ایک بزرگ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ زبان ایک درندے کی طرح ہے اگر تم
اسے باندھ کر نہیں رکھوگے تو یہ تمہاری دشمن بن جائے گی۔(المستطرف) یاد رہے کہ ایک
مسلمان پر حق ہے کہ وہ نہ تو دوسرے مسلمان کو گالی دے اور نہ ہی بلا اجازت شرعی
کسی کو برا بھلا کہے، لیکن افسوس کہ عیب جوئی جیسی منحوس بیماری نے ہر طبقہ میں
اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہیں، انسان کسی کی کمزوریاں گننے بیٹھے تو خونی رشتے بھی اس
کی نظر میں بے قدر و قیمت ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھار تو بد بختی ایسی غالب آتی ہے
کہ ہدایت کے روشن ستاروں یعنی صحابہ کرام جیسی مقدس ہستیوں پر بھی طعن و تشنیع
کرنےمیں مبتلا ہو جاتا ہے، ایسوں کو اللہ کی خفیہ تدبیر سے ڈر جانا چاہیے کیونکہ
صحابہ کرام وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے بارے میں ہمارا مسلمہ عقیدہ ہے کہ تمام
صحابہ کرام اہلِ خیر و صلاح ہیں اور عادل، ان کا جب ذکر کیاجائے تو خیر ہی کے ساتھ
ہونا فرض ہے۔ (بہار شریعت)
1۔ دوجہاں کے
تاجور ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو، میرے بعد انہیں
تنقید کا نشانہ نہ بنانا جس نے ان سے محبت رکھی تو اس نے میری محبت کے سبب ان سے
محبت رکھی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے مجھ سے بغض کے سبب ان سے بغض رکھا
اور جس نے انہیں اذیت دی اس نے مجھے اذیت دی اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ
پاک کو اذیت دی اور قریب ہے کہ اللہ اس کی پکڑ فرمالے۔(ترمذی، 5/463، حدیث: 3888)
2۔ میرے اصحاب
میری امت کے لیے امان ہیں اور جب وہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ فتنے آجائیں
گے جن سے اس کو ڈرایا گیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم، 6/1206)
3۔ اس مسلمان
کو آگ نہ چھوئے گی جس نے مجھے دیکھا یا مجھے دیکھنے والے کو دیکھا۔ (ترمذی، 5/694،
حدیث:3858)
4۔ میرے صحابہ
کی مثال میری امت میں کھانے میں نمک کی سی ہے کہ کھانا نمک کے بغیر درست نہیں
ہوتا۔ (مراٰۃ المناجیح، جلد 8)
5۔ میرے صحابہ
کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں کوئی احد پہاڑ بھر سونا خیرات کرے تو ان کے نہ مد
کو پہنچے گا نہ آدھے کو۔(بخاری، 2/522، حدیث:3673)
امیر اہل سنت
اپنے مشہور زمانہ نعتیہ دیوان وسائل بخشش میں یوں عرض کرتے ہیں: