محبت و عشق کیا ہے؟ دل
اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسےمحبّت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت
اختیار کرلےتو عشق کہلاتی ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے، مجازی(یعنی انسانوں کا
انسانوں سے عشق) اور حقیقی (یعنی محبت خداومصطفٰی) عشق مجازی اکثرراہ دوزخ پر لے
جاتاجبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنّت پر گامزن کرتا ہے، عشق مجازی تباہ وبرباد کرتا ہے
اور عشق حقیقی شاد وآباد کرتا ہے۔ عشق حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے، یہ کبھی سخت
طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ کرتا،کبھی حکم الٰہی پرقربانی کے لئےسر
رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود پڑتا ہے جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔
بے خطرکود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل
ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اصل محبت
صرف اللہ پاک کی ہے اس کے سوا جس سے بھی محبت کی جائے صرف اللہ پاک کی رضا کے لیے
کی جائے امام غزالی نے احیاء العلوم میں تحقیق کی ہے کہ محبت کا مستحق صرف اور صرف
اللہ پاک ہے یعنی نادان جو کہتے ہیں کہ عشق مجازی یعنی گناہوں بھرا دنیاوی عشق عشق
حقیقی تک پہنچنے کا ذریعہ ہے یہ سخت خطا پر ہیں، والد اعلی حضرت مولانا نقی علی
خان فرماتے ہیں:شریعت میں غیر اللہ کے سامنے سر جھکانا منع ہے تو غیر اللہ کے لیے
دل جھکانا کیسے درست ہو سکتا ہے۔ ہاں محبت مصطفی غیر اللہ کی محبت نہیں بلکہ محبت
الہی ہے کیونکہ جسے محبت مصطفی نصیب نہ ہو وہ ہرگز ہرگز محبت الہی حاصل نہیں کر
سکتا، قرآن کریم میں الله پاک ارشاد فرماتا ہے: قُلْ
اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ
3، اٰل عمران: 31) ترجمہ: اے حبیب فرما دو کہ اے لوگو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو
تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔
حدیث پاک میں ہیں: اللہ پاک سے محبت کرو کہ وہ
تمہیں نعمتیں عطا فرماتا ہے اور اللہ پاک کی محبت کے لیے مجھ سے محبت کرو اور میری
محبت کے لیے میرے اہل بیت سے محبت کرو۔ مفسر قرآن مفتی احمد یار خان نعیمی فرماتے
ہیں: اللہ پاک کی محبت کے لیے اس کے رسول سے محبت ضروری ہے اور رسول اللہ سے محبت
کے لیے حضور ﷺ کے تمام صحابہ سے اور حضور کے اہل بیت اولاد پاک ازواج مطہرات سے
محبت لازم و ضروری ہے یہ تمام محبتیں ایمان میں داخل بلکہ عین ایمان یعنی ایمان کی
بنیاد ہے۔ (عثمان غنی اور محبت الہی، ص 6)
محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ
نامکمل ہے
عشق رسول تو ایمان کی جان اور روح ایمان ہے میرے
امام نے اس عشق کا جا بجا اظہار فرمایا:
پارہ دل بھی نہ نکلا دل سے تحفے میں
رضا ان سگان کو سے اتنی جان
پیاری واہ واہ
شرح کلام رضا: یعنی اے رضا
مدینے کے کتوں کو نذر کرنے کے لیے تجھ سے سینہ چیر کر دل کا گوشت کیوں نہ پیش ہوا
تمہیں کوچہ حبیب اور مدینہ منورہ کے کتوں سے اپنی جان اتنی پیاری ہے۔
مکاشفۃ القلوب میں ہے: محبت کا صدق تین چیزوں سے
ظاہر ہوتا ہے: 1۔ محب، محبوب کی باتوں کو سب سے اچھا سمجھتا ہے 2۔ اس کے لیے محبوب
کی مجلس سب سے بہتر مجلس ہوتی ہے 3۔ اس کے نزدیک محبوب کی رضا سب سے عزیز ہوتی ہے۔
(مکاشفۃ القلوب، ص 33) حضرت سہل تستری فرماتے ہیں: اللہ سے محبت کی علامت یہ ہے کہ
وہ شخص قرآن پاک سے محبت کرے محبت الہی اور محبت رسول کی نشانی قرآن کریم سے محبت
اور حضور اکرم ﷺ کی سنت سے لگاؤ رکھنا ہے۔ (مکاشفۃ القلوب، ص 37)
قرب الہی کا ذریعہ: حضرت
ابوہریرہ سے مروی ہے کہ نبیوں کے تاجدار ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ ارشاد فرماتا ہے:
جس نے کسی ولی کو اذیت دی میں اس سے اعلان جنگ کرتا ہوں اور بندہ میرا قرب سب سے
زیادہ فرائض کے ذریعے حاصل کرتا ہے اور نوافل کے ذریعے مسلسل قرب حاصل کرتا رہتا
ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ (بخاری، 4/248، حدیث:6502)
