عشق حقیقی دراصل حقیقت سے محبت ہے اور حقیقت ابدی شے ہوتی ہے جو ہمیشہ
زندہ یا موجود رہتی ہے۔ حبّ الہی اور حب رسول ﷺ حقیقی ہیں جن کی نوعیت ابدی ہے
جبکہ دنیا کی ہر شے مثلاً حسن، دولت، اقتدار وغیرہ وغیرہ محض فریب نظر ہیں اور سب
فانی ہیں یعنی فنا ہونے والی ہیں اس لیے عشق مجازی غیر حقیقی شے ہے جس کی کوئی
اصلیت نہیں۔ دل اگر کسی کی جانب مائل ہو جائے تو اسے محبت کہا جاتا ہے اور اگر یہی
محبت شدت اختیار کر لے تو عشق کہلاتی ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے: عشق حقیقی اور عشق
مجازی۔ عشق مجازی اکثر راہ دوزخ پر لے جاتا ہے جبکہ عشق حقیقی شاہراہ جنت پر گامزن
کرتا ہے، عشق مجازی تباہ و برباد کرتا ہے اور عشق حقیقی شاد و آباد کرتا ہے، عشق
حقیقی میں بڑی قوت ہوتی ہے یہ کبھی سخت طوفان کا سامنا کرتا، کبھی فرعون کا مقابلہ
کرتا، کبھی حکم الہی پر قربان کرنے کے لیے سر رکھ دیتا اور کبھی بے خطر آگ میں کود
پڑتا جبکہ عقل تکتی رہ جاتی ہے۔
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عشق حقیقی سے مراد اللہ اور رسول ﷺ کی محبت کامل ہے۔
یہ دولت بے بہا جسکے خزانہ دل میں جمع ہو جاتی ہے اسے فانی کائنات سے بیگانہ کر
دیتی ہے وہ ہمہ وقت محبوب کے تصور اور جلووں میں گم رہتا ہے اور محبت اور معرفت کی
لذت میں کھو کر دنیا سے کنارہ کش ہو جاتا ہے پھر وہ محبوب کی سنتا، محبوب کی مانتا،
اور اسی کی چاہت پر چلتا ہے حتی کہ محبوب کے نام پر جان تک قربان کر دیتا ہے۔
کافر اور مومن کی محبت کا موازنہ: محبت
کرنے والوں کی کئی اقسام ہیں لیکن محبین الہی خالص و مخلص لوگ ہیں۔ اللہ کا فرمان
محبت نشان ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ
2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت
نہیں۔اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: اشدّ سے مراد پختگی اور ہمیشگی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ مشرکین جب کسی بت کی پوجا کرتے اور پھر کوئی اس سے اچھی چیز دیکھ لیتے تو اس بت
کو چھوڑ کر اس سے اچھی چیز کی پوجا پاٹ شروع کر دیتے (یعنی کافر اپنی محبتیں بدلتے رہتے تھے جبکہ
مومن صرف اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ (تفسیر کبیر، 2/178) حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ اس
کی تفسیر یوں کرتے ہیں: اہل ایمان آخرت میں اللہ سے بہت محبت کریں گے۔
محبت کیا ہے؟ جان لیجیے! بے
شک محبت فکروں سے کٹ جانے اور رازوں سے چھپ جانے کا نام ہے یہ خواص کے لیے نور اور
عوام کے لیے نار (یعنی آگ) ہے جس دل میں محبت داخل ہو جاتی ہے اسے بے چین و
مضطرب اور پریشان کر دیتی ہے۔ حب (یعنی
محبت) دو حروف کا مجموعہ ہے، حاء اور باء،
حاء حتف سے ہے یعنی کاٹنا اور باء بلا سے ہے یعنی آزمائش۔ یہ حقیقةً ایک بیماری ہے جس
سے دوا اور شفا نکلتی ہے۔ اس کی ابتداء فنا اور انتہا بقا ہے۔ اس میں
بظاہر مشقت و کلفت ہے مگر باطنی طور پر سرور و لذت ہے۔ یہ ناواقفوں کے لیے بدبختی
اور بیماری ہے، جبکہ عارفوں کے لیے شفاء اور تندرستی۔ اللہ ارشاد فرماتا ہے: قُلْ هُوَ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا هُدًى وَّ شِفَآءٌؕ-وَ الَّذِیْنَ
لَا یُؤْمِنُوْنَ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ وَقْرٌ وَّ هُوَ عَلَیْهِمْ عَمًىؕ- (پ24،حم
السجدہ: 44) ترجمہ کنز الایمان: تم فرماؤ وہ ایمان والوں کے لیے ہدایت اور شفا ہے
اور وہ جو ایمان نہیں لاتے ان کے کانوں میں ٹینٹ (روئی) ہے اور وہ ان پر اندھا پن
ہے۔