صحابی کسے کہتے ہیں؟:
امام حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃُ ﷲ علیہ نے صحابی کی تعریف (definition)یوں کی ہے جو بہت جامع ومانع اور
اہل علم کے ہاں مقبول اور راجح ہے، کہ صحابی وہ ہے جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملاقات کی ہو اور وہ اسلام پر ہی فوت ہوا ہو۔ (نزهَۃ
النظر بشرح نخبۃ الفکر: 64)
صحابۂ کرام رضوان
اللہ علیہم اجمعین وہ نفوس قدسیہ ہیں جن
کو خاتم الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے جمال جہاں آراء سے اپنی آنکھیں
روشن کرنے اور آپ کی مجلس نشینی کی سعادت نصیب ہوئی۔ آخری نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے فیض صحبت نے ان کے شرف انسانیت کو جیتی جاگتی تصویر بنادیا۔ ان
کا ہر فرد خشیت الہی، حق گوئی(Righteousness) ایثار، قربانی ،تقوی ،دیانت ،عدل اور احسان کا پیکر جمیل تھا
تمام علمائے حق کا اس بات پر کامل اتفاق ہے کہ صحبت رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم سے بڑھ کر کوئی شرف اور بزرگی نہیں، اس صحبت سے متمتع ہونے والی پاک ہستیوں
کی عظمت اور حسن کردار کا ذکر قراٰن و حدیث میں وارد ہوا ہے اور چونکہ صحابۂ کرام
ہمارے مقتداء و پیشوا ہیں تو تمام مسلمان پر صحابۂ کرام کے بے شمار حقوق ہیں جن
کا پاس ولحاظ رکھنا ہم سب کے لیے ضروری ہے ۔
ذیل میں چند حقوق اختصار کے ساتھ مندرجہ ذیل ہیں:
(1) ان سے محبت ، ان کے نام کے ساتھ رضی اللہ
عنہ کا استعمال کرنا : اس لیے کہ اللہ نے ان سے محبت
کی وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ ان سے راضی ہوا چنانچہ فرمایا: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ انھیں جنت کی بشارت دی چنانچہ فرمایا: جَزَآؤُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ
(2) ان کی فضیلت و
افضلیت کا یقین : حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث جس میں رسولُ اللہ نے صحابۂ
کرام کو تمام لوگوں سے افضل قرار دیا۔ چنانچہ میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔( مشکوٰۃ المصابیح
،2/413،حدیث: 6012)
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حضرات صحابۂ
کرام رضی اللہ عنہم کو ہدایت کے درخشاں ستارے قرار
دیا ارشاد فرمایا : اصحابی کالنجوم فبأيهم اقتديتم اهتديتم ۔ترجمہ : میر ے صحابہ ہدایت کے درخشاں ستارے ہیں ،تم ان
میں سے جس کی بھی پیروی کروگے ہدایت پالوگے ۔ (زجاجۃ المصابیح ،5/ 334)
(3) ان کی عدالت کا
یقین : جیسا کہ شریعت کے بہت سارے نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام
صحابہ عادل ہیں بلکہ اہلِ علم کی ایک جماعت نے اس پر اجماع نقل کیا ہے ۔ ( التمھید
لابن عبد البر : 22/47 )
(4) ان کے تعلق سے
اپنے دل کو صاف رکھنا اور جو کچھ صحابہ کے مابین مشاجرات رونما ہوئے ان پر گفتگو
سے گریز کرنا : جیسا کہ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ
مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا
الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا
لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠(۱۰) ترجمۂ کنزالایمان:
اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں
کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ
