صحابہ کرام وہ
عظیم ہستیاں ہیں جنہوں نے ظاہری آنکھوں سے ایمان کی حالت میں نبی کریم خاتم
النبیین ﷺ کی زیارت کی اور ایمان ہی کی حالت میں ان کا انتقال ہوا، کوئی بھی ولی،
غوث و قطب کتنے ہی اعلیٰ درجے پر کیوں نہ فائز ہو مگر صحابہ کے مرتبے تک نہیں پہنچ
سکتے، قرآن و حدیث میں صحابہ کی شان و عظمت بیان کی گئی ہے، صحابہ کرام کے بے شمار
حقوق ہیں جن کا لحاظ رکھنا بے حد ضروری ہے، ذیل میں چند حقوق بیان کئے جاتے ہیں:
1۔ صحابہ کرام
سے دل و جان سے محبت کرنا، جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے
بارے میں اللہ سے ڈرتے رہو میرے بعد انہیں نشانہ مت بنانا پس جس نے ان سے محبت کی
تو اس نے مجھ سے محبت کی وجہ سے ایسا کیا اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ
سے بغض کی وجہ سے ایسا کیا۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6014) معلوم ہوا کہ
صحابہ سے محبت نبی کریم ﷺ سے محبت ہے، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے
ہیں:
اہلسنت
کا ہے بیڑا پار اصحاب رسول نجم
ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی
2۔ ان کی عزت
کرنا یعنی انہیں بلند و اعلیٰ مرتبے والا سمجھنا، قرآن مجید میں اللہ پاک نے ارشاد
فرمایا: اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ دَرَجٰتٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ مَغْفِرَةٌ وَّ
رِزْقٌ كَرِیْمٌۚ(۴) (پ 9، الانفال: 04) ترجمہ کنز الایمان: یہی سچے
مسلمان ہیں ان کے لیے درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور بخشش ہے اور عزت کی روزی۔ رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ
المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)
3۔ ان کی
تعظیم کرنا یعنی ان کا ذکر احترام کے ساتھ اور اچھے انداز میں اچھے الفاظ کے ساتھ
ہی کرنا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کوئی
احد پہاڑ سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مد کو پہنچ سکتا ہے
اور نہ ہی مد کے آدھے کو۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3673) ایک اور جگہ رسول کریم ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جو میرے صحابہ کو برا کہے اس پر اللہ کی لعنت اور جو ان کی عزت کی
حفاظت کرے میں قیامت کے دن اس کی حفاظت کروں گا (یعنی اسے جہنم سے محفوظ رکھوں
گا)۔ (ابن عساکر، 44/22) نیز صحابہ کرام کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی بھی کفر ہے۔
(بنیادی عقائد و معمولات اہلسنت) لہٰذا ہمیں چاہیے کہ جو لوگ صحابہ کے بارے میں
غلط بات کرتے ہیں ان کے سائے سے بھی دور رہیں۔
4۔ ان سب کو
قطعی جنتی جاننا، جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ
رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ
خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ
10، التوبۃ: 100) ترجمہ: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار
کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی
ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سارے صحابہ کرام جنتی ہیں ان میں کوئی گنہگار اور فاسق
نہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)
ہر
صحابی نبی جنتی جنتی
سب
صحابیات بھی جنتی جنتی
5۔ ان کی سیرت پر عمل کرنا ان کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا، حضور پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا: میری اور خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرو۔ (مؤطا
امام مالک،3/108،حدیث:709)ایک اور جگہ رسول
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کی بھی
اقتدا کروگے ہدایت پا جاؤگے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018) اس سے معلوم ہوا کہ ہمیں بھی صحابہ کرام کی بتائی
ہوئی باتوں پر عمل کرنا چاہیے ان کی سیرت پر عمل کرتے ہوئے زندگی گزارنی چاہیے
تاکہ ہمیں بھی ان کا فیضان حاصل ہو۔