّرہ و حضرات حسنين واصحاب بدر واصحاب بيعةُ الرضوان (رضی اللہ عنہم) کے لیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔ (بہارشریعت،1/249،241، بتغیرقلیل)

دورِ صحابۂ کرام : مشہور قول کے مطابق صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا زمانہ 110 ہجری میں سب سے آخر میں انتقال فرمانے والے صحابی رسول حضرت ابو الطفيل عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ کے انتقال شریف پر پورا ہوگیا۔(نزہة القاری،3/801)

حقوقِ صحابۂ کرام : جس طرح ہر مسلمان پر اللہ پاک، اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، اور دیگر لوگوں کے حقوق ہیں۔ اسی طرح ہر مسلمان پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے بھی حقوق ہیں جن کو ادا کرنا بے حد ضروری ہے۔ ان میں سے 5 حقوق مندرجہ ذیل ہیں:

(1)محبت و عقیدت ہونا : اللہ پاک جب کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اُس کے دل میں میرے ( تمام ) صحابہ کی محبت پیدا فرما دیتا ہے۔(تاریخ اصبهان،1/467،حدیث: 929)کیونکہ جب بندہ قراٰن و حدیث کا علم حاصل کرتا ہے تو توجہ اس بات کی طرف جاتی ہے کہ یہ سب علم کن ہستیوں سے ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا، اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قراٰن و حدیث کا علم سب سے پہلے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی مقدس جماعت نے لیا اور آگے پھیلایا تو کیوں نہ پھر صحابۂ کرام سے دل و جان سے محبت و عقیدت ہو۔

(2)تعظیم کرنا : ہر وہ شخص جسے کوئی مقام و مرتبہ حاصل ہوتا ہے تو اس کی تعظیم ہوتی ہے جبکہ دینی مرتبہ اور اس میں بھی صحابیت کا درجہ جو انبیا کے بعد سب سے اعلٰی، تو ہر غیر صحابی کو صحابی کی تعظیم و توقیر لازم ہے، جیسا کہ فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں ۔ (الاعتقاد للبيهقى ،ص320)

(3)عزت و حفاظت کرنا : فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو میرے صحابہ کو بُرا کہے اُس پر اللہ پاک کی لعنت اور جو اُن کی عزت کی حفاظت کرے، میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔(تاريخ ابن عساكر،44/222) اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا کہے تو اس کو روکنا اور صحابۂ کرام کی عزت پر پہرا دینا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسی میں نجات ہے۔

(4) سب و شتم سے بچنا : فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : قیامت کے دن ہر شخص کو نجات کی اُمید ہوگی سوائے اس شخص کے جس نے میرے صحابہ کو گالی دی، بے شک اہل محشر اُن پر لعنت کریں گے ۔ (تاریخ اصبهان، 1/126) اللہ اللہ، وہ ایسا دن ہے کہ نفسا نفسی کا عالم ہوگا اور اس دن بھی صحابۂ کرام کو گالی دینے والے کو نجات کی امید نہ ہوگی۔ اسی لیے ہر مسلمان، صحابۂ کرام کو گالی دینا تو درکنار دل میں بھی برا جاننے کی غلطی نہ کرے۔

(5)صحابۂ کرام کے آپسی اختلاف میں نہ پڑنا : مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے باہم(یعنی اختلافی) جو واقعات ہوئے، اُن میں پڑنا حرام ، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جاں نثار اور سچے غلام ہیں۔(بہار شریعت،1/254) صحابۂ کرام کا یہ لازمی حق ہے کہ جو بھی معاملات انکے درمیان ہوئے اس میں کسی مسلمان کو اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی صحابی کی ادنٰی سی بے ادبی سیدھا جہنم میں گرا دے۔

اللہ پاک ہمیں صحابہ و اہلبیت کی پکی سچی محبت عطا فرمائے اور انکی پیروی نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

صحابی کسے کہتے ہیں؟: امام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃُ ﷲ علیہ نے صحابی کی تعریف (definition)یوں کی ہے جو بہت جامع ومانع اور اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے، کہ صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو۔ (نزهَۃ النظر بشرح نخبۃ الفکر: 64)

صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وہ نفوس قدسیہ ہیں جن کو خاتم الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جمال جہاں آراء سے اپنی آنکھیں روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان کا ہر فرد خشیت الہی، حق گوئی(Righteousness) ایثار، قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اور احسان کا پیکر جمیل تھا تمام علمائے حق کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ صحبت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بڑھ کر کوئی شرف اور بزرگی نہیں، اس صحبت سے متمتع ہونے والی پاک ہستیوں کی عظمت اور حسن کردار کا ذکر قراٰن و حدیث میں وارد ہوا ہے اور چونکہ صحابۂ کرام ہمارے مقتداء و پیشوا ہیں تو تمام مسلمان پر صحابۂ کرام کے بے شمار حقوق ہیں جن کا پاس ولحاظ رکھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے ۔

ذیل میں چند حقوق اختصار کے ساتھ مندرجہ ذیل ہیں:

(1) ان سے محبت ، ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ کا استعمال کرنا : اس لیے کہ اللہ نے ان سے محبت کی وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ ان سے راضی ہوا چنانچہ فرمایا: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ انھیں جنت کی بشارت دی چنانچہ فرمایا: جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ

(2) ان کی فضیلت و افضلیت کا یقین : حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جس میں رسولُ اللہ نے صحابۂ کرام کو تمام لوگوں سے افضل قرار دیا۔ چنانچہ میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔( مشکوٰۃ المصابیح ،2/413،حدیث: 6012)

حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرات صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار دیا ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔ترجمہ : میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ،تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (زجاجۃ المصابیح ،5/ 334)

(3) ان کی عدالت کا یقین : جیسا کہ شریعت کے بہت سارے نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ عادل ہیں بلکہ اہلِ علم کی ایک جماعت نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ ( التمھید لابن عبد البر : 22/47 )

(4) ان کے تعلق سے اپنے دل کو صاف رکھنا اور جو کچھ صحابہ کے مابین مشاجرات رونما ہوئے ان پر گفتگو سے گریز کرنا : جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان: اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے رب ہمارے بےشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ ( پ28، الحشر : 10 ) اس آیت کے تحت مفتی محمد قاسم عطّاری اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں فرماتے ہیں: یعنی مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ(malice) نہ رکھ، اے ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، رحمت والا ہے اور تو اپنی مہربانی اور رحم کے صدقے ہماری ا س دعا کو قبول فرما۔(روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: 10، 9 / 436-437)

یاد رہے کہ مہاجرین و انصار کے بعد آنے والوں میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسلمان داخل ہیں اور ان سے پہلے ایمان لانے والوں میں تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم داخل ہیں (صراط الجنان)

(5) ان کی شان میں گستاخی نہ کی جائے اور نہ ہی ان کو سب وشتم کیا جائے : صحابہ لوگوں میں سب سے بہتر اور دین اسلام کے محافظ(protecter) ہیں ان پر سب و شتم دینا دراصل ان کے تعلق سے اللہ پاک کے دئیے گئے رضامندی کے مژدہ پر عیب لگانا ، اللہ کے نبی کو تکلیف پہنچانا ہے ۔

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم لوگ میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرو ، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے مثل سونا خرچ کرکے ان کے ایک میں سیر آدھے سیر (half kg) کے ( ثواب کو ) پہنچنا چاہے تو نہیں پہنچ سکتا ۔ ( بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،حدیث: 3673 )

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : تم سب کسی صحابی رسول کو گالی نہ دو ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ ان کی ایک لمحہ کی ہم نشینی (Cohabitation) تمہاری پوری زندگی کے عمل سے افضل ہے ۔( فضائل الصحابہ ، لأحمد ، 1/57، ناشر دار ابن جوزیہ )

امام مالک رحمۃُ اللہ علیہ کہتے ہیں : جو صحابہ کو سب و شتم بکتا ہو اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔( السنہ للخلال ، 3/493، ناشر دارالرایۃ للنشر والتوزیع )

صحابۂ کرام کے متعلق ہمارا عقیدہ: صحابہ کے تعلق سے افراط وتفریط (Inflation and deflation) سے پاک منہج اختیار کرنا ضروری ہے جیسا کہ امام الطحاوی رحمۃُ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے : ہم تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں ، کسی سے برأت (لا تعلقی) کا اظہار نہیں کرتے ، ہم ان لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض یا ان کا ناحق تذکرہ کرتے ہیں ، ہم تمام صحابہ کا ذکرِ جمیل کرتے ہیں۔ (العقیدۃ الطحاویہ مع الشرح، 2/689 )

علماء اہلسنت صحابہ کے مابین مشاجرات کو ان کے اجتہادات پر مبنی قرار دیتے ہیں جس پر ہر حال میں وہ ثواب کے مستحق ہیں ۔ اگر ان کا اجتہاد صحیح ہوا تو دو ثواب اور اگر ان سے اجتہادی غلطی ہوئی تو ایک ثواب ۔

محبت خدا و رسول و دین ، اور ہدایت کاملہ انہیں حضرات کی محبت اور ان کے نقش قدم پر چلنے میں ہے اور ان سے بغض بد مذہبی منافقت اور سرکشی کا پیش خیمہ ہے۔ الله کریم ہم سب کو صحابۂ کرام کے منہج کو اختیار کرنے کی توفیق دے، تمام صحابہ و اہل بیت کی محبت سے ہمارے دلوں کو سرشار رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صحابۂ کرام وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے نبی رحمت، شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حسن و جمال کو ایمانی نظروں سے دیکھا ،صحبتِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فیض یاب ہو کر جنت اعلی کے مستحق ہوئے۔     کوئی بھی ولی، صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، ان کی عزت و توقیر ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے۔ چنانچہ اسی اہمیت کے تحت صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے امتِ مسلمہ پر 5 حقوق وجود سطور میں لانے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:

(1) صحابی رسول، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو ! کیونکہ اگر تم میں کا کوئی احد(پہاڑ)بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کے نہ مد کو پہنچے نہ آدھے ۔(صحیح البخاری،ص:903، حدیث:3673،مطبع:دار ابن کثیر، بیروت) شرحِ حدیث: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہیے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لیے چنا، مہربان باپ اپنے بیٹے کو بروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رب نے اپنے نبی کو بروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8،حدیث:6007،ناشر: نعیمی کتب خانہ، گجرات،ملتقطا)

(2) میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ؛ کیونکہ جس نے اِن سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے اِنہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اُسے پکڑے۔(سنن الترمذی ،ص:1094، حدیث:3888،ناشر: دار الفکر، بیروت)یعنی صحابۂ کرام میں سے کسی کو ستانا درحقیقت مجھے ستانا ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ صحابہ کو برا کہنے والا قتل کا مستحق ہے کہ اس کا یہ عمل عداوت رسول کی دلیل ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8 ،حدیث:6014، ناشر: نعیمی کتب خانہ ، گجرات )

(3) حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو؛ کیونکہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8، حدیث:6012، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ،گجرات)

(4) حضرت عمر ابن خطاب سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اختلاف کے متعلق سوال کیا جو میرے بعد ہوگا تو مجھے وحی فرمائی کہ اے محمد! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہارے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے تاروں کی طرح ہیں کہ ان کے بعض بعض سے قوی ہیں اور سب میں نور ہے تو جس نے ان کے اختلاف میں سے کچھ حصہ لیا جس پر وہ ہیں تو وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہے۔ ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:8، حدیث:6018،ناشر: ایضاً) یہاں اختلاف سے مراد فقہی مسائل کے عِلمی و عَمَلی اختلاف ہے جو شخص کسی صحابی کے فتویٰ پر عمل کرے گا نجات پاجاوے گا، ائمہ دین جیسے امام اعظم اور امام شافعی وغیرہم صحابہ ہی کے مقلد ہیں، امام اعظم حضرت عبداللہ ابن مسعود کے اور امام شافعی حضرت عبداللہ ابن عباس کے اکثر مسائل میں تابع ہیں دونوں ہدایت پر ہیں۔(ایضاً)

(5) تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ (بہار شریعت،1/252،ناشر:مکتبۃ المدینہ)

یقیناً صحابۂ کرام کی شان بہت ارفع و اعلیٰ ہے ، ان نفوسِ قدسیہ پر اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ان بلند مرتبہ ہستیوں کی محبت دل میں بساتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل کر دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کریں اور جو کسی بھی صحابی کے بارے میں ادنیٰ سی بھی زبان درازی کرے اس سے فوراً الگ ہو جائیں۔

اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے اور انہیں کی محبت میں جینا مرنا نصیب فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دینِ اسلام میں حضرات صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا بہت بڑا مقام و مرتبہ بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کا اندازہ ان احادیثِ کریمہ سے لگایا جاسکتا ہے اس سے پہلے صحابی کہتے کسے ہیں اس کو سمجھ لیتے۔ صحابی کی تعریف بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم‌ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال ہوا، اُن خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔(تاریخ ابنِ عساکر ،حسین ابنِ علی،حدیث:3492)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔(ترمذی) یعنی جس نے بحالت ایمان مجھے دیکھا اور ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا۔(مرآۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:8 حدیث:6013)

روایت کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کا کوئی اُحد(پہاڑ) بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کے نہ مد کو پہنچے نہ آدھے کو۔(مسلم،بخاری)۔ چار مد کا ایک صاع ہوتا ہے اور ایک صاع ساڑھے چار سیر کا تو مد ایک سیر آدھ پاؤ ہوا یعنی میرا صحابی قریباً سوا سیر جو خیرات کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان‌ پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو اس کا سونا قرب الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ سکتا، یہی حال روزہ نماز اور ساری عبادات کا ہے۔(مرآةالمناجيح شرح مشكٰوةالمصابيح جلد:8 حديث:6007)اسی طرح کوئی ولی، کوئی غوث، کوئی قُطب چاہے کتنی ہی عبادت کرلے مرتبہ میں کسی صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا۔

اکابِر محدثین کے مطابق صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی تعداد ایک لاکھ سے سوا لاکھ کے درمیان تھی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے نام معلوم نہیں، جن کی معلوم ہیں (ان کی تعداد تقریباً)سات ہزار ہے۔(ملفوظاتِ اعلی حضرت ص400)

صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا مقام و مرتبہ بیان ہونے کے بعد اب امّت پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے کچھ حقوق بھی بیان کیے جائیں گے۔

(1) پہلا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے عقیدت و محبت رکھنا: جو شخص میرے صحابہ، ازواج اہل بیت سے عقیدت رکھتا ہے اور ان میں سے کسی پر طعن نہیں کرتا(یعنی برا بھلا نہیں کہتا) اور ان کی محبت پر دنیا سے انتقال کرتا ہے وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا۔(جمع الجوامع، 8/414، حدیث:30236)

(2) دوسرا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں جرأت کرنے سے بچنا۔ بے شک میری اُمّت کے بد ترین لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ پر جرأت کرنے والے ہیں۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لا بن عدی، 9/199)

(3) تیسرا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے معاملے میں سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا لحاظ کرنا۔ میرے صحابہ کے معاملے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری امّت کے بہترین لوگ ہیں۔(مسند الشھاب، 1/418، حدیث:720)

(4) چوتھا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان پر طعن نہ کرنا۔ میرے بعد میرے اصحاب سے کچھ لغزش ہوگی، اللہ پاک انہیں میری صحبت کے سبب معاف فرما دے گا اور ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو اللہ پاک منہ کے بل دوزخ میں ڈال دے گا۔

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے اُن بعد والوں کے متعلق فرمایا: یہ وہ ہیں جو ان لغزشوں کے سبب صحابہ پر طعن کریں گے۔(فتاویٰ رضویہ، 29/336)

(5) پانچواں حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی برائی نہ سننا۔ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو: اللہ پاک کی لعنت ہو تمہارے شر پر۔ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی صحابۂ کرام تو خیر ہی خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ برائی خود تمہاری طرف ہی لوٹتی ہے اور اس کا وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔(مرآۃالمناجیح ،8/344)‌

اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے سچی محبت اور سچے دل سے ادب کرنا نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

