امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ عشق و محبت کی تعریف
کرتے ہوئے فرماتے ہیں: محبت کہتے ہیں طبیعت کا کسی پسندیدہ چیز کی طرف مائل
ہونا،جب یہ میلان پختہ ہو جاے تو محبت عشق کی صورت اختیار کر لیتی ہے۔ عربی میں
خلت (خلیل) عشق کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے۔عشق محبت سے اوپر والا درجہ ہے۔ تصوف
یہی تو ہے کہ رب کریم سے محبت ہو اور اسی کی طرف رغبت، اسی کی بارگاہ کا شوق، اسی
کی عظمت کا استحضار، اسی کی شان سے قلب میں ہیبت، اسی کے فیصلے پر راضی، اسی کی
ذات پر بھروسہ، اسی کی طرف رجوع، اسی کی بارگاہ میں فریاد، اسی کے کرم پر نظر، اسی
کے فضل کی طلب، اسی کی رحمت کی امید، اسی کے دیدار کا اشتیاق، اسی کی خوشنودی کی
کوشش، اسی کی ناراضی کا ڈر، اسی کی یاد میں فنا اور اسی کے ذکر سے بقاہو۔
حضرت ابو الحسن قناد سے جب صوفی کے بارے میں پوچھا
گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا: صوفی وہ ہوتا ہے جو اللہ کے حقوق کی ادائیگی کے لیے ہر
وقت کمر بستہ رہتا ہے۔
شیخ ابو نصر سراج طوسی علیہ رحمۃاللہ القوی مزید
ایک قول نقل فرماتے ہیں کہ صوفی وہ لوگ ہیں جو اللہ کو خوب پہچانتے ہیں، اس کے
احکام کا علم رکھتے ہیں، جو کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اس پر عمل کرتے ہیں، اللہ
ان سے جو کام لینا چاہتا ہے یہ اس کو پورا کرنے کے لیے ثابت قدمی دکھاتے ہیں، پختہ
عمل کی بدولت وہ اللہ سے کچھ پا لیتے ہیں اور جو کچھ ملتا ہے اس کی وجہ سے فنا ہو
جاتے ہیں اور ایسا ہوتا ہی رہتا ہے کہ ہر پا لینے والا آخرکار فنا ہو جایا کرتا
ہے۔
قرآن مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔اللہ تعالیٰ کے مقبول بندے تمام مخلوقات سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے
ہیں۔ محبت الٰہی میں جینا اورمحبت الٰہی میں مرنا ان کی حقیقی زندگی ہوتا ہے۔اپنی
خوشی پر اپنے رب کی رضا کو ترجیح دینا، نرم وگداز بستروں کو چھوڑ کر بارگاہ نیاز
میں سر بسجود ہونا، یاد الٰہی میں رونا، رضائے الٰہی کے حصول کیلئے تڑپنا، سردیوں
کی طویل راتوں میں قیام اور گرمیوں کے لمبے دنوں میں روزے، اللہ تعالیٰ کیلئے محبت
کرنا، اسی کی خاطر دشمنی رکھنا، اسی کی خاطر کسی کو کچھ دینا اور اسی کی خاطر کسی
سے روک لینا، نعمت پر شکر، مصیبت میں صبر، ہر حال میں خدا پر توکل، اپنے ہر معاملے
کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کردینا، احکام الٰہی پر عمل کیلئے ہمہ وقت تیار رہنا، دل
کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا، اللہ تعالیٰ کے محبوبوں سے محبت اور اللہ تعالیٰ کے
دشمنوں سے نفرت کرنا، اللہ تعالیٰ کے پیاروں کا نیاز مندرہنا،اللہ تعالیٰ کے سب سے
پیارے رسول و محبوب ﷺ کو دل و جان سے محبوب رکھنا، اللہ تعالیٰ کے کلام کی تلاوت،
اللہ تعالیٰ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا، ان سے محبت رکھنا، محبت الٰہی
میں اضافے کیلئے ان کی صحبت اختیار کرنا، اللہ تعالیٰ کی تعظیم سمجھتے ہوئے ان کی
تعظیم کرنا،یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں جو محبت الٰہی کی
دلیل بھی ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔
محبت الٰہی پیدا کرنےکے طریقےاور اسباب:
(1)وجود عطا فرمانے والی ہستی سے محبت:انسان
دیکھے کہ اس کا کمال وبقاء محض اللہ کی طرف سے ہے۔ وہی ذات اس کو عدم سے وجود میں
لانے والی،اس کو باقی رکھنے والی اور اس کے وجود میں صفات کمال، ان کے اسباب اور
