امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ عشق و محبت کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت کہتے ہیں طبیعت کا کسی پسندیدہ چیز کی طرف مائل ہونا،جب یہ میلان پختہ ہو جاے تو محبت عشق کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ عربی میں خلت (خلیل) عشق کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔عشق محبت سے اوپر والا درجہ ہے۔ تصوف یہی تو ہے کہ رب کریم سے محبت ہو اور اسی کی طرف رغبت، اسی کی بارگاہ کا شوق، اسی کی عظمت کا استحضار، اسی کی شان سے قلب میں ہیبت، اسی کے فیصلے پر راضی، اسی کی ذات پر بھروسہ، اسی کی طرف رجوع، اسی کی بارگاہ میں فریاد، اسی کے کرم پر نظر، اسی کے فضل کی طلب، اسی کی رحمت کی امید، اسی کے دیدار کا اشتیاق، اسی کی خوشنودی کی کوشش، اسی کی ناراضی کا ڈر، اسی کی یاد میں فنا اور اسی کے ذکر سے بقاہو۔

حضرت ابو الحسن قناد سے جب صوفی کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتا ہے۔

شیخ ابو نصر سراج طوسی علیہ رحمۃاللہ القوی مزید ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ صوفی وہ لوگ ہیں جو اللہ کو خوب پہچانتے ہیں، اس کے احکام کا علم رکھتے ہیں، جو کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں، اللہ ان سے جو کام لینا چاہتا ہے یہ اس کو پورا کرنے کے لیے ثابت قدمی دکھاتے ہیں، پختہ عمل کی بدولت وہ اللہ سے کچھ پا لیتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے اس کی وجہ سے فنا ہو جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ہر پا لینے والا آخرکار فنا ہو جایا کرتا ہے۔

قرآن مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الٰہی میں جینا اورمحبت الٰہی میں مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ نیاز میں سر بسجود ہونا، یاد الٰہی میں رونا، رضائے الٰہی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے، اللہ تعالیٰ کیلئے محبت کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور اسی کی خاطر کسی سے روک لینا، نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا، احکام الٰہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے رسول و محبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت الٰہی میں اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔

محبت الٰہی پیدا کرنےکے طریقےاور اسباب:

(1)وجود عطا فرمانے والی ہستی سے محبت:انسان دیکھے کہ اس کا کمال وبقاء محض اللہ کی طرف سے ہے۔ وہی ذات اس کو عدم سے وجود میں لانے والی،اس کو باقی رکھنے والی اور اس کے وجود میں صفات کمال، ان کے اسباب اور ان کے استعمال کی ہدایت پیدا کرکے اسے کامل کرنے والی ہےتو ایسی ذات سے ضرور محبت رکھنی چاہئے۔

(2)اپنے محسن سے محبت:جس طرح اللہ کو پہچاننے کا حق ہے اگر بندہ اس طرح اسے پہچانے تو ضرور جان جائے گا کہ اس پر احسان کرنے والا صرف اللہ ہی ہےاور محسن سے محبت فطری ہوتی ہےلہٰذا اللہ سے محبت رکھنی چاہئے۔

(3)جمال والے سے محبت: اللہ جمیل ہے جیساکہ حدیث پاک میں ہے: اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ (مسلم، ص 61، حدیث: 265) اورجمال والے سے محبت فطری اور جبلی ہے لہٰذا اللہ سے محبت کا یہ بھی ایک سبب ہے۔

(4)عیوب سے پاک ذات سے محبت: اللہ تمام عیوب ونقائص سے منزہ ہےاور ایسی ذات سے محبت کرنا اسباب محبت میں سے ایک قوی سبب ہے۔

(5)محبت الٰہی کے متعلق بزرگان دین کے اقوال واحوال کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے امام ابو القاسم قشیری علیہ رحمۃ اللہ القوی کی کتاب رسالہ قشیریہ اور امام غزالی کی کتاب احیاء العلومجلدپنجم کا مطالعہ بہت مفید ہے۔

