محمد طلحٰہ خان عطّاری (درجہ رابعہ جامعۃُ المدینہ فیضان خلفائے راشدین
راولپنڈی پاکستان)
صحابی : وہ ہستی ہے جنہوں نے حالتِ ایمان میں حضورنبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات فرمائی ہو اور اسلام پر ہی وفات پائی ہو۔(شرح
نخبة الفکر،ص111)
مراتب : بعد انبیا ومرسلین، تمام مخلوقِ الٰہی انس و جن و مَلک سے افضل
صدیق اکبر ہیں، پھر عمر فاروق اعظم، پھر عثمان غنی، پھر مولی علی پھر بقیہ عشرہ
مبشِّرہ و حضرات حسنين واصحاب بدر واصحاب بيعةُ الرضوان (رضی اللہ عنہم) کے لیے
افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں ۔ (بہارشریعت،1/249،241، بتغیرقلیل)
دورِ صحابۂ کرام : مشہور قول کے مطابق صحابۂ کرام علیہم الرضوان کا زمانہ 110 ہجری میں سب سے
آخر میں انتقال فرمانے والے صحابی رسول حضرت ابو الطفيل عامر بن واثلہ رضی اللہ
عنہ کے انتقال شریف پر پورا ہوگیا۔(نزہة القاری،3/801)
حقوقِ صحابۂ کرام : جس طرح ہر مسلمان پر اللہ پاک، اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم،
اور دیگر لوگوں کے حقوق ہیں۔ اسی طرح ہر مسلمان پر صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے
بھی حقوق ہیں جن کو ادا کرنا بے حد ضروری ہے۔ ان میں سے 5 حقوق مندرجہ ذیل ہیں:
(1)محبت و عقیدت ہونا : اللہ پاک جب کسی کی بھلائی چاہتا ہے تو اُس کے دل میں میرے ( تمام ) صحابہ کی
محبت پیدا فرما دیتا ہے۔(تاریخ اصبهان،1/467،حدیث: 929)کیونکہ جب بندہ قراٰن و
حدیث کا علم حاصل کرتا ہے تو توجہ اس بات کی طرف جاتی ہے کہ یہ سب علم کن ہستیوں
سے ہوتے ہوئے ہم تک پہنچا، اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے قراٰن و
حدیث کا علم سب سے پہلے صحابۂ کرام علیہم الرضوان کی مقدس جماعت نے لیا اور آگے
پھیلایا تو کیوں نہ پھر صحابۂ کرام سے دل و جان سے محبت و عقیدت ہو۔
(2)تعظیم کرنا : ہر وہ شخص جسے کوئی مقام و مرتبہ حاصل ہوتا ہے تو اس کی تعظیم ہوتی ہے جبکہ
دینی مرتبہ اور اس میں بھی صحابیت کا درجہ جو انبیا کے بعد سب سے اعلٰی، تو ہر غیر صحابی کو صحابی
کی تعظیم و توقیر لازم ہے، جیسا کہ فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہے : میرے صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تم میں بہترین لوگ ہیں ۔ (الاعتقاد للبيهقى ،ص320)
(3)عزت و حفاظت کرنا : فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : جو میرے صحابہ کو بُرا کہے
اُس پر اللہ پاک کی لعنت اور جو اُن کی عزت کی حفاظت کرے، میں قیامت کے دن اس کی
حفاظت کروں گا۔(تاريخ ابن عساكر،44/222) اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی
صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو برا بھلا کہے تو اس کو روکنا اور صحابۂ کرام کی عزت
پر پہرا دینا ہر مسلمان پر لازم ہے کہ اسی میں نجات ہے۔
(4) سب و شتم سے بچنا
: فرمانِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے : قیامت
کے دن ہر شخص کو نجات کی اُمید ہوگی سوائے اس شخص کے جس نے میرے صحابہ کو گالی دی،
بے شک اہل محشر اُن پر لعنت کریں گے ۔ (تاریخ اصبهان، 1/126) اللہ اللہ، وہ ایسا دن ہے کہ نفسا نفسی کا عالم
ہوگا اور اس دن بھی صحابۂ کرام کو گالی دینے والے کو نجات کی امید نہ ہوگی۔ اسی
لیے ہر مسلمان، صحابۂ کرام کو گالی دینا تو درکنار دل میں بھی برا جاننے کی غلطی
نہ کرے۔
(5)صحابۂ کرام کے آپسی اختلاف میں نہ پڑنا : مفتی امجد علی اعظمی رحمۃُ
اللہِ علیہ فرماتے ہیں: صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے باہم(یعنی اختلافی)
جو واقعات ہوئے، اُن میں پڑنا حرام ، حرام، سخت حرام ہے، مسلمانوں کو تو یہ دیکھنا
چاہیے کہ وہ سب حضرات آقائے دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جاں نثار اور
سچے غلام ہیں۔(بہار شریعت،1/254) صحابۂ کرام کا یہ لازمی حق ہے کہ جو بھی معاملات
انکے درمیان ہوئے اس میں کسی مسلمان کو اپنی عقل کے گھوڑے نہیں دوڑانے کہ کہیں
ایسا نہ ہو کہ کسی صحابی کی ادنٰی سی بے ادبی سیدھا جہنم میں گرا دے۔