قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ
اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ
اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ
تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ
سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا
یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴)
(پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے
اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور
وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس
کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو)
یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔
امام ابو عبداللہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃ اللہ
علیہ فرماتے ہیں: یہ آیت مبارکہ اللہ و رسول کی محبت کے واجب ہونے پر دلالت کرتی
ہے اور اس بارے میں امت کا کوئی اختلاف بھی نہیں ہے بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ ان کی
محبّت ہر محبوب کی محبت پر مقدم ہو۔
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہے اصل اصول بندگی اس تاجور کی ہے
حضور ﷺ کا فرمان عالیشان ہے کہ کوئی مومن ایسا نہیں
جس کے لئے میں دنیا و آخرت میں سارے انسانوں سے زیادہ اولی و اقرب نہ ہوں۔ (بخاری،
2/108، حدیث:2399)
نگاہ عشق و مستی میں وہی اول وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یسین وہی
طہ
عشق و محبت رسول ﷺ عاشقان رسول کے دلوں کی غذااور
ارواح کا رزق ہے، عشق و محبت رسول سے محروم شخص مردوں میں شمار ہوتا ہے، عشق و
محبت رسول کی لذت سے جو آشنا نہیں ان کی زندگی غموں اور تکالیف کا شکار رہتی ہے،
حقیقی عشق صرف اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے ہے، چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ اس
کے متلعق مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں کہ محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو
کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اگریہ میلان شدت اختیار کر
جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔
واقعہ غزوہ
خیبر میں رسول اکرم ﷺ نے قبیلہ بنی غفار کی ایک صحابیہ کو اپنے دست مبارک سے ایک
ہار پہنایا تھا وہ اس کی اتنی قدر کرتی تھیں کہ عمر بھر گلے سے جدا نہ کیا اور جب
انتقال فرمانے لگیں تو وصیت کی کہ ہار بھی انکے ساتھ دفن کیا جائے۔ (مسند امام
احمد، 10/324، حدیث: 27206)