صحابی وہ ہوتا ہے جس نے ایمان کی حالت میں آقائے دو جہاں ﷺ کی زیارت کی ہو اور ایمان کی حالت میں ہی وفات پائی ہو۔ صحابہ کرام کی تعظیم کرنا فرض ہے، ملائکہ مرسلین اور ساداتِ فرشتگان مقربین کے بعد بڑی عزت و منزلت اور قرب ِقبولِ احدیت پر فائز اصحاب سید المرسلین ﷺ ہیں ان کی قدر و منزلت وہی خوب جانتا ہے جو سید المرسلین ﷺ کی عزت و رفعت سے آگاہ ہے ہم پر صحابہ کرام کے کچھ حقوق لازم ہیں ان میں سے پانچ حقوق کو انتہائی مختصر طور پر پیش کرتی ہوں:

پہلا حق: ہم سب پر لازم ہے کہ ہم صحابہ کرام کو تمام امت سے افضل جانیں، تابعین سے لے کر تا قیامت امت کا کوئی ولی کیسے ہی پایہ عظیم کو پہنچے صاحب سلسلہ ہو، خواہ غیر ان کا ہرگز ہرگز ان میں سے ادنی کے رتبے کو نہیں پہنچتا اور ان میں سے ادنی کوئی نہیں۔ (اعتقاد الاحباب) جیسا کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر سونا خیرات کرے تو ان کے ایک مُد تو کیا آدھے کو بھی نہیں پہنچ سکتا۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3673) معلوم ہوا کہ صحابہ کرام کا مقام و مرتبہ اور افضلیت ہماری عقلوں سے وراء ہے۔

دوسرا حق: ہم پر لازم ہے کہ ہم صحابہ کرام کو انتہا درجے کا متقی مانیں اور ان کے احوال کی تفاصیل کہ کس نے کس کے ساتھ کیا کیا اور کیا نہ کیا اس پر نظر کرنا حرام مانیں، کیونکہ صحابہ کرام کے رتبے ہماری عقلوں سے وراء ہیں پھر ان کے معاملات میں ہم کیسے دخل اندازی کر سکتے ہیں اور ان کے جو آپس میں اختلافات ہوئے اسے ان کی اچھی نیت اور قلبی اخلاص پر محمول کریں، اللہ کا سچا فرمان سن کر دل کے آئینے میں تفتیش کے زنگ کو جگہ نہ دیں اور الحمد للہ اہلسنت کے خواص و عوام کا یہی طرز عمل ہے۔ (صراط الجنان، جلد 9، تحت الآیۃ: 9)

تیسرا حق: ہم پر لازم ہے کہ جب بھی ہم ان کا ذکر کریں خیر کے ساتھ کریں اور اہلسنت و جماعت کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام کا جب بھی ذکر ہو خیر کے ساتھ کرنا فرض ہے ہم ہرگز ایسا نہ کریں کہ ایک کی طرف داری میں دوسرے کو برا کہنے لگیں یا ایک کو دنیا کا حریص ٹھہرائیں ہم ان کا فیصلہ کرنے والے کون؟ جیسا کہ یہ قول ہے کہ "تیرا منہ ہے کہ تو بولے یہ سرکاروں کی باتیں ہیں" (اعتقاد الاحباب، ص 90 تا 98)

چوتھا حق: ہمیں چاہیے کہ صحابہ کرام اور اہل بیت رضی اللہ عنہم کے عرس، ختم، نیاز، فاتحہ کا اہتمام کریں، کیونکہ ان چیزوں میں ان بزرگوں کے لیے دعا ہے، جیسا کہ قرآن پاک میں ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ (پ 28، الحشر: 10) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اُن کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے۔ صحابہ کرام وہ پاکیزہ ہستیاں ہیں جنہیں اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کی صحبت اختیار کرنے کے لیے منتخب فرمایا، ان کی عظمت و شان کو قرآن مجید میں بیان فرمایا، لیکن افسوس کچھ لوگ خود کو مسلمان بھی کہتے ہیں اور ان کے سینے صحابہ کرام کے بغض سے بھرے ہوئے ہیں۔ اللہ پاک ایسے لوگوں کو ہدایت اور عقل سلیم عطا فرمائے۔ (صراط الجنان، پ 28، الحشر، 10/77)

پانچواں حق: ہم پر لازم ہے کہ ہم صحابہ کرام کی پیروی کریں، کیونکہ یہ وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے اللہ پاک کے پیارے حبیب ﷺ کی خدمت بابرکت میں رہنے کی سعادت حاصل کی، جیسا کہ حبیبِ خدا ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں تم ان میں سے جس کسی کی بھی اقتدا کروگے فلاح و ہدایت پا جاؤگے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/414، حدیث: 6018)

حضور ﷺ نے خود اپنے اصحاب کی پیروی کرنے کا حکم فرمایا ہمیں چاہیے کہ ہم صحابہ کرام کی اعمال و عبادات میں پیروی کریں اور ان کا ذکر جب بھی کریں ادب و احترام کے ساتھ کریں اور ان کی برائیاں کرنے والوں سے دور رہیں۔ یقینا جو صحابہ کرام کے بارے میں برا بھلا کہتے ہیں وہ حضور کو ناراض کرتے ہیں۔