اللہ پاک کے ساتھ محبت تو ہر مسلمان کو ہوتی ہے مگر
جب یہ محبت حد سے تجاوز کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اللہ کے ساتھ اس کے بندے کو
جو عشق ہوتا ہے وہ عشق حقیقی کہلاتا ہے۔ اگرکوئی شخص عشق مجازی میں گرفتار ہو جائے
وہ اسی عشق میں مرا بشرطیکہ پاکدامن ہو اور اپنا عشق چھپایا ہو تو وہ شہید ہے۔ لمحۂ
فکریہ ہے کہ وہ جس سے اس نے محبت کی تھی وہ مخلوق ہے تو اس کو شہید کا ثواب ملتا
ہے تو اگر اس مخلوق کے خالق سے عشق کر لیا جائے تو اس کا درجہ کیا ہو گا؟ اللہ
قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ
الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر
اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ محبت الٰہی میں جینا اورمحبت الہی میں مرنا ان کی
حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، دل کو غیر کی
محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے دشمنوں سے
نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالیٰ کے سب سے پیارے
رسول و محبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت، اللہ
تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت الٰہی میں
اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی
تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی
دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔
ایمان کیا ہے؟ حضرت ابو رزین
عقیلی رضی اللہ تعالی عنہ نے بارگاہ رسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ ﷺ ایمان کیا
ہے؟ ارشاد فرمایا: ایمان یہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ﷺ تمہارے نزدیک سب سے زیادہ
محبوب ہو جائیں۔ (مسند امام احمد، 4/ 412، حدیث: 13150)
محبت باری تعالیٰ کے لیے دعا: حضور
ﷺ اس طرح دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! مجھے اپنی محبت عطا فرما اور جو تجھ سے محبت
کرتا ہے اس کی محبت اور جو تیری محبت کے قریب کر دے اس کی محبت عطا فرما اور اپنی
محبت کو میرے نزدیک ٹھنڈے پانی سے بھی محبوب بنا۔ (ترمذی، 5/ 692، حدیث: 3501)