محمد توفیق عطاری (درجۂسادسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِاولیا،
احمد آباد،ہند)
پیارے اسلامی بھائیوں! ایک مسلمان کے لئے سب سے بڑھکر محبت
و اطاعت کا مدار اللہ پاک کی ذات ہے، اس کے فرمان کے باعث تمام مخلوق سے بڑھ کر
محبت، عقیدت اور اطاعت اللہ پاک کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہونی
چاہیے۔ لہذا حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد جس سے بھی محبت کی جائے گی
وہ اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے تعلق اور نسبت کی
بناء پر ہوگی، اس لئے ایک مسلمان کے نزدیک اللہ پاک اور اس کے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے مقدس ہستیاں صحابۂ کرام ہیں۔ جیسا کہ حبیبِ خدا
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کیوں کہ وہ تم
میں بہترین لوگ ہیں۔(مشکوۃ المصابیح ،2/413، حدیث:6012)
بعدِ خدا و مصطفیٰ صحابہ سے محبت زیادہ ہونا ان کے حقوق کو
بھی اتنا ہی ثابت کرتا ہے۔ چنانچہ آئیے آج صحابۂ کرام کے بعض حقوق کو جانتے ہیں۔
(1)صحابۂ کرام سےسچی محبت رکھنا، ان کی فضیلت، عدالت، امت میں
سب سے بہترین ہونے اور ہر طرح کا ان کے بارے میں اچھا اعتقاد رکھنا۔ چنانچہ اللہ
پاک فرماتا ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ
الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ
بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ
جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ
الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰)ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے
پَیرو(پیروی کرنے والے) ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے
تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی
کامیابی ہے ۔(پ11،التوبۃ:100)
پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: انصار
سے محبت کرنا ایمان کی علامت ہے اور ان سےبغض رکھنا نفاق کی علامت ہے۔(البخاري،
كتاب مناقب الأنصار، باب الأنصار من الإيمان، 3/ 39، حدیث: 3784)
مہاجرین صحابہ انصار سے افضل ہیں لہذا تمام صحابہ سے محبت
علامتِ ایمان ہوئی۔
(2)صحابہ کی فضیلت میں ترتیب کا اعتقاد رکھنا: ہم اہل سنت کے
نزدیک یہ بات یقینی طور پر ثابت ہے کہ تمام صحابہ فضیلت میں شریک ہیں لیکن درجے
میں مختلف ہیں بعض بعض سے افضل ہیں۔
حضرت ابن عمر نے سے روایت ہے کہ ہم رسولُ اللہ صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے زمانے میں لوگوں کو ایک دوسرے پر فضیلت دیتے تھے۔ سب سے
افضل حضرت ابو بکر کو مانتے تھے پھر حضرت عمر کو اور پھر حضرت عثمان کو۔(البخاري،
باب فضل ابی بکر بعد النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 4/5، حدیث: 3655)
ان میں سب سے افضل حضرت ابوبکر صدیق پھر حضرت عمر فاروق
حضرت عثمان غنی حضرت علی المرتضیٰ اس کے بعد بقیہ عشرۂ مبشَّرہ وحضرات حسنین
واصحابِ بدر واصحابِ بیعۃ الرضوان کےلیے افضلیت ہے اور یہ سب قطعی جنتی ہیں۔(شرح
المسلم للنووي، کتاب فضائل الصحابۃ، ص 272)
ہر صحابیِ نبی! جنتی جنتی
(3)اچھے طریقے سے صحابہ کا ذکر، ان کی تعریف کرنا اور انکی
خوبیاں بیان کرنا۔ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو میرے صحابہ
کو بُرا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس
کی حفاظت کروں گا۔ (ابن عساکر، 44/ 222)
مسئلہ: تمام
صحابۂ کرام اہلِ خیر وصلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے
ساتھ ہونا فرض ہے۔(بہار شریعت، 1/252)
(4)صحابہ کی
پیروی کرنا، ان کے لئے بخشش کی دعا کرنا اور ان کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگانا ۔
فرمانِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم
ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاجاؤ گے۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/414،
حدیث:6018)
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ
مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا
الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے
بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے ۔(پ28،الحشر: 10)
حضرت عائشہ صدیقہ رضی
اللہُ عنہا نے فرمایا: لوگوں کو حکم تو یہ دیا گیا کہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کیلئے اِستغفار کریں اور
کرتے یہ ہیں کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں۔(مسلم، کتاب التفسیر، ص1611، حدیث: 3022)
(5)صحابہ کے آپسی مشاجرات و معاملات میں خاموش رہنا، اور ان کو برا بھلا کہنے والوں سے دور
رہنا ان سے قطع تعلقی کرنا۔ پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے
صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو ،اللہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ کیونکہ جس
نے ان سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا
تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا۔(ترمذی، ابواب المناقب، باب فیمن سبّ اصحاب
النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، 5/302، حدیث: 3864)