ایمان کی شیرینی کی بنیاد اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت کو بتایا گیا اور اس محبت کو ایمان کی دوسری حلاوتوں پر مقدم کیا گیا۔

جب اللہ سے محبت دل میں اترنے لگتی ہے تو عبادات میں تھکن کی جگہ لذت لے لیتی ہے قرآن مجید کی آیات سمجھ میں آنے لگتی ہیں زبان پر اپنے رب کا نام ہر پل رہنے لگتا ہے۔ دعاؤں میں یقین بڑھنے لگتا ہے ہاتھ تنگ ہوتے ہوئے بھی اللہ کی راہ میں دیتے ہوئے دل کشادہ رہتا ہے اللہ کے راستے میں کام کرتے لوگوں سے الفت دل میں بڑھنے لگتی ہے۔ شیطان کا آپ سے میلوں کا فاصلہ رہنے لگتا ہے اور وہ تمام جہانوں کا رب آپ کو ہر پل اپنے قریب لگنے لگتا ہے۔

عشق حقیقی کسے کہتے ہیں؟ محبت نام ہے پسندیدہ چیز کی طرف میلان طبع کا۔اگر یہ میلان شدت اختیار کر جائے تو اسے عشق کہتے ہیں۔ اس میں زیادتی ہوتی رہتی ہے یہاں تک کہ عاشق محبوب کا بندہ بے دام بن جاتا ہے اور مال و دولت اس پر قربان کر دیتا ہے۔زلیخا کی مثال لے لیجیئے جس نے یوسف علیہ السلام کی محبت میں اپنا حسن اور مال و دولت قربان کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جب زلیخا ایمان لائی اور حضرت یوسف علیہ السلام کی زوجیت میں داخل ہوئی تو سوائے عبادت وریاضت اور توجہ الی اللہ کے سوا کوئی کام نہ تھا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص72)

محبت کی ابتداء اور انتہاء: جب حضرت منصور حلاج کو قید میں اٹھارہ دن گزر گئے تو حضرت شبلی نے ان کے پاس جا کر دریافت کیا:اے منصور !محبت کیا ہے؟منصور نے جواب دیا آج نہیں کل یہ سوال پوچھنا۔ جب دوسرا دن ہوا اور انکو قید سے نکال کر مقتل کی طرف لے گئے تو وہاں منصور نے شبلی کو دیکھ کر کہا شبلی !محبت کی ابتداء جلنا اور انتہا قتل ہو جانا ہے۔

جب منصور کی نگاہ حق بین نے اس حقیقت کو پہچان لیا کہ اللہ کی ذات کے سوا ہر شے باطل ہے اور ذات الہی ہی حق ہے تو وہ اپنے نام تک کو بھول گئے لہذا جب ان سے سوال کیا گیا کہ تمہارا نام کیا ہے؟تو جواب دیا میں حق ہوں۔ (فتاوی رضویہ، 26/400)

عاشق کی پہچان: ایک شیخ سے عاشق کے متعلق پوچھا گیا انہوں نے کہا عاشق میل ملاپ سے دور، تنہائی پسند، غور وفکر میں ڈوبا ہوا اور چپ چاپ رہتا ہےجب اسے دیکھا جائے وہ نظر نہیں آتا، جب بلایا جائے تو سنتا نہیں، جب بات کی جائے توسمجھتا نہیں اور جب اس پر کوئی مصیبت آ جائے تو غمگین نہیں ہوتا وہ بھوک کی پرواہ اور برہنگی کا احساس نہیں رکھتا، کسی کی دھمکیوں سے مرعوب نہیں ہوتا وہ تنہائی میں اللہ پاک سے التجائیں کرتا ہے اسکی رحمت سے انس و محبت رکھتا ہے، وہ دنیا کے لیے دنیا والوں سے نہیں جھگڑتا۔ (مکاشفۃ القلوب، ص75)

زہر الریاض میں ہے کہ موسی علیہ السلام کا ایک عزیز دوست تھا، ایک دن آپ سے کہنے لگا: اے موسی! میرے لیے دعا کر دیجیے کہ اللہ پاک مجھے اپنی معرفت عطا فرمائے آپنے دعا کی اللہ پاک نے آپ کی دعا قبول فرمائی اور وہ دوست آبادی سے کنارہ کش ہو کر پہاڑوں میں وحوش کے ساتھ رہنے لگا۔ جب موسی علیہ السلام نے اسے نہ پایا تو رب تعالی سے التجا کی الہی میرا دوست کہاں گیا ؟رب تعالی نے فرمایا اے موسی جو مجھے صحیح معنوں میں پہچان لیتا ہے وہ مخلوق کی دوستی پسند نہیں کرتا۔

جب بندہ یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ کمالات حقیقی صرف اللہ ہی کے لیے ہیں اور مخلوق کے کمالات بھی حقیقت میں اللہ پاک کے کمالات ہیں اور اللہ ہی کے عطا کردہ ہیں تو اسکی محبت اللہ پاک کے ساتھ اور اللہ کے لیے ہوجاتی ہے۔

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے ہمیں اپنی اور اپنے پیارے حبیب ﷺ کی محبت میں مزید شدت عطا فرمائے۔