(6) اللہ کی نعمتوں میں غور کیجئے: انسان دیکھے کہ اللہ جو منعم حقیقی ہے تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور وہ ہر مخلوق کو اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔یہ احساس انسان کے اندر منعم حقیقی کی محبت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

(7)اللہ کے عدل اور فضل ورحمت میں غور کیجئے: انسان غور کرے کہ تو اسے عدل وانصاف میں سب سے بڑھ کر ذات اللہ ہی کی دکھائی دے گی اور وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کافروں اور گناہ گاروں پر بھی اس کی رحمت جاری ہے باجود یہ کہ وہ اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ غوروفکر انسان کو اللہ سے محبت پر ابھارے گا۔

(8)محبت کی علامتوں میں غور کیجئے: علمائے کرام فرماتے ہیں: بندے کی اللہ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اللہ جس سے محبت کرتا ہے بندہ اسے اپنی محبوب ترین چیزپرترجیح دیتا ہے اوربکثرت اس کا ذکر کرتا ہے، اس میں کوتا ہی نہیں کرتا اور کسی دو سرے کام میں مشغول ہونے کے بجائے بندے کو تنہائی اور اللہ سے مناجات کرنا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔

(9) اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اور ان سے محبت:نیک بندوں کی صحبت اور ان سے محبت بھی اللہ سے محبت کرنے کا ایک ذریعہ ہےکہ نیک بندے اللہ کی محبت کا درس دیتے ہیں اور ان کی صحبت سے دلوں میں اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص248)

ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاؕ(۸) (پ 29، المزمل: 8) ترجمہ کنز العرفان: اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی کے بنے رہو۔ صراط الجنان میں ہے: اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! آپ رات اور دن کے تمام اوقات میں اپنے رب کا نام یاد کرتے رہیں چاہے وہ تسبیح اور کلمہ طیبہ پڑھنے سے ہو، نماز ادا کرنے، قرآن پاک کی تلاوت کرنے اور علم کادرس دینے کے ساتھ ہو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! اپنی قرا ء ت کی ابتداء میں بسم الله الرحمٰن الرحیم پڑھیں۔ (روح البیان، 10/ 210)

یاد رہے کہ نماز کے علاوہ اگر قرآن پاک کی تلاوت سورت کی ابتدا سے کی جائے تو بسم الله پڑھنا سنت ہے اور اگر سورت کے درمیان سے تلاوت شروع کی جائے تو بسم الله پڑھنا مستحب ہے اور نماز میں سورہ ٔ فاتحہ کے بعد سورت کی تلاوت سے پہلے بسم الله پڑھنا سنت نہیں۔

اللہ پاک ہمارے دل سے دنیا کی محبت کو نکال کر ہمیں بھی عشق حقیقی کی لذت سے آشنا فرمائے۔


اللہ پاک کی محبت انتہائی بلند مقصد اور بلند درجہ ہے جو کامل ایمان والوں کو ہی نصیب ہوتی ہے، جب محبت ثابت ہو جاتی ہے تو محبوب کی طرف شوق صحیح ہو جاتا ہے، اللہ پاک نے قرآن پاک میں ایمان والوں کے متعلق فرمایا: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔

اللہ پاک کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں محبت اس کیفیت اور جذبے کا نام ہے جو کسی پسندیدہ شے کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص42)

اور لسان العرب میں ہے کہ محبت میں تجاوز کرنا عشق ہے۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/ 115ملتقطاً)

عشق کی ایک قسم عشق حقیقی ہے، عشق حقیقی سے مراد اس ذات پاک سے عشق و محبت کا احساس ہے جو واحد ہے، اسی نے قائم و دائم رہنا ہے اور اسی ذات سے عشق کیا جا سکتا ہے باقی محبتیں تو فانی ہیں۔ عشق حقیقی سے مراد اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات عالی ہے اور یاد رکھئے کہ آخرت میں سب سے زیادہ سعادت مند شخص وہ ہوگا جسے اللہ پاک سے شدید محبت یعنی عشق ہوگی کیونکہ آخرت میں اللہ کی بارگاہ میں حاضری اور اسکی ملاقات کی سعادت حاصل کرنا ہے اور محبّ کے لئے محبوب کے پاس آنے سے بڑھ کر کیا نعمت ہو سکتی ہے جبکہ وہ اس بات کا عرصۂ دراز سے شوق بھی رکھتا ہو۔

