سیّدُ المُرسلين امام الانبياء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بذاتِ خود سراپا معجزہ ہیں، آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اَنگ اَنگ(ہر عضو) اور ہر بُنِ مُو(بال کی جڑ) معجزه ہے۔ لیکن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم كا عظيم معجزه صحابۂ کرام کی صورت میں آپ کی تیار کی ہوئی رجالِ کار(مَردوں) کی وہ جماعت اور افرادی قوّت تھی، جنہوں نے آگے چل کر اسلام کو دنیا کی وحدانی (تنہا) سُپر پاور بنادیا اور اُمّت پر اُن کا احسان ہے کہ انہوں نے دین کو اپنی اصل صورت میں بعد والوں تک پہنچایا۔ اِس اُمّت میں ذاتِ رَسالت مآب اور انبیاء کرام علیہم الصلوۃ و السّلام کے بعد انسانیّت کا سب سے قیمتی اثاثہ(سرمایہ) صحابۂ کرام کی جماعت ہے،جنہیں اللہ پاک نے اپنے حبیبِ مکرَّم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم كی صحبت سے صحابیت کے شرف سے مشرّف فرمایا۔ صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے ہم پر بڑے احسانات ہیں، اور اِن احسانات کے تقاضے بھی ہیں جنہیں ”صحابۂ کرام کے حقوق“ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ چند مُلَاحَظہ ہوں:۔

پہلا حق: حضرات شیخَین ابو بکْر صدیق اور عمر فاروق رضی اللہ عنہما کا مقام سب صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے بلند و بالا ماننا کیونکہ اس بات پر اَہلسنت کا اتفاق ہے۔ (دس اسلامی عقیدے،ص:119،مکتبۃ المدینہ)

دوسرا حق: حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد خلیفہ بَرحق حضرت ابو بکْر صدیق پھر عمر فاروق پھر عثمان غنی پھر علیُّ المرتضی رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اِس ترتیب کو اسی ترتیب کے ساتھ ماننا۔(بنیادی عقائد اور معمولات اہلسنت، ص: 73،مکتبۃ المدینہ)

تیسرا حق: نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ہر صحابی کو عادل اور نیک و پرہیز گار افراد کا سردار ماننا، کیونکہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم اُن میں سے جس کی بھی اِقتداء کرو گے ہدایت پاجاؤگے۔(مشکاۃ المصابيح، حدیث:6018)

چوتھا حق: تمام صحابۂ کرام علیہم الرضوان کے جنتی ہونے کو دل و جان سے تسلیم کرنا، کیونکہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ كُلًّا وَّعَدَ اللّٰهُ الْحُسْنٰىؕ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ان سب سے اللہ جنت کا وعدہ فرما چکا.(پ27،الحدید:10)

پانچواں حق: ہر صحابی رسول کی کمال تعظیم کرنا، کیونکہ اللہ پاک نے اپنے لیے سجدے کرنے کا وہ ثواب نہیں رکھا جو ایمان اور مَحبَّت کے ساتھ مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دیکھنے کا رکھا ہے اور اس ثواب سے صرف صحابۂ کرام علیہم الرضوان کو ہی مشرَّف فرمایا۔