صحابۂ کرام وہ مقدس ہستیاں ہیں جنہوں نے نبی رحمت، شفیع امت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حسن و جمال کو ایمانی نظروں سے دیکھا ،صحبتِ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے فیض یاب ہو کر جنت اعلی کے مستحق ہوئے۔     کوئی بھی ولی، صحابی کے مرتبہ کو نہیں پہنچ سکتا، ان کی عزت و توقیر ہر مسلمان مرد و عورت پر واجب ہے۔ چنانچہ اسی اہمیت کے تحت صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے امتِ مسلمہ پر 5 حقوق وجود سطور میں لانے کی سعادت حاصل کرتا ہوں:

(1) صحابی رسول، حضرت ابوسعید خدری رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو ! کیونکہ اگر تم میں کا کوئی احد(پہاڑ)بھر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک کے نہ مد کو پہنچے نہ آدھے ۔(صحیح البخاری،ص:903، حدیث:3673،مطبع:دار ابن کثیر، بیروت) شرحِ حدیث: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضرات صحابہ کا ذکر ہمیشہ خیر سے ہی کرنا چاہیے کسی صحابی کو ہلکے لفظ سے یاد نہ کرو۔ یہ حضرات وہ ہیں جنہیں رب نے اپنے محبوب کی صحبت کے لیے چنا، مہربان باپ اپنے بیٹے کو بروں کی صحبت میں نہیں رہنے دیتا تو مہربان رب نے اپنے نبی کو بروں کی صحبت میں رہنا کیسے پسند فرمایا۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8،حدیث:6007،ناشر: نعیمی کتب خانہ، گجرات،ملتقطا)

(2) میرے صحابہ کے متعلق اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! اللہ سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ بناؤ؛ کیونکہ جس نے اِن سے محبت کی تو میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے اِنہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ کو ایذا دی اور جس نے اللہ کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ اُسے پکڑے۔(سنن الترمذی ،ص:1094، حدیث:3888،ناشر: دار الفکر، بیروت)یعنی صحابۂ کرام میں سے کسی کو ستانا درحقیقت مجھے ستانا ہے۔ امام مالک فرماتے ہیں کہ صحابہ کو برا کہنے والا قتل کا مستحق ہے کہ اس کا یہ عمل عداوت رسول کی دلیل ہے۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8 ،حدیث:6014، ناشر: نعیمی کتب خانہ ، گجرات )

(3) حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو؛ کیونکہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:8، حدیث:6012، مطبوعہ:نعیمی کتب خانہ،گجرات)

(4) حضرت عمر ابن خطاب سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ میں نے اپنے رب سے اپنے صحابہ کے اختلاف کے متعلق سوال کیا جو میرے بعد ہوگا تو مجھے وحی فرمائی کہ اے محمد! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمہارے صحابہ میرے نزدیک آسمان کے تاروں کی طرح ہیں کہ ان کے بعض بعض سے قوی ہیں اور سب میں نور ہے تو جس نے ان کے اختلاف میں سے کچھ حصہ لیا جس پر وہ ہیں تو وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہے۔ ۔(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد:8، حدیث:6018،ناشر: ایضاً) یہاں اختلاف سے مراد فقہی مسائل کے عِلمی و عَمَلی اختلاف ہے جو شخص کسی صحابی کے فتویٰ پر عمل کرے گا نجات پاجاوے گا، ائمہ دین جیسے امام اعظم اور امام شافعی وغیرہم صحابہ ہی کے مقلد ہیں، امام اعظم حضرت عبداللہ ابن مسعود کے اور امام شافعی حضرت عبداللہ ابن عباس کے اکثر مسائل میں تابع ہیں دونوں ہدایت پر ہیں۔(ایضاً)

(5) تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیا جائے تو خیر ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے۔ (بہار شریعت،1/252،ناشر:مکتبۃ المدینہ)

یقیناً صحابۂ کرام کی شان بہت ارفع و اعلیٰ ہے ، ان نفوسِ قدسیہ پر اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ ان بلند مرتبہ ہستیوں کی محبت دل میں بساتے ہوئے ان کے نقش قدم پر چل کر دونوں جہاں کی کامیابی حاصل کریں اور جو کسی بھی صحابی کے بارے میں ادنیٰ سی بھی زبان درازی کرے اس سے فوراً الگ ہو جائیں۔

اللہ پاک ہمیں صحابۂ کرام کے حقوق کی ادائیگی کی توفیق بخشے اور انہیں کی محبت میں جینا مرنا نصیب فرمائے ۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم