بلاشبہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم دین کے ترجمان،قرآنِ عظیم کے محافظ و پاسبان،سنتِ نبوی کے عامل اور بلند سیرت کے حامل ہیں۔یہی وجہ ہے کہ امتِ مسلمہ میں ان کو بڑا اونچا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔ صحابی اس شخص کو کہتے ہیں جس نے حالت اسلام میں آپ ﷺ کی زیارت کی ہویااسے آپ کی صحبت نصیب ہوئی ہو،خو اہ ایک لمحے کے لیے کیوں نہ ہو۔اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر صحابہ کرام کے حقوق کےبارے میں ارشاد فرمایا ہے:اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ(۵۵) (پ6،المائدۃ:55)تر جمہ:تمہارے دوست تو خدا اس کے پیغمبر اور مومن لوگ ہیں جو نماز پڑھتے اور زکوة دیتے اورخدا کے آگے جھکتے ہیں۔

اس آیتِ مبارکہ میں اہلِ ایمان سے محبت کرنے والے کو اللہ پاک کا ولی قرار دیا گیا اور جس وقت یہ آیت نازل ہوئی اس وقت اہلِ ایمان صرف صحابہ کرام تھے۔آیاتِ قر انیہ کے علاوہ کتبِ احادیث بھی فضائلِ صحابہ سے مالا مال ہیں:

1-آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا:میرے صحابہ کو گالی مت دو! اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کردے تو پھر بھی وہ ان میں سے کسی ایک کے سیر بھر یا اس سے آدھے کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (بخاری،2/522،حدیث: 3673 )

2-آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے نیک ترین لوگ ہیں۔(مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012)

3-حدیثِ پاک میں ہے: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کروہدایت پا جاؤ گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)

4-حدیثِ پاک میں آپ کا ارشادِ گرامی ہے: جو میرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں رعایت رکھے گا وہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچ سکے گا اور جوان کے بارے میں میری رعایت نہ کرے گا وہ میرے پاس حوضِ کوثرتک نہ پہنچ سکے گا اور مجھے دور سے ہی دیکھے گا۔ (حکایات صحابہ)

ان آیات و روایات پر نظر کرتے ہوئے یہ یقین حاصل ہوتا ہے کہ ان حضرات کی شان بہت اعلیٰ وارفع ہے۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ان پاکیزہ ہستیوں کی محبت اپنے دل میں بسائے رکھیں اور دونوں جہاں میں کامیابی کے لیے ان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی کوشش کریں۔