اللہ کے ذکر میں مشغول رہنا محبت الہی کی علامت بھی
ہے اور محبت الہی حاصل کرنے کا ذریعہ بھی فرمان خداوندی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا
كَثِیْرًاۙ(۴۱) وَّ سَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّ اَصِیْلًا(۴۲) (پ 22، الاحزاب: 41،42) ترجمہ کنز
الایمان: اے ایمان والو اللہ کو بہت یاد کرو اور صبح و شام اس کی پاکی بولو۔
فرمان آخری نبی ﷺ ہیں: جوشخص جس سے محبت کرتا ہے
اکثر اسی کا ذکر کرتا ہے۔ (کنز العمال، 1/217، حدیث: 1825)
اپنا دل دنیا کی محبت سے خالی کر کے کلی طور پر
اللہ کے حضور جھکائے رکھنا، منقول ہے: اللہ نے حضرت عیسی علیہ السلام کی طرف وحی
نازل فرمائی: کہ اے عیسی! میں دیکھتا ہوں کہ جب کسی بندے کا دل دنیا و آخرت کی
محبت سے پاک و صاف ہو جائے تو اسے اپنی محبت سے بھر دیتا ہوں ایسے تمام کاموں سے
دور رہنا جو اللہ کا قرب حاصل ہونے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ حضرت ذالنون مصری فرماتے
ہیں: اللہ سے محبت کرنے والوں کی علامت یہ بھی ہے کہ ہر اس چیز کو چھوڑ دے جو اللہ
کی یاد سے غافل کر دے اور اپنے آپ کو اللہ کی رضا والے کاموں میں مصروف رکھے۔ (الزہد
الکبیر، ص 78)
مروی ہے کہ حضرت عیسی کا تین آدمیوں پر گزر ہوا جن
کے بدن کمزور اور رنگ بدلا ہوا تھا آپ علیہ السلام نے فرمایا: تمہارے اس حال کا
سبب کیا ہے؟ انہوں نے عرض کی: دوزخ کی آگ کا خوف۔ آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ پر حق
ہے کہ خائفین کو جہنم سے امان نصیب کرے پھر آپ علیہ السلام کا گزر ان کے علاوہ
دیگر تین اشخاص پر ہوا جو ان سے بھی زیادہ کمزور تھے اور رنگ ان سے بھی زیادہ بدلا
ہوا تھا استفسار فرمایا: تمہاری اس حالت کا سبب کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا جنت کا
شوق ارشاد فرمایا اللہ پر حق ہے کہ تمہیں وہ عطا فرمائے جس کے تم امیدوار ہو پھر
آپ تین اور آدمیوں کے پاس سے گزرے جو سابقہ دونوں گروہوں سے زیادہ کمزور اور متغیر
رنگ والے تھے اور ان کے چہروں پر گویا نور کے آئینے تھے جب حضرت عیسی علیہ السلام
نے ان سے فرمایا تمہاری اس حالت کا سبب کیا ہے ؟انہوں نے جواب دیا ہم اللہ سے محبت
کرتے ہیں آپ نے تین بار کہا: تم ہی لوگ مقرب ہو یعنی اللہ کا زیادہ قرب تم لوگوں
کو ہی حاصل ہے۔(اللہ سے محبت کرنے والوں کے واقعات ص 10)
قلب میں یاد تیری بسی ہو ذکر لب پر
تیرا ہر گھڑی ہو
مستی و بے خودی اور فنا کی میرے مولا
تو خیرات دے دے
پارہ 2 سورۃ البقرہ کی آیت نمبر 165 میں ارشاد ہوتا
ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے
برابر کسی کی محبت نہیں۔تفسیر صراط الجنان میں ہے: اللہ تعالی کے مقبول بندے تمام
مخلوقات سے بڑھ کر اللہ سے محبت کرتے ہیں محبت الہی میں جینا اور محبت الہی میں
مرنا ان کی زندگی کا مقصد ہوتا ہوتا ہے دل کو غیر کی محبت سے پاک رکھنا اللہ تعالی
کے محبوبوں سے محبت اور اللہ کے دشمنوں سے نفرت کرنااللہ کے سب سے پیارے رسول کو
دل و جان سے محبوب رکھنا اللہ کے مقرب بندوں کو اپنے دلوں کے قریب رکھنا ان سے
محبت رکھنا محبت الہی میں اضافے کے لیے ان کی صحبت اختیار کرنا اللہ کی تعظیم
سمجھتے ہوئے ان کی تعظیم کرنا یہ تمام امور اور ان کے علاوہ سینکڑوں کام ایسے ہیں
جو محبت الہی کی دلیل ہیں اور اس کے تقاضے بھی ہیں۔ (الله پاک کی محبت حاصل کریں،
ص3)
خلاصہ یہ کہ اللہ تک پہنچنا چاہتے ہیں کسی کامل پیر
کی صحبت اختیار کریں جو آپ کے دل سے دنیا کی رنگینیوں کو نکالے احمد رضا کے دروازہ
عشق تک لے جائے احمد رضا غوث اعظم کے قدموں تک پہنچا دیں غوث پاک علی المرتضی شیر
خدا تک اور مولائے کائنات جان عالم کے دروازہ رحمت تک پہنچا دیں محبوب خدا کا قرب
مل جائے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ اللہ کی معرفت حاصل نہ ہو سکے تو کیوں نہ ولی کامل
شیخ طریقت امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے ہاتھ پر بک جائیں تا کہ معرفت
الٰہی حاصل ہو جائے اللہ ہمیں اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین