حضرت فضیل بن عیاض بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں جوانی کا
زمانہ تھا تو ایک خاتون سے آشنائی ہو گئی محبت کا ربط قائم ہو گیا تو ظاہر ہے
جوانی مستانی ہوتی ہے اور جنون کا ایک شعبہ کہا گیا ہے جوانی کو اور پھر دل میں اس
طرح کے رجحان پیدا ہو جائیں تو پھر وہ جنون کئی گنا بڑھ جاتا ہے تو اس کے ساتھ وقت
طے کیا اور اس کے ملنے کے لیے بے تابی کے ساتھ ان گھڑیوں کا ان لمحوں کا انتظار
کرنے لگے پھر جب وہ وقت آیا تو اس کے گھر کی طرف چلے اس کے گھر کی دیوار پھلانگنے
لگے تھے کہ ساتھ والے مکان سے کسی قاری قرآن کی تلاوت کی آواز کانوں میں پڑی اور
وہ پڑھ رہا تھا: ترجمہ: کیا اہل ایمان پہ وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کے ذکر
اور اللہ کی یاد اور اس کی محبت میں تڑپ اٹھیں اور وہ خوف خدا میں مبتلا ہوں اور
جو نازل ہوا قرآن اس قرآن کی محبت میں ان کہ دل میں حیثیت پیدا ہو۔ بس یہ کانوں
میں پڑنے کی دیر تھی کہ دوبارہ گلی میں چھلانگ لگائی اور کہا: میرے اوپر وہ وقت
آگیا ہے اور جنگلوں کو روتے ہوئے نکلے اور حضرت فضیل بن عیاض پھر ولیوں کے امام
قرار پائے اس آیت نے ان کی زندگی بدل دی تھی۔
کسی کی 30 سال کسی کی 40 برس کسی کی 50 سال کسی کی
60 سال زندگی موجود لوگوں میں سے کسی کے اس سے بھی زیادہ اور کسی کی کم اس آیت کریمہ
کو ذرا اپنے اوپر عبارت کریں تو اللہ ہمیں نصیب کر دے کہ ہمارے دل تیرے خوف سے
کانپ اٹھیں اور تیری خشیت سے ہمارے دل لرز اٹھیں اور قرآن کے ساتھ ہمارا ربط مضبوط
اور مستحکم ہو جائے اور ہم یہ اقرار کرتے ہوئے تیرے حضور حاضر ہو جائیں مالک وہ
وقت آگیا ہے کہ ہمارے دل تیری یاد سے تیری محبت سے تیرے پیار سے مالا مال ہو گئے
اور اپنی باقی زندگی ہم تیرے پیار میں تیری محبت میں تیری یاد میں بسر کریں گے، حدیث
پاک میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص اللہ کے خوف سے رویا اور اللہ کے خوف سے رونے کی
وجہ سے اس کی پلکوں کے بالوں میں سے ایک بال کی جڑ گیلی ہو گئی تو قیامت کے دن وہ
بال کھڑا ہو جائے گا اللہ یا تو مجھے نکال لے یا اسے جنت عطا فرما دے تو اللہ جل
شانہ اس بال کو تو آنکھ سے نہیں نوچے گا بلکہ اس شخص کو اللہ جنت عطا فرما دے گا۔
اللہ اکبر گنہگار کی آنکھ کا پانی اللہ کے غصے کی
آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے اس لیے ہمیں رونے کا کہا گیا ارشاد فرمایا کہ تھوڑا ہنسا
کرو زیادہ رویا کرو صحابہ کو ہنستے ہوئے دیکھا تو آقا کریم علیہ السلام نے فرمایا
کہ تمہارے تک اللہ کی امان نہیں پہنچی اور تم ہنس رہے ہو عرض کی حضور اس کا کفارہ،
آقا کریم نے فرمایا: اس کا کفارہ یہ ہے کہ جتنا تم ہنسے ہو اتنا ہی تمہیں رونا پڑے
گا۔اگر ہم اپنی زندگی پر غور و تدبر کریں تو ہماری زندگی میں ہنسنا زیادہ یا رونا
زیادہ ہے سویر سے لے کر شام تک قہقہے زیادہ ہیں، ٹھٹھے زیادہ ہیں، مذاق زیادہ ہیں،
لطیفے زیادہ ہیں، یا عبرت زیادہ ہیں، تفکر زیادہ ہے، تدبر زیادہ ہے، سوچ بچار
زیادہ ہے، یاد الہی میں تڑپنا زیادہ ہے، آنکھوں سے یاد خدا میں بہنے والے آنسو
زیادہ ہیں مجھے اور آپ کو اپنی زندگی کا
ضرور موازنہ کرنا چاہیے ٹھٹھوں سے مذاق سے ہماری مجلسیں بھرپور ہوتی ہیں ہم دن میں
جتنا ہنستے ہیں کیا اس کا دسواں حصہ بھی ہم تنہائی میں بیٹھ کر اللہ کی یاد میں
روتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو مبارک ہو اور اگر ایسا نہیں ہے تو اللہ سے درد مانگو اس
کی یاد میں رونا مانگو، اس کے ذکر میں تڑپنا مانگو، اس کی محبت میں بے تابیاں
مانگو، آنسو مانگو، سسکیاں مانگو، تڑپنےبھڑکنے کی توفیق دے۔میرے آقا و مولا نے
فرمایا! قیامت کے دن جب کوئی سایہ نہیں ہوگا یاد الٰہی میں رونے والے کو اللہ اپنے
عرش کا ٹھنڈا سایہ عطا فرما دے گا تو یہ بہت بڑی دولت ہے یہ بہت بڑی سعادت ہے۔ اللہ
ہمیں نصیب کرے۔ آمین
تڑپنے پھڑکنے کی توفیق دے دل مرتضی سوز صدیق دے