محبت آخر کیا چیز ہے کہ بندہ اپنے محبوب پر سب کچھ وار دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ لہذا یہ جاننا ضروری ہے کہ محبت کسے کہتے ہیں؟ چنانچہ امام غزالی فرماتے ہیں کہ محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبعیت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے، اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 42)

ایک شیخ سے عاشق کے متعلق پوچھا گیا: انہوں نے کہا: عاشق میل ملاپ سے دور، تنہائی پسند، غور وفکر میں ڈوبا ہوا اور چپ چاپ رہتا ہے جب اسے دیکھا جائے وہ نظر نہیں آتا، جب بلایا جائے تو سنتا نہیں، جب بات کی جائے تو سمجھتا نہیں اور وہ تنہائی میں اللہ تعالیٰ سے التجائیں کرتا ہے، اس کی رحمت سے انس و محبت رکھتا ہے، وہ دنیا کے لیے دنیا والوں سے نہیں جھگڑتا۔

زہر الریاض میں ہے کہ موسیٰ علیہ السلام کا ایک عزیز دوست تھا، ایک دن آپ سے کہنے لگا: اے موسیٰ! میرے لیے دعا کر دیجیے کہ اللہ پاک مجھے اپنی معرفت عطا فرمائے آپ نے دعا کی، الله پاک نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وہ دوست آبادی سے کنارہ کش ہو کر پہاڑوں میں وحوش کے ساتھ رہنے لگا۔ جب موسیٰ علیہ السلام نے اسے نہ پایا تو رب العزت سے التجا کی: الٰہی! میرا دوست کہاں گیا؟ رب تعالیٰ نے فرمایا: اے موسیٰ! جو مجھے صحیح معنوں میں پہچان لیتا ہے وہ مخلوق کی دوستی کبھی پسند نہیں کرتا (اس لیے اس نے تمہاری اور مخلوق کی دوستی کو ترک کر دیا ہے)۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 87)

کہا گیا ہے: سچی معرفت یہ ہے کہ انسان دنیا و آخرت کو چھوڑ کر الله پاک کا ہی ہو جائے اور شراب محبت کا ایسا جام پیے کہ الله پاک کا دیدار کیے بغیر ہوش میں نہ آئے، ایسا شخص ہی ہدایت یاب ہے۔

الله و رسول کی محبت ہر مسلمان پر واجب ہے اور اس بارے میں کسی کا اختلاف نہیں بلکہ یہ بات ضروری ہے کہ ان کی محبت ہر محبوب (کی محبت) پر مقدم ہو۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اسی تاجور کی ہے

مسلمان کے کامل مومن ہونے کے لیے عشق رسول کی اشد ضرورت ہے کہ اس کے بغیر وہ کامل مومن نہیں بن سکتا۔ چنانچہ حضرت انس رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ الله پاک کے محبوب ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک (کامل) مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے ماں باپ، اس کی اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)

خاک ہو کر عشق میں آرام سے سونا ملا جان کی اکسیر ہے الفت رسول الله کی

ایک روایت میں ہے: سرکار ﷺ نے تین باتوں کو حلاوت ایمانی کے حصول کی علامت قرار دیا، جن میں ایک یہ ہے کہ بندے کی نظر میں الله پاک اور اس کے رسول کی ذات کائنات کی ہر چیز سے زیادہ محبوب و پسندیدہ ہو جائے۔ (بخاری، 1/17، حدیث:16)

یہ اک جان کیا ہے اگر ہوں کروڑوں تیرے نام پر سب کو وارا کروں میں

الله پاک کے نیک بندے ہمیشہ راه خدا و مصطفیٰ ﷺ میں اپنے تن من دھن کو قربان کرنے کے لیے تیار رہتے اور اس سلسلے میں کبھی کسی کی پروا نہ کرتے تھے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ:

نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں، وہی فرقاں، وہی یٰسین، وہی طٰہ

الله پاک ہمیں دنیا کی محبت سے بے رغبتی عطا فرما کر فقط اپنی اور اپنے محبوب کی محبت عطا فرمائے۔ عشق حقیقی سے ہمارے دلوں کو منور فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

محبت میں اپنی گما یا الٰہی نہ پاؤں میں اپنا پتہ یا الٰہی

رہوں مست و بے خود میں تیری ولا میں پلا جام ایسا پلا یا الٰہی