صحابی کے اصل
معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے،
اصطلاحی طور پر صحابی کا اطلاق ان لوگوں پر ہوتا ہے جنہوں نے بحالتِ ایمان حضور ﷺ
سے ملاقات کی اور ایمان ہی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے ہوں۔
حقوقِ
صحابہ:
1۔ بے شک تمام
صحابہ کی تعظیم اور ان کے بارے میں طعن و تشنیع سے باز رہنا واجب ہے کیونکہ اللہ
پاک نے اپنی کتاب میں کئی مقامات پر ان کی تعظیم اور تعریف بیان فرمائی ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ
هَاجَرُوْا وَ جٰهَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ وَ الَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّ
نَصَرُوْۤا اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّاؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ
رِزْقٌ كَرِیْمٌ(۷۴) (پ 10، الانفال: 74) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو
ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں لڑے اور جنہوں نے جگہ دی اور مدد کی
وہی سچے ایمان والے ہیں ان کے لیے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔
سب
صحابہ سے ہمیں تو پیار ہے ان
شاء اللہ دو جہاں میں اپنا بیڑا پار ہے
2۔ رسول اللہ
ﷺ کا فرمان عظمت نشان ہے: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد
پہاڑ سونا خیرات کرے تو میرے صحابہ میں سے کسی ایک کے نہ مد کو پہنچ سکتا ہے اور
نہ ہی مد کے آدھے کو۔ (بخاری، 2/522، حدیث:3673)
3۔ ہمارے
پیارے نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کے معاملے میں میرا لحاظ کرنا کیونکہ وہ
میری امت کے بہترین لوگ ہیں۔ (حلیۃ الاولیاء، 1/311)
4۔ سرکار عالی
وقار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس مسلمان کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی جس نے میرے صحابی
کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہو۔(ترمذی، 5/694، حدیث:3858)اس حدیث مبارکہ سے ہمیں پتا
چلتا ہے کہ اگر صحابہ کرام کی زیارت کرنے والے کو جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی تو جو
صحابہ کرام کی تعظیم کرتا ہو اسے کیسا اجر ملے گا، اس لیے سب مسلمانوں کو صحابہ
کرام کی تعظیم اپنی جان سے بڑھ کر کرنی چاہیے تا کہ اس کا آخرت میں اچھا اجر ملے۔
5۔ رسول اللہ
ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب میرے صحابہ کا تذکرہ ہو تو نہایت احتیاط سے بولو۔ اس حدیث
مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام کے تذکرہ میں نہایت احتیاط سے بولنا چاہیے۔
ایک جگہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: بہتر لوگ اس زمانے کے ہیں جس میں میں ہوں، اس کے
بعد دوسرے زمانے کے اور اس کے بعد تیسرے زمانے کے۔ (مسلم، ص 1371، حدیث: 2533)