عشق حقیقی تک پہنچنے کے لئے سب سے آسان اور سیدھا راستہ عشق مصطفیٰ ﷺ اور اطاعت مصطفیٰ ﷺ ہے کیونکہ اللہ پاک تک رسائی حاصل کرنے کا سفر بہت طویل اور کٹھن ہے جو پیارے آقا ﷺ کے بغیر ممکن نہیں۔ چونکہ آپﷺ تو اللہ پاک کے محبوب ہیں تو محبوب کے محبوب کو جب اپنا محبوب بنا لیا جائے تو بندہ حقیقی عشق کی منزل بآسانی پالیتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ اس (بندے) کے نزدیک اسکے اہل و مال اور سب لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جائے۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 168)

گویا کہ عشق حقیقی پاکیزہ روح کے لئے غذا ہے جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا، بندہ اللہ پاک تک درجہ بدرجہ منزلیں طے کر کے پہنچتا ہے جس میں سب سے پہلی منزل اپنے پیر و مرشد کی اطاعت بجا لا کر فنا فی الشیخ کا درجہ پا لینا ہے جب یہ پالے تو پھر وہ فنا فی الرسول ﷺ کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے جب وہ فنا فی الرسول ﷺ کا درجہ پا لیتا ہے تو وہ فنا فی اللہ کی منزل پر پہنچنے کی طرف چلا جاتاہے جو کہ اسکی حقیقی منزل ہے۔

حدیث قدسی میں ہے: بندہ نفلی عبادت کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ (بخاری، 4/248، حدیث:6502)

محبت الٰہی میں اضافے کے دو اسباب ہیں: اللہ پاک کے علاوہ ہر خیال کو دل سے نکال دینا اور اللہ پاک کی معرفت کا کامل ہونا۔ پہلے سبب کی مثال دل کی زمین کو کانٹوں اور گھاس پھوس سے صاف کرنا ہے اور دوسرے سبب کی مثال دل کی زمین میں بیج ڈالنا تاکہ وہ اگے اور اس سے معرفت کا درخت پیدا ہو اور وہ کلمہ طیبہ ہے۔

ایسا گما دے اپنی ولا میں خدا ہمیں ڈھونڈا کریں پر اپنی خبر کو خبر نہ ہو

آخر میں دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں حقیقی معنوں میں اپنا حقیقی عشق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین


امام غزالی مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں محبت اس کیفیت کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اگریہ میلان شدت اختیار کرے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص42)

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول کی محبت کا دعوی کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم کسی غیر کی محبت کو ان کی محبت پر ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول کی محبت کا دعوی بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب الٰہی سے نہ بچ سکو گے نیز آیت کے آخری حصے سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس دل میں اللہ ورسول کی محبت نہیں یقینا اسکے ایمان میں خلل ہے۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض وفروغ اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہ ہو گا جب تک کے میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)

عشق رسول کے تقاضے: احکام باری تعالیٰ کو غور سے سنیے اور ان پر عمل کیجئے حضور کے والدین رشتہ داروں کے ادب و احترام کے آداب کا التزام رکھا جائے سوائے ان رشتہ داروں کے جن کا کافر اور جہنمی ہونا قرآن و حدیث سے یقینی طور پر ثابت ہے جیسے ابولہب۔

اللہ پاک ہمیں عشق حقیقی عطا فرمائے۔ آمین

عشق حقیقی کے معنی: اللہ تعالیٰ سے کی جانے والی محبت۔

عشق مجازی کے معنی: محبوب سے کی جانے والی محبت۔

انسان اپنے لئے منزلیں اور راستے خود چنتا ہے اس کے خود چننے پر صرف اسکا خود کا اختیار ہے اگر وہ چاہے تو اپنے لیے اچھا راستہ بھی اختیار کرسکتا ہے اور برا بھی اسی طرح وہ چاہے تو عشق حقیقی کی منزل کو بھی چن سکتا ہے اور عشق مجازی کی منزل کو بھی۔

