دل اگر کسی کی جانب مائل ہوجائے تو اسے محبّت کہا جاتا ہے اور یہی محبت اگر شدّت اختیار کرلے تو عشق کہلاتا ہے۔ عشق دو طرح کا ہوتا ہے: مجازی اور حقیقی۔

اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰهِؕ- (پ 2، البقرۃ: 165) ترجمہ کنز الایمان: اور ایمان والوں کو اللہ کے برابر کسی کی محبت نہیں۔

جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے۔ (رسالہ قشیریہ، ص 545)

سبحان اللہ اگر اللہ پاک کی محبوبیت حاصل ہوجائے تو یہ بندے کی معراج ہے اس سے بڑا مقام اور نعمت کوئی نہیں اللہ جو تمام کائنات کا رب ہے وہ اپنے بندے سے محبت فرمائے۔

محبت میں اپنی گما یا الہی نہ پاؤں میں اپنا پتا یا الہی

عشاق الہی کے لیے اہم ترین مقام: عشاق الہی کے لیے رضائے الہی اہم ترین مقام ہے اس ضمن میں ایک واقعہ تحریر ہے، چنانچہ ایک مرتبہ حضرت رابعہ بصری رحمۃ اللہ علیہا عالم شوق میں بار بار سجدے میں سر رکھتی اور پھر اٹھ کھڑی ہوتی اور پھر کہنے لگتی اے اللہ اگر میں سجدے دوزخ کے ڈر سے کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں ڈالنا اور اگر جنت کی امید پر کرتی ہوں تو بھی دوزخ میں ڈالنا اور اگر میں تیری خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو اپنے جمال سے محرم نہ کرنا۔

سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے

عشق رسول ﷺ: عشق الہی کے لیے عشق رسول ﷺ اور اتباع رسول شرط ہے کہ اس کے بغیر کوئی الله سے محبت کا دعویدار نہیں ہوسکتا۔ الله قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ (پ 3، اٰل عمران: 31) ترجمہ: اے حبیب فرما دو کہ اے لوگو اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میرے فرمانبردار بن جاؤ اللہ تم سے محبت فرمائے گا۔

ایمان کی کسوٹی: محبوب خدا سے عشق و محبت ہی ایمان کی کسوٹی ہے۔ عشق مصطفی کے بغیر ایمان کامل ہی نہیں ہو سکتا جیسا کہ حدیث مبارکہ میں آیا ہے: تم میں سے کوئی اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتا جب تک میں اسکی جان سے زیادہ اسے محبوب نہ ہو جاؤں۔ (شفاء، 2/19)

محمد کی محبت دین حق کی شرط اول ہے اسی میں ہو اگر خامی تو سب کچھ نامکمل ہے

محبت اطاعت پر ابھارتی ہے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حجر اسود کے پاس آئے اور اسے بوسہ دے کر فرمایا خدا کی قسم! میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے،نہ نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی کریم ﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو تجھے میں ہر گز بوسہ نہ دیتا۔ (مسلم، ص 662، حدیث: 1270)

نگاہ عشق و مستی میں وہی اوّل وہی آخر وہی قرآں وہی فرقاں وہی یٰسین وہی طٰہٰ