صحابہ کرام کے حقوق کا خیال رکھنا بھی عقیدے کا تقاضا ہے، صحابی کسے کہتے ہیں؟ حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں اللہ کے پیارے نبی ﷺ سے ملاقات کی ہو اور ایمان ہی پر ان کا انتقال شریف ہوا ان خوش نصیبوں کو صحابی کہتے ہیں۔ (نخبۃ الفکر، ص 111) اکابر محدثین کے مطابق صحابہ کرام کی تعداد ایک لاکھ سے سوا لاکھ کے درمیان تھی، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تمام صحابہ کرام کے نام معلوم نہیں، جن کے معلوم ہیں ان کی تعداد تقریبا 7000 ہے۔ (ملفوظات اعلیٰ حضرت، ص 400)

صحابہ سے محبت رکھنا کیوں ضروی ہے؟ اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ السّٰبِقُوْنَ الْاَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهٰجِرِیْنَ وَ الْاَنْصَارِ وَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِاِحْسَانٍۙ-رَّضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ وَ اَعَدَّ لَهُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ تَحْتَهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًاؕ-ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ(۱۰۰) (پ 11، التوبۃ: 100) ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں یہی بڑی کامیابی ہے۔

تمام صحابہ کرام اعلیٰ و ادنیٰ اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں سب جنتی ہیں و جہنم کی بھنک نہ سنیں گے اور ہمیشہ اپنی من مانتی مرادوں میں رہیں گے محشر کی بڑی گھبراہٹ انہیں غمگین نہ کرے گی فرشتے ان کا استقبال کریں گے کہ یہ ہے وہ دن جس کا تم سے وعدہ تھا یہ سب مضمون قرآن عظیم کا ارشاد ہے۔ (بہار شریعت، 1/254) آئیے صحابہ کرام کے بارے میں احادیث ملاحظہ کرتے ہیں:

انصار سے محبت رکھنا ایمان کی نشانی ہے اور انصار سے کینہ (بغض) رکھنا نفاق کی نشانی ہے۔ (بخاری، حدیث: 17)

میرے اصحاب کو برا بھلا مت کہو اگر کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالے تو ان کے ایک مد غلہ کے برابر بھی نہیں ہو سکتا اور نہ ان کے آدھے مد کے برابر۔ (بخاری، 2/522، حدیث: 3673)

صحابہ کرام سے محبت کا تعلق رکھنا دین ایمان اور احسان کا تقاضا ہے اس لیے صحابہ کرام کی عزت کرنا اور ان سے محبت رکھنا ہماری ضرورت ہے خدا تعالیٰ نے اپنی پاک کتاب میں ارشاد فرمایا: ان کی ہدایت کی پیروی کرو۔ اور پہلے پارے کے اختتام پر فرمایا: پھر اگر تم بھی اسی طرح ایمان لاؤ جس طرح وہ ایمان لائے تو ہدایت پاؤگے۔ آقا ﷺ کے اہل بیت اور آپ کے صحابہ کے بارے میں ہم پر کیا واجب ہے صحابہ کرام کا ذکر اللہ پاک نے تورات، انجیل اور قرآن مجید میں کیا ہے، ان کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں، اہل بیت اور صحابہ کرام کے بارے میں ہم پر واجب ہے کہ ہم ان کے بارے میں اپنے دل صاف رکھیں، اپنی زبانیں پاک رکھیں ان کے فضائل بیان کریں ان کے اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کریں، ان کی شان میں گستاخی نہ کریں جیسا کہ بخاری کی روایت سے واضح ہوا، ان تمام باتوں پر عمل پیرا ہونا چاہیے، یہ بات عام طور پر سمجھ نہیں آتی کہ صحابہ کرام کے درمیان جو اختلافات تھے ان کے بارے میں ہمیں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے ہم نہیں جانتے ان معاملات کی اصل حقیقت کو اور یہ کہ جب اللہ پاک نے لوگوں کو جنت کی بشارت دے دی اب ان کے اختلافات کے بارے میں تذکرہ کر کے ہم کیا کر لیں گے! اس لیے ہمیں اس بارے میں خاموشی اختیار کرنی چاہیے اور ان کی شان میں گستاخی نہیں کرنی چاہیے۔ بہارِ شریعت میں ہے: تمام صحابہ کرام اہل خیر و صلاح (یعنی بھلائی والے) اور عادل ہیں، ان کا ذکر جب کیا جائے تو خیر یعنی بھلائی ہی کے ساتھ ہونا فرض ہے کسی صحابی کے ساتھ سوءِ عقیدت (برا عقیدہ) بد مذہبی و گمراہی و استحقاقِ جہنم ہے کہ وہ (بد اعتقادی) حضور اقدس ﷺ کے ساتھ بغض (دشمنی) ہے، کوئی ولی کتنے ہی بڑے مرتبے کا ہو کسی صحابی کے رتبے کو نہیں پہنچتا۔

کیوں نہ ہو رتبہ بڑا اصحاب و اہل بیت کا ہے خدائے مصطفیٰ اصحاب و اہل بیت کا

آل و اصحابِ نبی سب بادشہ ہیں بادشاہ میں فقط ادنیٰ گدا اصحاب و اہل بیت کا

اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری مغفرت ہو اور ہمیں صحابہ کرام سے محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین