مقرب فرشتوں کے بعد تمام مخلوقات میں سب سے اعلیٰ مرتبہ
صحابۂ کرام کا ہے۔ اہلسنت کا اس بات پر اجماع ہے۔ جیسا کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میری
امت کے سب سے بہترین لوگ میرے زمانے کے ہیں۔( الشفاء ، 2/52)
صحابی کی تعریف :جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کریم کے پیارے نبی
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی اور ایمان پر انتقا ل ہو ا۔ ان خوش
نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں ۔(نخبۃ
الفکر، ص111)
تو ظاہر ہوا کہ صحابۂ کرام کے حقوق کو پہچاننا نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعظیم میں سے
ہے۔ تو ہر مسلمان پر صحابۂ کرام کے حقوق کا جاننا لازمی ہے تاکہ ان حقوق کو ادا کرکے مسلمان اپنی زندگی کے مقصد کو پانے میں کامیاب ہوسکے ۔
(1) صحابۂ کرام کے حقوق
میں سے انکی تعظیم کی جائے : اس لئے کہ صحابۂ
کرام انبیاء و مرسلین کے بعد سب سے بہتر ہیں ۔ کیونکہ اللہ پاک کے ان پیارے بندوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پائی جن کے تقویٰ و پرہیزگاری کی گواہی خود قراٰن پاک نے دی
: وَ اَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوٰى ترجَمۂ کنزُالایمان: اور پرہیزگاری
کا کلمہ اُن پر لازم فرمایا۔( پ 26 ، الفتح: 26)
(2) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ہر صحابی کو جنتی
مانا جائے۔ جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے : وَ
كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرماچکا۔(پ 27 ،الحدید : 10)
حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اس شخص کو
آگ نہیں چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا اور میرے دیکھنے والے کو دیکھا ۔( ترمذی ،5 /
1461 حدیث: 8438)
(3) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کو برا بھلا
نہ کہا جائے اور ان کے گستاخوں کے ساتھ نہ بیٹھا جائے ، جیسا کہ حدیث میں ہے : نبی
کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا جس نے انہیں برا بھلا کہا اس پر اللہ پاک اور فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں
کی لعنت ہے بروزِ قیامت اللہ پاک نہ تو اس کا نفل قبول کرے گا اور نہ ہی فرض۔(
المستدرک للحاکم، 4/833 حدیث: 6715)
ایک اور جگہ نبی
پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک اللہ پاک نے مجھے منتخب
فرمایا اور میرے صحابہ منتخب فرمائے عنقریب ایسی قوم آئے گی جو ان کی شا ن
گھٹائے گی انہیں عیب لگائے گی اور گالی دے گی لہذا تم ان کے ساتھ نہ بیٹھنا نہ انکے ساتھ کھانا نہ پینا نہ ان کے ساتھ نماز پڑھنا نہ ہی انکی نماز پڑھنا ۔( الکامل فی ضعفاء
الرجال لابن عدی، 9/ 199 )
(4) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی پیروی کی جائے جیسا کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : اَصْحابِیْ کَالنُّجُوْم،
فَبِاَیِّہِمْ اِقْتَدَیْتُمْ اِھْتَدَیْتُمْ یعنی میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں
، ان میں سے جس کسی کی تم پیروی کروگے ، ہدایت پا جاؤگے ۔ (مشکوۃ المصابیح، کتاب المناقب، الفصل الثالث، 3/ 335، حدیث:6018) تو اس سے ثابت ہوا کہ ہر
مسلمان پر صحابۂ کرام کی پیروی کرنا
لازم ہے ۔
(5) صحابۂ کرام کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کی باہمی اختلافات پر زبانیں بند رکھیں انکی آپسی معاملات پر "کیا " کیوں
"کرنا حرام ہے کیونکہ ہماری کمزور
عقلیں انکے درمیان ہونے والی معاملات کی حقیقت تک ہر گز نہیں پہنچ سکتی اور نہ ہی صحابۂ
کرام کے درمیان ہونے والے معاملات میں باتیں کرنے کا حق حاصل ہے ۔