حقوقِ
صحابہ از بنت ِمنظور احمد،فیضانِ مدینہ العطار ٹاؤن میرپور خاص سندھ
ارشادِ باری
ہے:مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِؕ-وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ
عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُم (26،الفتح:
29) ترجمہ کنز الایمان:”محمد اللہ کے رسول ہیں اور ان کے ساتھ والے کافروں پر سخت
ہیں اور آپس میں نرم دل۔“آیت کی ابتدا میں اللہ پاک اپنے حبیب ﷺ کی پہچان کروارہا
ہے کہ محمد ﷺ اللہ کے رسول ہیں۔آیت کے اگلے جُز(وَ
الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ)میں اللہ پاک نے اپنے حبیبﷺ کے صحابہ
کرام کی شان بیان فرمائی کہ وہ کافروں پر سخت ہیں اور آپس میں نرم دل۔(تفسیرصراط
الجنان)
یاد رہے!صحابہ
کرام وہ ہستیاں ہیں جنہیں اپنے اللہ پاک اور حبیب ﷺ سے بے پنا ہ عشق و محبت تھی،جس
کا نتیجہ یہ تھا کہ وہ حضور ﷺکے دشمنوں سے بے حد نفرت اور حضورﷺ کے پیاروں سے بے
حد محبت کرتے۔ چونکہ حضورﷺ کی پیاری چیزوں میں سے ایک آپ کی امت بھی ہے۔لہٰذا
صحابہ کرام نے اس امت کی خیرخواہی،دینِ اسلام کی سربلندی،دین کی نصرت،حمایت اور
دنیا میں امن قائم کرنے کے لیےکئی تکالیف برداشت کیں اور قربانیاں دیں حتّٰی کہ
بعض صحابہ کرام اپنی آنکھیں کھو بیٹھے اور بعض مشرکین کی طرف سے دیئے جانے والے
مصائب کی تاب نہ لاتے ہوئے شہید ہوگئے۔انہی ہستیوں کے کچھ حقوق امتِ محمدیہ پر
عائد ہوتے ہیں جن میں سے چند پیشِ خدمت ہیں:
1۔
صحابہ سے محبت:
ان سے محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ کبھی بھی بُرائی سے تذکرہ نہ کریں نہ سنیں۔
2-عیب
جوئی نہ کریں:
مروی ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا:میرے صحابہ کی عیب جوئی نہ کرو،اس لیے کہ اگر تم
میں کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک یا آدھے مُد کے برابر
بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری، 2/522،حدیث: 3673 )
3-ان
کی تعظیم و تکریم کی جائے:فرمانِ مصطفٰے ﷺ:میرے صحابہ کا احترام
کرو کیونکہ وہ تم میں سب سے افضل ہیں۔ (نسائی)
4-خیر
کے ساتھ ذکر کرنا:اہلِ
سنت وجماعت کا عقیدہ ہے کہ تمام صحابہ اہلِ خیرو صلاح اور عادل ہیں۔ لہٰذا خیر کے
ساتھ ان کا ذکر کرنا فرض ہے۔