سمیع اللہ (درجہ رابعہ
جامعۃُ المدینہ فیضانِ امام احمد رضا خان حیدرآباد، ہند)
دینِ اسلام میں حضرات صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا بہت بڑا
مقام و مرتبہ بہت زیادہ اہمیت ہے۔ اس کا اندازہ ان احادیثِ کریمہ سے لگایا جاسکتا
ہے اس سے پہلے صحابی کہتے کسے ہیں اس کو سمجھ لیتے۔ صحابی کی تعریف بیان کرتے ہوئے
حضرت علامہ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے
ایمان کی حالت میں نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی ہو اور
ایمان ہی پر ان کا انتقال ہوا، اُن خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔(تاریخ ابنِ
عساکر ،حسین ابنِ علی،حدیث:3492)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ نبی کریم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے راوی فرمایا اس مسلمان کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا
یا میرے دیکھنے والے کو دیکھا۔(ترمذی) یعنی جس نے بحالت ایمان مجھے دیکھا اور
ایمان پر ہی اس کا خاتمہ ہوا وہ دوزخ سے محفوظ رہے گا۔(مرآۃالمناجیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح، جلد:8 حدیث:6013)
روایت کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہیں کہ
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو
کیونکہ اگر تم میں کا کوئی اُحد(پہاڑ) بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کے نہ مد
کو پہنچے نہ آدھے کو۔(مسلم،بخاری)۔ چار مد کا ایک صاع ہوتا ہے اور ایک صاع ساڑھے
چار سیر کا تو مد ایک سیر آدھ پاؤ ہوا یعنی میرا صحابی قریباً سوا سیر جو خیرات
کرے اور ان کے علاوہ کوئی مسلمان خواہ غوث و قطب ہو یا عام مسلمان پہاڑ بھر سونا
خیرات کرے تو اس کا سونا قرب الٰہی اور قبولیت میں صحابی کے سوا سیر کو نہیں پہنچ
سکتا، یہی حال روزہ نماز اور ساری عبادات کا ہے۔(مرآةالمناجيح شرح مشكٰوةالمصابيح
جلد:8 حديث:6007)اسی طرح کوئی ولی، کوئی غوث، کوئی قُطب چاہے کتنی ہی عبادت کرلے
مرتبہ میں کسی صحابی کے برابر نہیں ہو سکتا۔
اکابِر محدثین کے مطابق صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی تعداد
ایک لاکھ سے سوا لاکھ کے درمیان تھی۔ اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تمام
صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے نام معلوم نہیں، جن کی معلوم ہیں (ان کی تعداد
تقریباً)سات ہزار ہے۔(ملفوظاتِ اعلی حضرت ص400)
صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا مقام و مرتبہ بیان ہونے کے
بعد اب امّت پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان
کے کچھ حقوق بھی بیان کیے جائیں گے۔
(1) پہلا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے عقیدت و محبت
رکھنا: جو شخص میرے صحابہ، ازواج اہل بیت سے عقیدت رکھتا ہے اور ان میں سے کسی پر
طعن نہیں کرتا(یعنی برا بھلا نہیں کہتا) اور ان کی محبت پر دنیا سے انتقال کرتا ہے
وہ قیامت کے دن میرے ساتھ میرے درجے میں ہوگا۔(جمع الجوامع، 8/414، حدیث:30236)
(2) دوسرا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے بارے میں
جرأت کرنے سے بچنا۔ بے شک میری اُمّت کے بد ترین لوگ وہ ہیں جو میرے صحابہ پر جرأت
کرنے والے ہیں۔(الکامل فی ضعفاء الرجال لا بن عدی، 9/199)
(3) تیسرا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے معاملے میں
سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا لحاظ کرنا۔ میرے صحابہ کے معاملے میں میرا
لحاظ کرنا کیونکہ وہ میری امّت کے بہترین لوگ ہیں۔(مسند الشھاب، 1/418، حدیث:720)
(4) چوتھا حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان پر طعن نہ کرنا۔
میرے بعد میرے اصحاب سے کچھ لغزش ہوگی، اللہ پاک انہیں میری صحبت کے سبب معاف فرما
دے گا اور ان کے بعد کچھ لوگ آئیں گے جن کو اللہ پاک منہ کے بل دوزخ میں ڈال دے
گا۔
اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہ علیہ نے اُن بعد والوں کے متعلق
فرمایا: یہ وہ ہیں جو ان لغزشوں کے سبب صحابہ پر طعن کریں گے۔(فتاویٰ رضویہ،
29/336)
(5) پانچواں حق ہے کہ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی برائی نہ
سننا۔ جب تم لوگوں کو دیکھو کہ میرے صحابہ کو برا کہتے ہیں تو کہو: اللہ پاک کی
لعنت ہو تمہارے شر پر۔ حضرت مفتی احمد یار
خان رحمۃُ اللہ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں: یعنی صحابۂ کرام تو خیر ہی
خیر ہیں تم ان کو برا کہتے ہو تو وہ برائی خود تمہاری طرف ہی لوٹتی ہے اور اس کا
وبال تم پر ہی پڑتا ہے۔(مرآۃالمناجیح ،8/344)