آخرت میں کام آنے والا عشق عشق حقیقی ہی ہے، عشق حقیقی صحیح معنوں میں ہے کیا؟ اللہ تعالیٰ پر ایمان کا مطلب اس سے شدید محبت ہے اللہ کا عشق اور ایمان لازم و ملزوم ہے عشق حقیقی اللہ سے محبت کا نام ہے، انسان جب اپنی ذات سے بڑھ کر کسی سے محبت کرنے لگتا ہے تو اسے عشق کا نام دیا جاتا ہے اور انسان عشق صرف خدا ہی سے کرتا ہے اور خدا سے کیا ہوا عشق انتہائی بے لوث ہوتا۔ انتہائی شدت سے بھرپور عشق جو انسان صرف اپنے اللہ سے کرتا ہے حقیقت میں وہی عشق حقیقی کہلاتا ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان سچے دل سے عشق صرف اپنے اللہ سے ہی کرتا ہے، بے شک اللہ تعالی کی تو ذات ہی اتنی بے نیاز ہے محبت بھری ہے کل کائنات کے خالق و مالک ہے بے شک ! ایک بشر کی ذات کے لیے اس سے بڑھ کر تو کچھ بھی نہیں۔

یہ ایک واضح سی حسین حقیقت ہے کہ انسان جب اپنے اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے تو فقط کامیابی ہی حاصل کرتا ہے جب اللہ سے دل لگاتا ہے تو کامیابی کو ہی خود کی منزل پاتا ہے وہ جب اپنے ہر کام کو اللہ تعالیٰ کی مرضی سے کرتا ہے تو اسکے سارے کام اچھے ہونے لگتے ہیں اور کامیابی ہی اسکا مقدر بن جاتی ہے سو عشق حقیقی کی واضح منزل کامیابی ہی کامیابی ہے۔

بے شک! اللہ تعالیٰ تو ستر ماؤں سے بڑھ کر اپنے بندوں سے محبت کرتا ہے، عشق حقیقی دراصل حقیقت سے محبت ہے اور حقیقت ابدی شے ہوتی ہے جو ہمیشہ زندہ یا موجود رہتی ہے۔ حب الٰہی اور حب رسول حقیقی ہیں جن کی نوعیت ابدی ہے جبکہ دنیا کی ہر شے مثلاً حسن، دولت، اقتدار وغیرہ وغیرہ محض فریب نظر ہیں اور سب فانی ہیں یعنی فنا ہونے والی ہیں اس لئے عشق مجازی غیر حقیقی شے ہے جس کی کوئی اصلیت نہیں۔

عشق حقیقی انوار الٰہی میں سے ایک نور ہے، ایک ایسا عظیم نور کہ اس سے بڑھ کر کوئی نور نہیں، کیونکہ جسم سے روح کا مرتبہ اونچا ہے، روح سے عقل کا درجہ بلند تر ہے اور عقل سے عشق ارفع و اعلیٰ ہے۔

اللہ پاک دل سے دنیاکی محبت نکال کر اپنا عشق عطا فرمائے۔

محبت میں اپنی گما یاالہی نہ پاؤں میں اپنا پتہ یاالہی

رہوں مست وبےخد میں ولا میں پلا جام ایسا پلا یاالہی


محبت و عشق کیا ہے؟ دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے، مجازی(یعنی انسانوں کا انسانوں سے عشق) اور حقیقی (یعنی محبت خداومصطفٰی) عشق مجازی اکثرراہ دوزخ پر لے جاتاجبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنّت پر گامزن کرتا ہے، عشق مجازی تباہ وبرباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد وآباد کرتا ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا،کبھی حکم الٰہی پرقربانی کے لئےسر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔

بے خطرکود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی

اصل محبت صرف اللہ پاک کی ہے اس کے سوا جس سے بھی محبت کی جائے صرف اللہ پاک کی رضا کے لیے کی جائے امام غزالی نے احیاء العلوم میں تحقیق کی ہے کہ محبت کا مستحق صرف اور صرف اللہ پاک ہے یعنی نادان جو کہتے ہیں کہ عشق مجازی یعنی گناہوں بھرا دنیاوی عشق عشق حقیقی تک پہنچنے کا ذریعہ ہے یہ سخت خطا پر ہیں، والد اعلی حضرت مولانا نقی علی خان فرماتے ہیں:شریعت میں غیر اللہ کے سامنے سر جھکانا منع ہے تو غیر اللہ کے لیے دل جھکانا کیسے درست ہو سکتا ہے۔ ہاں محبت مصطفی غیر اللہ کی محبت نہیں بلکہ محبت الہی ہے کیونکہ جسے محبت مصطفی نصیب نہ ہو وہ ہرگز ہرگز محبت الہی حاصل نہیں کر سکتا، قرآن کریم میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ 3، اٰل عمران: 31) ترجمہ: اے حبیب فرما دو کہ اے لوگو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔

حدیث پاک میں ہیں: اللہ پاک سے محبت کرو کہ وہ تمہیں نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ مفسر قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے ہیں: اللہ پاک کی محبت کے لیے اس کے رسول سے محبت ضروری ہے اور رسول اللہ سے محبت کے لیے حضور ﷺ کے تمام صحابہ سے اور حضور کے اہل بیت اولاد پاک ازواج مطہرات سے محبت لازم و ضروری ہے یہ تمام محبتیں ایمان میں داخل بلکہ عین ایمان یعنی ایمان کی بنیاد ہے۔ (عثمان غنی اور محبت الہی، ص 6)

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

عشق رسول تو ایمان کی جان اور روح ایمان ہے میرے امام نے اس عشق کا جا بجا اظہار فرمایا:

پارہ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں رضا ان سگان کو سے اتنی جان پیاری واہ واہ

شرح کلام رضا: یعنی اے رضا مدینے کے کتوں کو نذر کرنے کے لیے تجھ سے سینہ چیر کر دل کا گوشت کیوں نہ پیش ہوا تمہیں کوچہ حبیب اور مدینہ منورہ کے کتوں سے اپنی جان اتنی پیاری ہے۔

مکاشفۃ القلوب میں ہے: محبت کا صدق تین چیزوں سے ظاہر ہوتا ہے: 1۔ محب، محبوب کی باتوں کو سب سے اچھا سمجھتا ہے 2۔ اس کے لیے محبوب کی مجلس سب سے بہتر مجلس ہوتی ہے 3۔ اس کے نزدیک محبوب کی رضا سب سے عزیز ہوتی ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 33) حضرت سہل تستری فرماتے ہیں: اللہ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ وہ شخص قرآن پاک سے محبت کرے محبت الہی اور محبت رسول کی نشانی قرآن کریم سے محبت اور حضور اکرم ﷺ کی سنت سے لگاؤ رکھنا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 37)

قرب الہی کا ذریعہ: حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبیوں کے تاجدار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے: جس نے کسی ولی کو اذیت دی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور بندہ میرا قرب سب سے زیادہ فرائض کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور نوافل کے ذریعے مسلسل قرب حاصل کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ (بخاری، 4/248، حدیث:6502)

اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا محبت الہی کی علامت بھی ہے اور محبت الہی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی فرمان خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِیْرًاۙ(۴۱) وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۴۲) (پ 22، الاحزاب: 41،42) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بولو۔

فرمان آخری نبی ﷺ ہیں: جوشخص جس سے محبت کرتا ہے اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے۔ (کنز العمال، 1/217، حدیث: 1825)

اپنا دل دنیا کی محبت سے خالی کر کے کلی طور پر اللہ کے حضور جھکائے رکھنا، منقول ہے: اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی: کہ اے عیسی! میں دیکھتا ہوں کہ جب کسی بندے کا دل دنیا و آخرت کی محبت سے پاک و صاف ہو جائے تو اسے اپنی محبت سے بھر دیتا ہوں ایسے تمام کاموں سے دور رہنا جو اللہ کا قرب حاصل ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ حضرت ذالنون مصری فرماتے ہیں: اللہ سے محبت کرنے والوں کی علامت یہ بھی ہے کہ ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ کی یاد سے غافل کر دے اور اپنے آپ کو اللہ کی رضا والے کاموں میں مصروف رکھے۔ (الزہد الکبیر، ص 78)

