صحابہ کرام کی قدر و منزلت وہی شخص جان سکتا ہے جو نبی کریم ﷺ کی عظمت و رفعت سے واقف ہوگا کیونکہ ان کی تعظیم گویا کہ نبی کریم ﷺ ہی کی تعظیم ہے جیسا کہ حضرت امام قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: یعنی نبی پاک ﷺ کی تعظیم میں سے یہ بھی ہے کہ آپ کے صحابہ کرام کی تعظیم کرنا، ان سے اچھا سلوک کرنا، ان کے حق کو پہچاننا، ان کی پیروی کرنا، ان کی تعریف و توصیف کرنا اور ان کے لیے مغفرت کی دعا کرنا۔ (الشفاء، 2/52)

صحابی: حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جن خوش نصیبوں نے ایمان کی حالت میں حضور ﷺ کی صحبت کا شرف پایا اور ایمان کی حالت پر ان کا خاتمہ ہوا انہیں صحابی کہتے ہیں۔ (نزہۃ النظر، ص 111)

دو عالم نہ کیوں ہو نثارِ صحابہ کہ ہے عرش منزل وقار صحابہ

قارئین کرام! صحابہ کرام کے ہم پر کئی حقوق ہیں جن میں سے پانچ ذکر کئے جاتے ہیں:

1۔ محبتِ صحابہ: اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم ﷺ اور ان کے حقیقی اہل بیت کو تمام صحابہ کرام سے بے حد محبت ہے، دور حاضر کی بدبختی ہے کہ آج ایک گروہ صحابہ کے بارے میں برا بھلا کہنے میں حد سے بڑھ گیا ہے، حالانکہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا: میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ تم میں سے کوئی شخص احد پہاڑ کے برابر بھی سونا اللہ کی راہ میں دے تو بھی میرے صحابہ کی آدھی مٹھی کے برابر بھی نہیں ہو سکتا۔ (بخاری، 2/522، حدیث:3673)

2۔ امت کے بہترین افراد: پیارے آقا ﷺ نے بھی صحابہ کرام کی تعظیم کا حکم دیتے ہوئے انہیں امت کے بہترین افراد ہونے کی سند عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا: میرے صحابہ کی عزت کرو کہ وہ تمہارے بہترین لوگ ہیں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 2/413، حدیث: 6012) ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ میری امت میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں اور پھر وہ لوگ جو ان سے ملے ہوئے ہیں اور پھر ان کے بعد والے لوگ سب سے بہتر ہیں۔ (مصنف عبد الرزاق، 10/296، حدیث: 20876)

3۔ صحابہ کے باہمی اختلافات پر زبان بند رکھنا: اہل سنت کا اس بات پر عقیدہ ہے کہ ہر صحابی بہت بڑا پرہیزگار ہے اور ان کے آپسی معاملات پر کیا یا کیوں کرنے کو حرام جانتے ہیں، حافظ امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام کے باہمی اختلافات سے متعلق ہمارا طریقہ یہ ہے کہ اس بارے میں اپنی زبانیں بند رکھیں اور ان حضرات کے لیے دعائے مغفرت کریں کیونکہ ہم ان کے درمیان ہونے والے اختلافات کا ذکر نا پسندیدہ جانتے ہیں اور اس عمل سے اللہ پاک کی پناہ مانگتے ہیں اور ہم امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت کرتے ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء، 3/39)

4۔ دفاعِ صحابہ: اللہ پاک نے صحابہ کرام کو اپنے نبی ﷺ کی صحبت و رفاقت کے لیے منتخب فرمایا، انبیائے کرام کے بعد صحابہ کی مقدس جماعت تمام مخلوق سے افضل و اعلیٰ ہے یہ عظمت و فضیلت صرف صحابہ کو ہی حاصل ہے، اللہ نے انہیں دنیا میں ہی مغفرت، جنت اور اپنی رضا کی ضمانت دی ہے، صحابہ کرام سے محبت اور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ میں جو ان کی فضیلت بیان کی ہے ان کو تسلیم کرنا ایمان کا حصہ ہے، حضرت علامہ مسعود بن عمر سعد الدین تفتازانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: صحابہ کرام کا ذکر صرف خیر ہی کے ساتھ کیا جائے کیونکہ ان کے فضائل میں احادیث صحیحہ وارد ہیں نیز ان پر نکتہ چینی سے رکنا واجب ہے۔ (شرح عقائد نسفیہ، ص 341)

5۔ مدحِ صحابہ: ہم اہل سنت کا عقیدہ ہے کہ دنیا کا بڑے سے بڑا ولی، قطب، ابدال، غوثیت کبریٰ پر متمکن اغواث بھی ایک ادنیٰ صحابی کے فضل و کمال تک نہیں پہنچ سکتا، حقیقت تو یہ ہے کہ صحابہ کرام سے محبت کے بغیر رسول اللہ ﷺ سے سچی محبت نہیں ہو سکتی صحابہ کی پیروی کے بغیر حضور کی پیروی کا تصور محال ہے کیونکہ صحابہ نے جس انداز سے اپنی زندگی بسر کی ہے وہ عین اسلام اور اتباع سنت ہے، ان کی وفاداری و جاں نثاری کی سند خود رب کائنات نے اپنے کلام مقدس میں دی ہے، جن کی طبیعت میں ہی گناہوں سے نفرت کی بنیاد رکھ دی گئی ہو بھلا کیوں کر وہ کسی پر ظلم کر سکتا ہے گویا ہر صحابی کی زبان پر بس یہی رہتا تھا:

میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی

اے کاش ہمیں بھی وہ جذبہ مل جائے جو صحابہ کرام کے دلوں میں موجزن تھا وہ عشق رسول وہ حوصلہ وہ جذبہ وہ جرات مل جاتی دن رات خدمت اسلام میں مصروف رہتے مگر افسوس ہمیں دنیا کے دھندوں سے فرصت نہیں آئیے صحابہ کے نقش قدم پر چلتی ہوئی آج ہی سے ہم دعوت اسلامی کے ہفتہ وار اجتماع میں پابندی سے شرکت کی نیت کر لیتی ہیں اللہ پاک صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین