سرور
کائنات فخر موجودات ﷺ کے ساتھ والہانہ عقیدت اور ایمانی محبت کا تقاضا یہ بھی ہے
کہ حضور کے والدین، تمام آباؤ اجداد اور ان کے صحابہ کرام کا ادب و احترام کیا
جائے، کیونکہ یہ تو دنیا کا بھی دستور ہے ہمیں جس انسان سے محبت ہو جاتی ہے پھر اس
سے نسبت رکھنے والی ہر چیز ہر انسان سے ہمیں پیار ہو جاتا ہے، اسی طرح جس طرح ہمیں
اپنے پیارے آقا ﷺ سے عشق و محبت ہے پھر ہمیں بھی چاہیے کہ حضور سے نسبت رکھنے والے
ہر انسان سے محبت کریں، ان میں صحابہ کرام بھی شامل ہیں۔
صحابی
کسے کہتے ہیں:
حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے
ایمان کی حالت میں حضور ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور ایمان ہی پر خاتمہ ہوا انہیں
صحابی کہتے ہیں۔ (نزہۃ النظر، ص 111)
صحابہ کرام سے
محبت حضور سے محبت کا تقاضا کرتی ہے، کیونکہ یہ حضور ﷺ کے باوفا دوست، مخلص ساتھی
اور والہانہ محبت کرنے والے تھے اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم ان کے حقوق کو پورا
کریں جو ہم پر لازم ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
صحابہ
کرام کے حقوق:
1۔
تعظیمِ صحابہ:
صحابہ کرام کی قدر و منزلت وہی شخص جان سکتا ہے جو نبی کریم ﷺ کی عظمت و رفعت سے
واقف ہوگا کیونکہ ان کی تعظیم گویا کہ نبی کریم ﷺ ہی کی تعظیم ہے جیسا کہ حضرت
امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نبی پاک ﷺ کی تعظیم میں سے یہ بھی
ہے کہ آپ کے صحابہ کرام کی تعظیم کرنا، ان سے اچھا سلوک کرنا، ان کے حق کو
پہچاننا، ان کی پیروی کرنا، ان کی تعریف و توصیف کرنا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا
کرنا۔ (الشفاء، 2/52)
2۔
محبت صحابہ:
میرے صحابہ کے بارے میں اللہ پاک سے ڈرو اللہ پاک سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ
بنانا کیونکہ جس نے ان سے محبت کی تو اس نے میری محبت کی وجہ سے ان سے محبت کی اور
جس نے ان سے بغض رکھا تو اس نے میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا اور جس نے انہیں
ستایا اس نے مجھے ستایا اور جس نے مجھے ستایا اس نے اللہ پاک کو ایذا دی اور جس نے
اللہ پاک کو ایذا دی تو قریب ہے کہ اللہ پاک اس کی پکڑ فرمائے۔ (ترمذی، 5/463،
حدیث: 3888)
3۔
افضل الاولیاء:
صحابہ کرام افضل الاولیاء ہیں یعنی قیامت تک کے تمام اولیائے کرام اگرچہ وہ درجہ
ولایت کی بلند ترین منزل پر فائز ہو جائیں مگر ہرگز ہرگز کبھی بھی وہ کسی صحابی کے
کمالات ولایت تک نہیں پہنچ سکتے، اس لیے ہم پر یہ حق ہے کہ ہم صحابہ کرام کو غیر
صحابہ اولیائے کرام سے بہت زیادہ افضل و اعلیٰ اور بلند و بالا مانیں، اس میں شک
نہیں کہ حضرات صحابہ سے اس قدر زیادہ کرامتوں کا صدور نہیں ہوا جس قدر دوسرے
اولیائے کرام سے کرامتیں منقول ہیں لیکن واضح رہے کہ کثرتِ کرامت افضلیت کی علامت
نہیں، کیونکہ ولایت در حقیقت قربِ الٰہی کا نام ہے، یہ قرب الٰہی جس کو جس قدر
زیادہ حاصل ہوگا اسی قدر اس کی ولایت کا درجہ بلند سے بلند تر ہوگا۔ (کرامات صحابہ،
ص 52)
4۔
اتباعِ صحابہ:
صحابہ کرام کا اہم ترین حق یہ ہے کہ ان کے اعمال و افعال میں اور ان کے اخلاق میں
ان کی اتباع و پیروی کی جائے کیونکہ اللہ پاک نے سابقین اولین صحابہ کرام کی اتباع
و اقتدا پر ہم تمام مومنوں کو اپنی خوشنودی کی بشارت دی ہے، اسی طرح احادیث مبارکہ
میں ان کی اتباع و پیروی کی تاکید و ترغیب بہت اہتمام سے بیان ہوئی ہے ایک حدیث
میں ہے حضور ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی طرح ہیں جس کی اتباع کروگے ہدایت
پاؤگے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)
5۔ دفاعِ صحابہ:
صحابہ کرام کے اور بھی بہت زیادہ حقوق ہیں لیکن دفاعِ صحابہ
سب سے زیادہ اہم ہے، موجودہ حالات میں اس حق کی ادائیگی بہت ضروری ہے اس حق سے
پہلوتہی باعث لعنت ہے چنانچہ ایک حدیث میں ہے: جب فتنے یا بدعت ظاہر ہونے لگیں اور
میرے صحابہ کو برا کہا جانے لگے تو عالم کو چاہیے کہ اپنے علم کو کام میں لا کر
صحابہ کرام کا دفاع کرے اور جو شخص حضرات صحابہ کا
دفاع نہیں کرے گا تو اس پر اللہ کی لعنت، فرشتوں کی لعنت اور تمام لوگوں کی لعنت
ہو اور اللہ پاک نہ ان کے فرض قبول فرمائے گا اور نہ ہی نفل۔ (مرقاۃ)