ان کے استعمال کی ہدایت پیدا کرکے اسے کامل کرنے والی ہےتو ایسی ذات سے ضرور محبت
رکھنی چاہئے۔
(2)اپنے محسن سے محبت:جس
طرح اللہ کو پہچاننے کا حق ہے اگر بندہ اس طرح اسے پہچانے تو ضرور جان جائے گا کہ
اس پر احسان کرنے والا صرف اللہ ہی ہےاور محسن سے محبت فطری ہوتی ہےلہٰذا اللہ سے
محبت رکھنی چاہئے۔
(3)جمال والے سے محبت:
اللہ جمیل ہے جیساکہ حدیث پاک میں ہے: اللہ جمیل ہے اور جمال کو پسند کرتا ہے۔ (مسلم،
ص 61، حدیث: 265) اورجمال والے سے محبت
فطری اور جبلی ہے لہٰذا اللہ سے محبت کا یہ بھی ایک سبب ہے۔
(4)عیوب سے پاک ذات سے محبت:
اللہ تمام عیوب ونقائص سے منزہ ہےاور ایسی ذات سے محبت کرنا اسباب محبت میں سے ایک
قوی سبب ہے۔
(5)محبت الٰہی کے متعلق بزرگان دین کے
اقوال واحوال کا مطالعہ کیجئے:اس کے لیے امام ابو القاسم قشیری علیہ
رحمۃ اللہ القوی کی کتاب رسالہ قشیریہ اور امام غزالی کی کتاب احیاء العلومجلدپنجم
کا مطالعہ بہت مفید ہے۔
(6) اللہ کی نعمتوں میں غور کیجئے: انسان
دیکھے کہ اللہ جو منعم حقیقی ہے تمام نعمتیں اسی کی طرف سے ہیں اور وہ ہر مخلوق کو
اپنی نعمتوں سے نواز رہا ہے۔یہ احساس انسان کے اندر منعم حقیقی کی محبت کا جذبہ
پیدا کرتا ہے۔
(7)اللہ کے عدل اور فضل ورحمت میں غور کیجئے:
انسان غور کرے کہ تو اسے عدل وانصاف میں سب سے بڑھ کر ذات اللہ ہی کی دکھائی دے گی
اور وہ یہ بھی دیکھے گا کہ کافروں اور گناہ گاروں پر بھی اس کی رحمت جاری ہے باجود
یہ کہ وہ اس کی نافرمانی اور سرکشی کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ غوروفکر انسان
کو اللہ سے محبت پر ابھارے گا۔
(8)محبت کی علامتوں میں غور کیجئے: علمائے
کرام فرماتے ہیں: بندے کی اللہ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ اللہ جس سے محبت کرتا ہے
بندہ اسے اپنی محبوب ترین چیزپرترجیح دیتا ہے اوربکثرت اس کا ذکر کرتا ہے، اس میں
کوتا ہی نہیں کرتا اور کسی دو سرے کام میں مشغول ہونے کے بجائے بندے کو تنہائی اور
اللہ سے مناجات کرنا زیادہ محبوب ہوتا ہے۔
(9) اللہ کے نیک بندوں کی صحبت اور ان
سے محبت:نیک
بندوں کی صحبت اور ان سے محبت بھی اللہ سے محبت کرنے کا ایک ذریعہ ہےکہ نیک بندے
اللہ کی محبت کا درس دیتے ہیں اور ان کی صحبت سے دلوں میں اللہ کی محبت پیدا ہوتی
ہے۔ (نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، ص248)
ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے: وَ اذْكُرِ اسْمَ رَبِّكَ وَ تَبَتَّلْ اِلَیْهِ تَبْتِیْلًاؕ(۸) (پ
29، المزمل: 8) ترجمہ کنز العرفان: اور اپنے رب کا نام یاد کرو اور سب سے ٹوٹ کر اسی
کے بنے رہو۔ صراط الجنان میں ہے: اس آیت کا
ایک معنی یہ ہے کہ اے حبیب! آپ رات اور دن کے تمام اوقات میں اپنے رب کا نام یاد
کرتے رہیں چاہے وہ تسبیح اور کلمہ طیبہ پڑھنے سے ہو، نماز ادا کرنے، قرآن پاک کی
تلاوت کرنے اور علم کادرس دینے کے ساتھ ہو۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اے حبیب! اپنی قرا
ء ت کی ابتداء میں بسم الله الرحمٰن الرحیم پڑھیں۔ (روح البیان، 10/ 210)
یاد رہے کہ نماز کے علاوہ اگر قرآن پاک کی تلاوت
سورت کی ابتدا سے کی جائے تو بسم الله پڑھنا سنت ہے اور اگر سورت کے درمیان سے
تلاوت شروع کی جائے تو بسم الله پڑھنا مستحب ہے اور نماز میں سورہ ٔ فاتحہ کے بعد
سورت کی تلاوت سے پہلے بسم الله پڑھنا سنت نہیں۔
اللہ پاک ہمارے دل سے دنیا کی محبت کو نکال کر ہمیں
بھی عشق حقیقی کی لذت سے آشنا فرمائے۔