محترم قارئین! یقیناً صحابۂ کرام علیہم الرضوان وہ  ہستیاں ہے جو امتِ محمدیہ میں پیارے مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے افضل و اعلیٰ ہے، صحابۂ کرام وہ عظیم ہستیاں ہے جن کو مصطفیٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت میسر آئی، ہاں ہاں! یہ وہی عظمت والا گروہ ہے جو رسولِ اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تربیت کے شاہکار ہے، یہ وہی اعلیٰ جماعت ہے جن کو اللہ پاک نے دنیا ہی میں اپنی رضا و خوشنودی کا پروانہ دے دیا، یہ وہ دمکتے چمکتے ستارے ہیں جو وحی الٰہی کے اوّلین پاسبان ہیں، خدامِ حدیث میں پہلا نام انہی کا ہے، جنہوں نے اپنی جان مال اہل والوں کی پرواہ کئے بغیر رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر سب کچھ قربان کردیا، اور یقیناً یہ بہت عظمت والی جماعت ہے کیونکہ وہ لوگ ہمارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھی ہیں ، ان کا تعلق دنیا کے سب سے بہتر زمانہ سے ہے ، اللہ پاک نے انہیں کے ذریعہ اسلامی فتوحات اور تبلیغ کی ابتدا کی ، وہ لوگ امانت و دیانت اور اچھے خلق کے جس مقام پر فائز تھے کوئی دوسرا وہاں تک نہیں پہنچ سکتا۔ اور یہی وجہ ہے کہ کوئی ولی کتنے ہی اونچے مرتبہ کو پہنچ جائے مگر کسی صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا، صحابۂ کرام کے بے شمار حقوق ہے یہاں پانچ ذکر کیئے جاتے ہیں۔

(1) ان سے محبت کی جائے: اس لئے کہ جب اللہ پاک و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان سے محبت کرتے ہیں تو ہمیں بھی ان سے محبت ہونی چاہیے، ان کا ذکر ِخیر کیا جائے، ان کے اعراس منایا جائے، ان سے محبت کی علامت یہ بھی ہے کہ ان کے نقشِ قدم پر چلا جائے۔

(2) ان کو تمام لوگوں سے بہتر اور افضل مانا جائے، ان کے جو فضائل بیان کیئے گئے ہیں۔ ان پر یقین رکھا جائے۔

(3)ان کی تعظیم و توقیر کی جائے: ان کی دل و جان سے تعظیم و تکریم کی جائے کیونکہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اکرموا اصحابی فانہم خیارکم ترجمہ میرے صحابہ کا احترام کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں۔( النسائی الکبری ، مصنف عبد الرزاق)

(4)ان کو گالیاں نہ دی جائے، انہیں برا بھلا نہ کہا جائے، ان کی شان میں ذرہ برابر بھی گستاخی نہ کی جائے، ان میں عیب نہ نکالے جائے اس لئے کہ ان کو ایذا پہچانا اللہ و رسول کو ایذا پہچانا ہے، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: لا تسبوا اصحابی ، لعن اللہ من سب اصحابی ۔ { الطبرانی الاوسط عن عائشۃ } میرے صحابہ کو بر بھلا نہ کہو ، اس شخص پر اللہ کی لعنت ہو جو میرے صحابہ کو برا کہے۔

(5) ان کے آپسی معاملات میں نہ پڑا جائے، ان میں سے ہر ایک کی تعظیم کی جائے، ان کے آپسی معاملات کی بناء پر ان پر معاذاللہ لعن طعن نا کیا جائے۔

اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام سے سچی محبت عطا فرمائے اور ان کے صدقے ہماری اور ہمارے والدین کی مغفرت فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

پیارے اسلامی بھائیوں! ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑھ‌کر محبت و اطاعت کا مدار اللہ پاک کی ذات ہے، اس کے فرمان کے باعث تمام مخلوق سے بڑھ کر محبت، عقیدت اور اطاعت اللہ پاک کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہونی چاہیے۔ لہذا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد جس سے بھی محبت کی جائے گی وہ اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تعلق اور نسبت کی بناء پر ہوگی، اس لئے ایک مسلمان کے نزدیک اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے مقدس ہستیاں صحابۂ کرام ہیں۔ جیسا کہ‌ حبیبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کیوں کہ‌ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں۔(مشکوۃ المصابیح ،2/413، حدیث:6012)

بعدِ خدا و مصطفیٰ صحابہ سے محبت زیادہ ہونا ان کے حقوق کو بھی اتنا ہی ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ آئیے آج صحابۂ کرام کے بعض حقوق کو جانتے ہیں۔

(1)صحابۂ کرام سےسچی محبت رکھنا، ان کی فضیلت، عدالت، امت میں سب سے بہترین ہونے اور ہر طرح کا ان کے بارے میں اچھا اعتقاد رکھنا۔ چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو(پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(پ11،التوبۃ:100)

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: انصار سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور ان سےبغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔(البخاري، كتاب مناقب الأنصار، باب الأنصار من الإيمان، 3/ 39، حدیث: 3784)