مروی ہے کہ حضرت عیسی کا تین آدمیوں پر گزر ہوا جن کے بدن کمزور اور رنگ بدلا ہوا تھا آپ علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے اس حال کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی: دوزخ کی آگ کا خوف۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ پر حق ہے کہ خائفین کو جہنم سے امان نصیب کرے پھر آپ علیہ السلام کا گزر ان کے علاوہ دیگر تین اشخاص پر ہوا جو ان سے بھی زیادہ کمزور تھے اور رنگ ان سے بھی زیادہ بدلا ہوا تھا استفسار فرمایا: تمہاری اس حالت کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا جنت کا شوق ارشاد فرمایا اللہ پر حق ہے کہ تمہیں وہ عطا فرمائے جس کے تم امیدوار ہو پھر آپ تین اور آدمیوں کے پاس سے گزرے جو سابقہ دونوں گروہوں سے زیادہ کمزور اور متغیر رنگ والے تھے اور ان کے چہروں پر گویا نور کے آئینے تھے جب حضرت عیسی علیہ السلام نے ان سے فرمایا تمہاری اس حالت کا سبب کیا ہے ؟انہوں نے جواب دیا ہم اللہ سے محبت کرتے ہیں آپ نے تین بار کہا: تم ہی لوگ مقرب ہو یعنی اللہ کا زیادہ قرب تم لوگوں کو ہی حاصل ہے۔(اللہ سے محبت کرنے والوں کے واقعات ص 10)

قلب میں یاد تیری بسی ہو ذکر لب پر تیرا ہر گھڑی ہو

مستی و بے خودی اور فنا کی میرے مولا تو خیرات دے دے

پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 165 میں ارشاد ہوتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔تفسیر صراط الجنان میں ہے: اللہ تعالی کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں محبت الہی میں جینا اور محبت الہی میں مرنا ان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہوتا ہے دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا اللہ تعالی کے محبوبوں سے محبت اور اللہ کے دشمنوں سے نفرت کرنااللہ کے سب سے پیارے رسول کو دل و جان سے محبوب رکھنا اللہ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا ان سے محبت رکھنا محبت الہی میں اضافے کے لیے ان کی صحبت اختیار کرنا اللہ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الہی کی دلیل ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔ (الله پاک کی محبت حاصل کریں، ص3)

خلاصہ یہ کہ اللہ تک پہنچنا چاہتے ہیں کسی کامل پیر کی صحبت اختیار کریں جو آپ کے دل سے دنیا کی رنگینیوں کو نکالے احمد رضا کے دروازہ عشق تک لے جائے احمد رضا غوث اعظم کے قدموں تک پہنچا دیں غوث پاک علی المرتضی شیر خدا تک اور مولائے کائنات جان عالم کے دروازہ رحمت تک پہنچا دیں محبوب خدا کا قرب مل جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ کی معرفت حاصل نہ ہو سکے تو کیوں نہ ولی کامل شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے ہاتھ پر بک جائیں تا کہ معرفت الٰہی حاصل ہو جائے اللہ ہمیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین


عشق حقیقی انوار الٰہیہ میں سے ایک نور ہے۔ نور کسی چیز کے جلنے سے پیدا ہوتا ہے اسی طرح نور عشق عاشق کے جسم،روح اور عقل کے مسلسل جلنے سے پیدا ہوتا ہے۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الٰہی میں جینا اورمحبت الٰہی میں مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ نیاز میں سر بسجود ہونا، یاد الٰہی میں رونا، رضائے الٰہی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے، اللہ تعالیٰ کیلئے محبت کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور اسی کی خاطر کسی سے روک لینا، نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا، احکام الٰہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے رسول و محبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت الٰہی میں اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔

انسان کو بہت سے رشتوں اور اشیاء سے محبت ہوتی ہے مثلاً اللہ تبارک و تعالیٰ سے محبت، جان کائنات ﷺ سے محبت، ماں، باپ،بیوی،بچے،دوست جائیداد وغیرہ سے محبت۔جس محبت میں شدت اور جنون پیدا ہو جائے اور وہ باقی تمام محبتوں پر غالب آجائے اسے عشق کہتے ہیں۔

آقا کریم ﷺ نے فرمایا: بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے اہل، مال اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 168)

حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب نہ ہو جائیں۔ (مسند امام احمد، 4/ 412، حدیث:13150)

عاشق کی اصل منزل وصالِ حق ہے جو صرف عشق حقیقی سے حاصل ہوتی ہے۔ حضرت سخی سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: عشق ایک لطیفہ ہے جو غیب سے دل میں پیدا ہوتا ہے اور معشوق کے سوا کسی چیز سے قرار نہیں پکڑتا۔

عشق حقیقی کیا ہے؟ سادہ الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا ہے:1) ہر چیز کو محبوب کے لیے خاص کر دینے کا نام عشق ہے۔ 2) محبوب کے لیے ترک آرام کا نام عشق ہے۔3) محبوب پر جاں نثاری کا نام عشق ہے۔ 4) عشق خمار ہے اور اس خمار کا مداوا دیدار یار ہے۔ (شمس الفقراء، ص 322،323)

لہذا ہماری سوچوں کا محور عشق رسول ﷺ بلکہ ہر انسان کی زندگی کا ماحصل عشق الٰہی و عشق رسول ﷺ ہی ہونا چاہیے۔ ڈاکٹر اقبال نے عشق حقیقی کی یوں تصور کشی فرمائی ہے:

عشق دم جبرائیل، عشق دل مصطفیٰ عشق خدا کا رسول، عشق خدا کا کلام

عشق ہی سے حق کی پہچان ہوا کرتی ہے اور عشق کی بدولت ہی حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ نے دور رہ کر بھی حضور ﷺ کو پہچان لیا۔ عشق حقیقی تک پہنچنے کے لیے کامل مرشد وسیلہ ہوا کرتے ہیں۔

امیر اہلسنّت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں:

غم عشق نبی ایسا عطا فرما پئے مرشد

ہو نعت مصطفٰے سنتے ہی میری آنکھ نم مولیٰ

آخر میں رب کریم سے دعا ہے کہ ہمیں عشق حقیقی کی لذت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


اللہ پاک کے ساتھ محبت تو ہر مسلمان کو ہوتی ہے مگر جب یہ محبت حد سے تجاوز کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اللہ کے ساتھ اس کے بندے کو جو عشق ہوتا ہے وہ عشق حقیقی کہلاتا ہے۔ اگرکوئی شخص عشق مجازی میں گرفتار ہو جائے وہ اسی عشق میں مرا بشرطیکہ پاکدامن ہو اور اپنا عشق چھپایا ہو تو وہ شہید ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ وہ جس سے اس نے محبت کی تھی وہ مخلوق ہے تو اس کو شہید کا ثواب ملتا ہے تو اگر اس مخلوق کے خالق سے عشق کر لیا جائے تو اس کا درجہ کیا ہو گا؟ اللہ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔

اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الٰہی میں جینا اورمحبت الہی میں مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے رسول و محبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت الٰہی میں اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔

ایمان کیا ہے؟ حضرت ابو رزین عقیلی رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ایمان کیا ہے؟ ارشاد فرمایا: ایمان یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تمہارے نزدیک سب سے زیادہ محبوب ہو جائیں۔ (مسند امام احمد، 4/ 412، حدیث: 13150)

محبت باری تعالیٰ کے لیے دعا: حضور ﷺ اس طرح دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! مجھے اپنی محبت عطا فرما اور جو تجھ سے محبت کرتا ہے اس کی محبت اور جو تیری محبت کے قریب کر دے اس کی محبت عطا فرما اور اپنی محبت کو میرے نزدیک ٹھنڈے پانی سے بھی محبوب بنا۔ (ترمذی، 5/ 692، حدیث: 3501)

اللہ ہمیں بھی عشق حقیقی عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیینﷺ