قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر
اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الہی میں جینا اور محبت الہی میں مرنا ان کی
مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔ اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کوترجیح دینا نرم
وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ نیاز میں سر بسجو دہونا، یاد الہی میں رونا، رضائے
الہی کے حصول کیلئے تڑپنا سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں
میں روزے، اللہ تعالی کیلئے محبت کرنا، اس کی خاطر دشمنی رکھنا، اس کی خاطر کسی کو
کچھ دینا اور اس کی خاطر کسی سے روک لینا نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں
خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا، احکام الہی پر عمل
کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں
سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز
مندر ہنا اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے رسول ومحبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا،
اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب
رکھنا، ان سے محبت رکھنا محبت الہی صحبت اختیار کرنا، الله تعا کرنا اللہ تعالیٰ
کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا، یہ تمام امور اور ان کے علاوہ میں اضافے
ضافے کیلئے ان کی سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے
تقاضے بھی ہیں۔
محبت اور عشق میں فرق: محبت
و عشق دل اگر کسی کی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر
شدت اختیار کرلے تو عشق کہلاتی ہے۔ عشق دو
طرح کا ہوتا ہے: مجازی اور حقیقی۔ عشق
مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن کرتا ہے، عشق
مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی
قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا، کبھی
حکم الہی پر قربانی کے لئے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتاہے جبکہ
عقل تکتی رہ جاتی ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
سرکار کے پسینے سے صحابیات کی محبت:خادم
رسول حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور خاتم المرسلین ﷺ ہمارے یہاں
تشریف لائے اور قیلولہ فرمایا، حالت خواب میں حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے ایک شیشی لی اور رسول کریم ﷺ کا پسینہ مبارک
اس میں ڈالنا شروع کر دیا۔ جب آپ بیدار
ہوئے تو دریافت فرمایا: اے ام سلیم ! یہ کیا کر رہی ہو ؟ انہوں نے عرض کی: یہ آپ
کا پسینہ ہے ہم اس کو اپنی خوشبو میں ڈالتی ہیں اور یہ سب خوشبوؤں سے عمدہ خوشبو
ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ حضرت ام سلیم نے عرض کی: یارسول اللہ! ہم اپنے بچوں کے
لیے آپ ﷺ کے پسینہ مبارک سے برکت کی امید رکھتے ہیں۔ تو آپ نے ارشادفرمایا: تم
ٹھیک کرتی ہو۔ (مسلم، ص 913، حدیث: 2341)
عشق حقیقی سے مراد: عشق
حقیقی سے مراداللہ و رسول کی محبت کامل ہے، یہ دولت بے بہا جس کے خزانہ دل میں جمع
ہوجاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کردیتی ہے، وہ ہمہ وقت محبوب کے تصوروجلوؤں میں
گم رہتا ہے اور محبت ومعرفت کی لذت میں کھو کردنیا سے کنارہ کش ہوجاتا ہے،پھر وہ محبوب
کی سنتا، محبوب کی مانتا اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان
تک قربان کردیتا ہے۔
عشق الٰہی کے بعد سب سے بڑی نعمت عشق رسول ہے اور
حقیقت یہ ہے کہ عشق رسول کے بغیر بندۂ مومن کا گزارا ہوہی نہیں سکتا۔مومن تبھی
کامل مومن ہوتا ہے جب وہ ساری کائنات سے بڑھ کر سرور کائنات ﷺ سے محبت کرے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل
مومن نہ ہو گا جب تک کے میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ
محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)
کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم
تیرے ہیں
عشق رسول کے نتیجے میں کوئی صدیق اکبر،کوئی فاروق اعظم،کوئی
غنی وباحیا اورکوئی شیرخدا ومشکل کشا بن گئے، الغرض اس نعمت عظمٰی کی بدولت ہرصحابی
آسمان ہدایت کا درخشندہ ستارہ بن گیا۔ عشق رسول انسانوں تک محدود نہیں عشق رسول سے
نہ صرف انسان مزین وآراستہ ہوئے بلکہ دیگر مخلوقات بھی روشن ومنور ہوئیں،کتب
احادیث و سیرت کے مطالعہ سے یہ بات عیاں ہے کہ جن وانس ہوں یاحوروملک،شجر و حجرہوں
یاچرندوپرند،چوپائے ہوں یا حشرات الارض الغرض مخلوق میں عاشقان رسول کی طویل
فہرستیں ہیں،محبت رسول کے ایمان افروز واقعات ہیں،الفت رسول کی لازوال داستانیں
ہیں اورچاہت رسول کی خوبصورت یادیں ہیں۔
عاشق رسول کی چند نشانیاں: عاشق رسول کی
کچھ علامات ونشانیاں ہوتی ہیں،ہمیں اپنے اندر ان نشانیوں کو تلاش کرنا چاہیے،وہ یہ
ہیں: (1)عاشق رسول اپنے محبوب اعظم ﷺ کی بے انتہا تعظیم وتکریم کرتا ہے(2)وہ رسول
اکرم ﷺ کا ذکر کثرت سے کرتا ہے(3)وہ ان پر بکثرت درود وسلام پڑھتا ہے (4)وہ اپنے
رسول کریم ﷺ کی شان وعظمت سن کر خوش ہوتا ہے اور چاہتا ہے کہ مزید شان سامنے آجائے
(5)وہ اپنے مقدس ومطہر نبی ﷺ کا عیب سننا ہرگز گوارا نہیں کرتا ہے کیونکہ جب عیب
زدہ محبوب کا عیب لوگ نہیں سنتے تو پھر جو ہستی ہر طرح کے ظاہری وباطنی عیب سے
منزّہ وپاک ہو تو اس کا عیب کیسے سنا جاسکتا ہے(6)وہ اپنے محبوب کریم ﷺ سے ملاقات
کا شوق رکھتا ہے(7)عاشق رسول اپنے محبوب رسول کریم ﷺ کی اطاعت واتّباع کرتا ہے۔
حرف آخر یہ ہے کہ جس مسلمان کے دل میں عشق رسول کی شمع روشن ہوجاتی ہے،وہ محبت
رسول کے جام پی لیتا ہے شب وروز اسی محبت میں گزارتا ہے اورعشق رسول کی لازوال لذت
سے آشنا ہوجاتا ہے تو پھر وہ بقول اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان وہ اپنی زبان سے
یہی کہتا نظر آئے گا:
جان ہے عشق مصطفے روز فزوں کرے خدا جس کو ہو درد کا مزہ وہ ناز
دوا اٹھائے کیوں
اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں صحیح معنوں میں پیارے
پیارے آقا ﷺ کا عشق حقیقی عطا فرمائے۔ آمین