مہاجرین صحابہ انصار سے افضل ہیں لہذا تمام صحابہ سے محبت علامتِ ایمان ہوئی۔

(2)صحابہ کی فضیلت میں ترتیب کا اعتقاد رکھنا: ہم اہل سنت کے نزدیک یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ تمام صحابہ فضیلت میں شریک ہیں لیکن درجے میں مختلف ہیں بعض بعض سے افضل ہیں۔

حضرت ابن عمر نے سے روایت ہے کہ ہم رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں لوگوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دیتے تھے۔ سب سے افضل حضرت ابو بکر کو مانتے تھے پھر حضرت عمر کو اور پھر حضرت عثمان کو۔(البخاري، باب فضل ابی بکر بعد النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 4/5، حدیث: 3655)

ان میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر فاروق حضرت عثمان غنی حضرت علی المرتضیٰ اس کے بعد بقیہ عشرۂ مبشَّرہ وحضرات حسنین واصحابِ بدر واصحابِ بیعۃ الرضوان کےلیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں۔(شرح المسلم للنووي، کتاب فضائل الصحابۃ، ص 272)

ہر صحابیِ نبی! جنتی جنتی

(3)اچھے طریقے سے صحابہ کا ذکر، ان کی تعریف کرنا اور ان‌کی خوبیاں بیان کرنا۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو میرے صحابہ کو بُرا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا۔ (ابن عساکر، 44/ 222)

مسئلہ: تمام صحابۂ کرام اہلِ خیر وصلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔(بہار شریعت، 1/252)

(4)صحابہ کی پیروی کرنا، ان کے لئے بخشش کی دعا کرنا اور ان کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا ۔ فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث:6018)

وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔(پ28،الحشر: 10)

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا نے فرمایا: لوگوں کو حکم تو یہ دیا گیا کہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کیلئے اِستغفار کریں اور کرتے یہ ہیں کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں۔(مسلم، کتاب التفسیر، ص1611، حدیث: 3022)

(5)صحابہ کے آپسی مشاجرات و معاملات میں خاموش رہنا، اور ان کو برا بھلا کہنے والوں سے دور رہنا ان سے قطع تعلقی کرنا۔ پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو ،اللہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔(ترمذی، ابواب المناقب، باب فیمن سبّ اصحاب النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 5/302، حدیث: 3864)

یا اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام کے حقوق صحیح معنوں میں ادا کرنے کی توفیق عطا فرما۔ اٰمین بجاہ‌ النبی‌ الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

دینِ اسلام وہ واحد مذہب ہے جس نے  ہر شخص کے جُدا جدا اُس کے مرتبے(Status) کے مطابق اس کے حقوق (rights)بیان کئے ہے۔ جیسے اللہ پاک کا تمام انسانوں پر یہ حق ہے کہ وہ اللہ پاک اور اس کے رسول محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر ایمان لائے اور اسی طرح اللہ کے آخری نبی محمّد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اور آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صَحَابۂ کِرام رضی اللہُ عنہم کا تمام مسلمانوں پر یہ حق ہے کہ وہ ان کی تعظیم و تکریم کریں۔ آیئے اب ہم صَحَابَۂ کِرام رضی اللہُ عنہم کے حقوق جو اُمّتِ مسلِمہ پر ہے ان میں سے پانچ حقوق کو قراٰن و حدیث کی روشنی میں ملاحظہ کرتے ہیں :۔

(1)صَحَابَۂ کِرام کو بُرا کہنے سے بچو : إِذَا ذُكِرَ اَصْحَابِیْ فَاَمْسِكُوْا یعنی جب میرے اَصْحاب کا ذِکْر آئے تو باز رہو (یعنی بُرا کہنے سے بچو۔ (معجم کبیر ،2/96، حدیث: 1427)

حضرت علّامہ علی قاری رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں یعنی صَحَابۂ کِرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان کو بُرا بَھلا کہنے سے بچو۔ کیونکہ قراٰن کریم میں ان کے لئے رضائے الہی کا مُژدہ (یعنی خوشخبری) بیان ہو چکی ہے لہٰذا ضُرور اُن کا اَنْجام (یعنی ٹھکانہ ) پرہیزگاری اور رضائے الہی کے ساتھ جَنَّت میں ہوگا۔ اور یہ وہ حُقُوق ہیں جو اُمّت کے ذِمّے باقی ہیں لہٰذا جب بھی اُن کا ذِکْر ہوتو صِرْف و صِرْف بَھلائی اور اُن کے لئے نیک دُعاؤں کے ساتھ ہو۔ (مرقات، 1/282)

(2) صَحَابۂ کِرام کی بُرائی کرنے والوں کا عَمَلی(practical) بائیکاٹ: بے شک اللہ پاک نے مجھے مُنْتَخَب(Select) فرمایا اور میرے لئے صحابہ مُنْتَخَب فرمائے ، اور عنقریب ایسی قوم آئے گی جو ان کی شان گھٹائے گی ، انہیں عیب لگائے گی اور گالی دے گی لہذا تم نہ ان کے ساتھ بیٹھنا، نہ ان کے ساتھ کھانا، نہ پینا، نہ ان کے ساتھ نماز پڑھنا اور نہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھنا ۔ (الجامع لاخلاق الراوي للخطيب البغدادی، 2/118، حدیث: 1353)

(3) اُمَّت کے بدترین لوگ: بے شک میری امت کے بدترین لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ پر جَرْأَت کرنے والے ہیں۔ (الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدی ،9/199) یعنی وہ لوگ جو صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان کو بُرا بَھلا کہتے ہیں اور ان کے بارے میں ایسی باتیں کرتے ہیں جو ان کی شان و مَنْصَب کے لائِق نہیں ،ایسا کرنا سخت ترین حرام کام ہے صحابۂ کرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان کو بُرا بَھلا کہنا بُرائی پر جَری (یعنی جُرأت کرنے والا) ہونے کی علامت(نِشانی) ہے اور ان کی عِزَّت واِحْترام کرنا اچھا ہونے کی علامت ہے اور حق ( یعنی صحیح) بات یہ ہے کہ تمام صَحَابۂ کِرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان کی تعظیم کی جائے اور ان کو بُرا کہنے سے زبان کو روکا جائے ، چاہے وہ صَحَابۂ کِرام مُہاجِرین میں سے ہوں یا اَنصار میں سے (فيض القدير، 2/575، تحت الحدیث: 2281)

اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پَیرو(پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے ۔(پ11،التوبۃ:100)

(4) تمام صَحَابۂ کِرام سے مَحَبَّت کرو : میرے تمام صَحابہ سے جو مَحَبَّت کرے، اُن کی مدد کرے اور اُن کے لئے اِسْتِغْفَار (یعنی دعائے مَغفرِت کرے) تو اللہ پاک اُسے قیامت کے دن جَنَّت میں میرے صَحابہ کا ساتھ نصیب فرمائے گا۔

(5)لَغْزِشوں کے سبب صَحابہ پر طَعْن کرنے والے جَہنّمی :میرے بعد میرے اَصْحاب سے کچھ لَغْزِش ہوگی ،اللہ پاک انہیں میری صُحْبت کے سبب مُعاف فرمادے گا اور اُن کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو اللہ پاک مُنہ کے بَل دوزخ میں ڈال دے گا ۔(معجم اوسط، 2/360، حدیث: 3219)

اَعْلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے اُن بعد والوں کے مُتَعَلِّق فرمایا: یہ وہ ہیں جو اُن لَغْزِشوں کے سبب صَحابہ پر طَعْن (بُرائی) کریں گے۔(فتویٰ رضویہ ،ج29/ 336)

پیارے مُحْتَرم اسلامی بھائیو! اوپر بیان کی گئی احادیث مبارکہ سے یہ درس (Lesson) ملا کہ تمام صَحَابۂ کِرام عَلَیھِمُ الرِّضْوَان سے مَحبّت کی جائے اور جب بھی کسی بھی صحابی کے بارے میں گفتگو کی جائے تو اچھائی کے ساتھ ہی ہو اور کسی ایک صحابی کی بھی بُرائی کرنے والوں سے دُور رہا جائے اور ان کا عَمَلی بائیکاٹ کیا جائے اور دیگر مسلمانوں کو بھی اُن ناپاکوں کی صُحْبَت سے بچایا جائے اللہ پاک ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ خَاتَمِ النَّبِیِّیْنَ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: اس مضمون میں موجود اکثر مواد رسالہ ہر صحابی نبی جنتی جنتی کے صفحہ 10 تا 20 سے کچھ تبدیلی کے ساتھ لیا گیا ہے۔