وہ لوگ جنہوں نے ایمان کی حالت میں آقا ﷺ کی صحبت ِبابرکت کا شرف حاصل کیا ہو اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں ان کو صحابہ کہتے ہیں۔انبیائے کرام کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر صحابہ کرام ہیں۔ان حضرات کی قدر و منزلت کا کیا کہنا کہ اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ ان سے راضی ہیں۔حتی کہ ان کے جنتی ہونے کی گواہی خود قرآنِ کریم میں بیان ہے،چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے:رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ۔ان کے تقویٰ و فضائل پر قرآن و حدیث شاہد ہیں۔وہ لوگ جو ان کی شان میں گستاخیاں کرتے ہیں وہ اپنے لیے اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی ناراضی مول لیتے ہیں اور اپنے لیے سوائےبُرائی کے کچھ حاصل نہیں کرتے۔امتِ محمدیہ پر ان عظیم ہستیوں کے حقوق قرآن و حدیث میں ذکر ہوئےہیں،ان میں سے چند یہ ہیں:

1- عزت کرو: آقا ﷺ نے فرمایا:صحابہ کی عزت کرو کیونکہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح، 8/285،حدیث:5751) اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انبیائے کرام علیہم السلام کے بعد انسانوں میں سب سے بہتر وہ ہی ہیں جنہوں نے آقا ﷺ کی صحبت اختیار کی ہو اور وہ صحابہ کرام ہیں۔

2-استغفار یعنی مغفرت کی دعا کرو:بے شک صحابہ جنتی ہیں اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرنے میں ہمارے لیے جنت کی بشارت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے تمام صحابہ سے جو محبت کرے ان کی مدد کرے اور ان کے لیے استغفار کرے( یعنی مغفرت کی دعا کرے) تو اللہ پاک اسے قیامت کے دن جنت میں میرے صحابہ کا ساتھ نصیب فرمائے گا۔ ( ہر صحابی نبی جنتی جنتی، ص 14)

3-محبت کرو اور بغض نہ رکھو:صحابہ کے حق میں سے ایک حق یہ بھی ہے کہ ان سے محبت کی جائے اور اپنے دلوں اور زبانوں پر ان کے لیے کوئی بُرائی نہ لائی جائے اور ان حضرات کے آپس کے معاملات کو دلیل بنا کر کسی ایک کی تعریف میں اس طرح حد سے گزرنا کہ دوسرے صحابہ کی شان میں کمی ہو نیز سب صحابہ عادل اور حق پر ہیں اور یہی عقیدۂ اہلِ سنت ہے۔مزید آقا ﷺ نے ان کی محبت کو اپنی محبت قرار دیا اور اس ہی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو، اللہ پاک سے ڈرو۔ میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اورجس نے اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرما لے۔ (ترمذی، 5/463، حدیث: 3888)

4۔گالی نہ دو: جب مشرکین کو ایمان لانے کی دعوت دی گئی تو انہوں نے نہ صرف اسلام لانے سے انکار کیا بلکہ صحابہ کی شان میں گستاخی کی جس پر اللہ پاک نے سورۃ البقرہ آیت نمبر 13 میں ان کو جواب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: اَلَاۤ اِنَّهُمْ هُمُ السُّفَهَآءُ وَ لٰكِنْ لَّا یَعْلَمُوْنَ(۱۳) ترجمہ کنزالایمان: سنتا ہے! وہی احمق ہیں مگر جانتے نہیں۔

اسی طرح حدیثِ مبارکہ میں بھی ارشاد ہے: میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کو گالی گلوچ نہ کرو۔(ان کا مقام یہ ہے کہ )اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا(اللہ کی راہ میں) خرچ کرے تو ا س کا ثواب میرے کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے ایک مُد (ایک چھوٹی سی مقدار)بلکہ آدھا مُد خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری، 2/522، حدیث:3673)

5۔ بُرا نہ کہو: رسول اللہ ﷺ صحابہ کرام کی عزت کرنے اور ان کے بارے میں غلط بات کرنے سے منع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:جس نے انہیں بُرا بھلا کہا اس پر اللہ پاک،فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔ بروزِ قیامت اللہ پاک نہ تو اس کے نفل قبول فرمائے گا اور نہ ہی فرض۔ ( دس اسلامی عقیدے، ص 107)

لہٰذا ہمیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دل سے تعظیم کرنی چاہیے۔اللہ پاک سب مسلمانوں کو ان کی شان میں ذرہ برابر بھی گستاخی کرنے سے محفوظ فرمائے اور ان مبارک ہستیوں کے حقوق بجا لانے کی توفیق بخشے۔