اے رب ہمارے بےشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے۔ ( پ28، الحشر : 10 ) اس آیت کے تحت مفتی محمد قاسم عطّاری اس آیت کے
تحت تفسیر صراط الجنان میں فرماتے ہیں: یعنی مہاجرین اور انصار کے بعد آنے والے
عرض کرتے ہیں : اے ہمارے رب! ہمیں اور
ہمارے ان بھائیوں کو بخش دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کیلئے کوئی کینہ(malice) نہ رکھ، اے
ہمارے رب! بیشک تو نہایت مہربان، رحمت والا ہے اور تو اپنی مہربانی اور رحم کے
صدقے ہماری ا س دعا کو قبول فرما۔(روح البیان، الحشر، تحت الآیۃ: 10، 9 / 436-437)
یاد رہے کہ مہاجرین و انصار کے بعد آنے والوں میں قیامت تک پیدا ہونے والے تمام مسلمان داخل ہیں اور ان
سے پہلے ایمان لانے والوں میں تمام صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم داخل ہیں (صراط الجنان)
(5) ان کی شان میں گستاخی نہ کی جائے اور نہ ہی
ان کو سب وشتم کیا جائے : صحابہ لوگوں میں
سب سے بہتر اور دین اسلام کے محافظ(protecter) ہیں ان پر سب و شتم دینا دراصل ان کے تعلق سے اللہ پاک کے دئیے
گئے رضامندی کے مژدہ پر عیب لگانا ، اللہ کے نبی کو تکلیف پہنچانا ہے ۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ، نبی اکرم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : تم لوگ میرے صحابہ کو سب و شتم نہ کرو ، اگر
تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے مثل سونا خرچ کرکے ان کے ایک میں سیر آدھے سیر (half kg) کے ( ثواب کو
) پہنچنا چاہے تو نہیں پہنچ سکتا ۔ (
بخاری ، کتاب فضائل اصحاب النبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ،حدیث: 3673 )
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : تم سب کسی صحابی رسول کو گالی نہ دو ، حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کے ساتھ ان کی ایک لمحہ کی ہم نشینی (Cohabitation) تمہاری پوری زندگی کے عمل سے افضل ہے ۔( فضائل الصحابہ ، لأحمد ،
1/57، ناشر دار ابن جوزیہ )
امام مالک رحمۃُ
اللہ علیہ کہتے ہیں : جو صحابہ کو سب و شتم
بکتا ہو اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔( السنہ للخلال ، 3/493، ناشر دارالرایۃ
للنشر والتوزیع )
صحابۂ کرام کے متعلق
ہمارا عقیدہ: صحابہ کے تعلق سے افراط وتفریط (Inflation and deflation) سے پاک منہج
اختیار کرنا ضروری ہے جیسا کہ امام الطحاوی رحمۃُ اللہ علیہ نے ذکر کیا ہے : ہم تمام صحابہ سے محبت کرتے ہیں ، کسی سے برأت
(لا تعلقی) کا اظہار نہیں کرتے ، ہم ان لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض یا
ان کا ناحق تذکرہ کرتے ہیں ، ہم تمام صحابہ کا ذکرِ جمیل کرتے ہیں۔ (العقیدۃ
الطحاویہ مع الشرح، 2/689 )
علماء اہلسنت صحابہ کے مابین مشاجرات کو ان کے اجتہادات پر
مبنی قرار دیتے ہیں جس پر ہر حال میں وہ ثواب کے مستحق ہیں ۔ اگر ان کا اجتہاد
صحیح ہوا تو دو ثواب اور اگر ان سے اجتہادی غلطی ہوئی تو ایک ثواب ۔
محبت خدا و رسول و دین ، اور ہدایت کاملہ انہیں حضرات کی محبت
اور ان کے نقش قدم پر چلنے میں ہے اور ان سے بغض بد مذہبی منافقت اور سرکشی کا پیش
خیمہ ہے۔ الله کریم ہم سب کو صحابۂ کرام کے منہج کو اختیار کرنے کی توفیق دے،
تمام صحابہ و اہل بیت کی محبت سے ہمارے دلوں کو سرشار رکھے۔ اٰمین بجاہ النبی
الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم