محمد مدنی رضا عطاری (درجہ خامسہ ماڈل جامعۃُ المدینہ
اشاعت الاسلام ملتان پاکستان)
صحابی اس ذات کو
کہتے ہیں جس نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صحبت پا ئی ہو اور
ایمان کی حالت میں ان کا خاتمہ ہوا ہو ۔ صحابۂ
کرام وہ ذاتِ عالیہ ہیں کہ جنہوں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے (direct) علم حاصل کیا ، انبیا و مرسلین کے بعد تمام جن و انس اور
ملک سے افضل جناب صدیق اکبر ہیں پھر عمر
فاروقِ اعظم پھر عثمانِ غنی پھر علی پھر عشرہ مبشرہ پھر حضرات حسنین کریمین اہلِ بدر پھر اہلِ احد پھر بیعتِ رضوان والے پھر ان کے
بعد سب صحابۂ کرام برابر ہیں ۔ یہ سب کے سب جنتی ہیں کوئی ولی چاہے کتنے ہی مرتبے
کو نہیں پہنچ سکتا کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت بد گمراہی ہیں۔ رسول اللہ کے سب کے سب صحابۂ کرام عادل و
ثقہ تھے ۔ اللہ سب سے راضی ہے جیسے قراٰن میں ہے: رَّضِیَ
اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔( پ 11 ، التوبۃ: 100)
(1)خلفائے اربعہ کی
خلافت کو تسلیم کرنا :خلفائے اربعہ نے رسول اللہ کی
خلافت کا حق ادا کیا ، ان کی خلافت بترتیب و فضلیت ہے یعنی جو ان میں سے افضل تھا
وہ خلافت پاتا گیا ، جو شخص حضرت علی کو شیخین
سے افضل بتائے وہ گمراہ بد مذہب ہے ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ
عنہسے روایت ہے کہ آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : ابوبکر
بہتر ہیں سب اگلوں سے اور سب پچھلوں سے بہتر ہیں ،سب آسمان والو ں سے اور زمین والوں سے سوائے انبیا و مرسلین کے۔ ( کنز اعمال )
(2)ان کی لغزش میں نہ پڑنا :صحابۂ کرام کے آپس کے
معاملات میں جو لغزشیں ہوئی ان میں پڑنا
حرام اور سخت حرام ہے ۔ سب صحابہ حق پر تھے جو ان کے درمیان معاملات ہوئے اللہ ان
کو دور فرما دیا ۔جیسے قراٰنِ کریم میں ہے
: وَ نَزَعْنَا مَا فِیْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ
لیے۔( پ 8 ، الاعراف: 43)
کیونکہ جن سے لغزشیں ہوئی وہ مجتہد تھے اور مجتہد غلطی پر ہو تو اسے ایک نیکی ملتی ہے ۔ کیونکہ
یہ اختلاف خواہش نفس کے لیے نہیں تھا ۔
(3)صحابہ کو گالیاں
دینا: صحابۂ کرام میں
سے کسی ایک کو گالی دینا برا اور گستاخی ہے اور ایسا کا قائل رافضی ہے ۔ سب صحابہ متقی تھے اور متقی ایسے کہ ان کے
جیسا پرہیزگار کوئی نہیں تھا حضرت ابو سعید خدری روایت کرتے ہیں کہ رسو لِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم
میرے اصحاب کو برا بھلا نہ کہو کیونکہ اگر
تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا( اللہ کی راہ ) میں خرچ کرے تو اس کا
ثواب میرے صحابہ کے ایک مد یا آدھے مد کے ثواب کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔(
مشکوۃ ،کتاب مناقب الصحابہ ، حدیث:5750)
(4) صحابہ سب سے زیادہ برگزیدہ اور نیک تھے کیونکہ تربیت سے براہ راست تربیت یافتہ تھے ، حضرت عمر
کہتے ہیں میں کہ رسول اللہ نے فرمایا: میرے
اصحاب کی تعظیم و تکریم کریں کیونکہ تم میں بہترین ہیں پھر وہ لوگ جو ان کے قریب
ہیں ( تابعین ) پھر وہ لوگ جو ان کے( تابعین ) کے قریب ہیں ( تبع تابعین ) اور اس کے
بعد جھوٹ ظاہر ہو جائے گا یہاں تک کہ ایک شخص قسم اٹھائے گا حالانکہ اس سے قسم کا
مطالبہ نہ ہوگا اور گواہی دے گا حالانکہ اس سے گواہی دینے کا نہ کہا جائے گا۔
دیکھو جو جنت کے قریب رہنا چاہئے تو اس کو چاہئے کہ جماعت کا لازم پکڑے کیونکہ
شیطان اس کا ساتھی بن جاتا ہے جوتنا ہوتا ہے۔ جس شخص کو اس کی نیکی خوشی پہنچائے
اور اس کی بری اس کو غمگین کردے وہ مؤمن ہے۔( مشکوۃ ، کتاب مناقب الصحابہ ج 1 ،حدیث:
5958)
(5)صحابۂ کرام کو
جنتی ماننا: حضور کے سارے سب صحابہ جنتی ہیں اللہ نے سب سے بھلائی کا
وعدہ فرمایا ہے ، صحابۂ کرام کو برا کہنے
والا لعنتی ہے سب صحابہ آقا کے سچے عاشق
تھے اور آقا کے غلام تھے ،انکےجنتی ہونے
کے بارے میں آیت پیش کی جاتی ہے : اِنَّ
الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰۤىۙ-اُولٰٓىٕكَ عَنْهَا
مُبْعَدُوْنَۙ(۱۰۱) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیْسَهَاۚ وَهُمْ فِیْ مَا اشْتَهَتْ
اَنْفُسُهُمْ خٰلِدُوْنَۚ(۱۰۲) یَحْزُنُهُمُ الْفَزَعُ الْاَكْبَرُ وَ
تَتَلَقّٰىهُمُ الْمَلٰٓىٕكَةُؕ-هٰذَا یَوْمُكُمُ الَّذِیْ كُنْتُمْ
تُوْعَدُوْنَ(۱۰۳)
پیارےپیارے اسلامی
بھائیوں ! صحابۂ کرام مصیبتیں جھیل کر اسلام کو ہم تک پہنچانے کا سبب
بنے، انہوں نے قراٰنِ پاک کو محفوظ کیا ، یہ حضرات خوفِ الٰہی ، دنیا سے بے رغبتی
،محبت کرنے والے، ہمدردری ، غمگسار اور ایک دوسرے پر مہربان تھے ۔ سب کے سب عادل
اور متقی تھے ، ان کے بارے میں اپنی زبان کو لگام دینا چایئے حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے
انکی پیروی اور ان سے محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے ۔
نبی کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند تو ان میں سے جس
کی تم پیروی کروگے ہدایت پاؤ گے۔ ( مشکوۃ ،ج 2 ،حدیث: 5964)
اس کا مطلب یہ ہوا کہ صحابۂ کرام سچائی کے راستے کو ظاہر
کرنے اور برائی کے اندھیروں کو دور کرنے
والے ہیں ، انکے روحانی و جدانی چہرے اوار
ان کے اخلاق ، کردار کی روشنی میں حق کا
راستہ ظاہر ہوتا ہے اور بری کا اندھیرا چھٹ جاتا ہے ۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں :
اہل سنت کا ہے بیڑا پار اصحاب
حضور
نجم ہیں اور ناؤ ہیں عزت
رسول اللہ کا