امام غزالی مکاشفۃ القلوب میں فرماتے ہیں محبت اس کیفیت کا نام ہے جو کسی پسندیدہ چیز کی طرف طبیعت کے میلان کو ظاہر کرتا ہے اگریہ میلان شدت اختیار کرے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ (مکاشفۃ القلوب، ص42)

قُلْ اِنْ كَانَ اٰبَآؤُكُمْ وَ اَبْنَآؤُكُمْ وَ اِخْوَانُكُمْ وَ اَزْوَاجُكُمْ وَ عَشِیْرَتُكُمْ وَ اَمْوَالُ اﰳقْتَرَفْتُمُوْهَا وَ تِجَارَةٌ تَخْشَوْنَ كَسَادَهَا وَ مَسٰكِنُ تَرْضَوْنَهَاۤ اَحَبَّ اِلَیْكُمْ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ جِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰى یَاْتِیَ اللّٰهُ بِاَمْرِهٖؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ۠(۲۴) (پ 10، التوبۃ: 24) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو(انتظار کرو) یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم لائے اور اللہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا۔

اس آیت کا حاصل مطلب یہ ہے کہ اے مسلمانو جب تم ایمان لائے ہو اور اللہ و رسول کی محبت کا دعوی کرتے ہو تو اب اس کے بعد اگر تم کسی غیر کی محبت کو ان کی محبت پر ترجیح دو گے تو خوب سمجھ لو کہ تمہارا ایمان اور اللہ و رسول کی محبت کا دعوی بالکل غلط ہو جائے گا اور تم عذاب الٰہی سے نہ بچ سکو گے نیز آیت کے آخری حصے سے بھی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جس دل میں اللہ ورسول کی محبت نہیں یقینا اسکے ایمان میں خلل ہے۔

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض وفروغ اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

نبی کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک کامل مومن نہ ہو گا جب تک کے میں اسے اس کے باپ اسکی اولاد اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔ (مسلم، ص 47، حدیث: 169)

عشق رسول کے تقاضے: احکام باری تعالیٰ کو غور سے سنیے اور ان پر عمل کیجئے حضور کے والدین رشتہ داروں کے ادب و احترام کے آداب کا التزام رکھا جائے سوائے ان رشتہ داروں کے جن کا کافر اور جہنمی ہونا قرآن و حدیث سے یقینی طور پر ثابت ہے جیسے ابولہب۔

اللہ پاک ہمیں عشق حقیقی عطا فرمائے۔ آمین