اللہ تعالی نے اپ علیہ السلام کو نبوت اور بادشاہت عطا فرمائی اپ علیہ السلام بہت ہی حسین و جمیل تھے اللہ تعالی نے اپ کو علوم عطا فرمائے اپ علیہ السلام لوگوں کو نیکی کی دعوت دیتے رہے اپ لوگوں کو ایک خدا کی عبادت کرنے کی دعوت دیتے رہے علیہ السلام کا مبارک تذکرہ قران پاک میں موجود ہے عمل کی نیت سےقرانی تذکرہ ملاحظہ فرمائی

(1)اللہ تعالیٰ کا اپ کو نبوت و بادشاہت کی بشارت فرمانا: ترجمہ کنز العرفان : اور اسی طرح تیرا رب تمہیں منتخب فرما لے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھائے گا اور تجھ پر اور یعقوب کے گھر والوں پر اپنا احسان مکمل فرمائے گا جس طرح اس نے پہلے تمہارےباپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر اپنی نعمت مکمل فرمائی شک تیرا رب علم والا حکمت والا ہے۔(پارہ 12 سورہ یوسف ایت نمبر 6)

(2) اللہ تعالیٰ کا اپ کو علم و حکمت عطا فرمانا: ترجمہ کنز العرفان : اور جب یوسف بھرپور جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ،(پارہ 12 سورہ یوسف ایت نمبر 22)

( 3)اپ کا گناہوں کے خلاف اللہ عزوجل کی پناہ مانگنا:ترجمہ کنز العرفان:اور وہ جس عورت کے گھر میں تھے اس نے انہیں نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی اور سب دروازے بند کر دیے اور کہنے لگی اؤ یہ تم سے کہہ رہی ہو یوسف نے جواب دیا ایسے کام سے اللہ کی پناہ ہے بیشک وہ مجھے خریدنے والا شخص میری پرورش کرنے والا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے بیشک زیادتی کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔(پارہ 12 سورہ یوسف ایت نمبر 23)

(4) اللہ عزوجل کے پسندیدہ بندے:ترجمہ کنز العرفان:اور بیشک عورت نے یوسف کا ارادہ کیا اور اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا تو وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا ہے ہم نے اسی طرح کیا تاکہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیردے بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے۔(پارہ 12 سورہ یوسف ایت نمبر 24)

(5)گناہ کی طرف مائل ہونے کے بجائے اپنے لیے قید خانے کو پسند کرنے والے: ترجمہ کنز العرفان: یوسف نےعرض کی اے میرے رب مجھے اس کام کی بجائے قید خانہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے بلا رہی ہے اور اگر تو مجھ سے ان کا مکرو فریب نہ پھرے گا جی تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور میں نادانوں میں سے ہو جاؤں گا۔(پارہ 12 سورہ یوسف آیت نمبر 33)


انبیاء علیہ السلام کائنات کے عظیم ترین ہستیاں اور انسانوں میں ہیروں موتیوں کی طرح جگمگاتی شخصیات ہیں جنہیں خدا نے وحی کے نور سے روشنی بخشی حکمتوں کے سرچشمے ان کے دلوں میں جاری فرمائے اور سیرت و کردار کی وہ بلندیاں عطا فرمائی جن کی تابانی سے مخلوق کی انکھیں خیرہ ہو جاتی ہیں اللہ تبارک و تعالی نے بہت سے انبیاء کرام بھیجے جن میں حضرت یوسف علیہ السلام بھی ہیں آپ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے اور حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابرھیم کے پڑپوتے ہیں:

آیت نمبر (1) وَلَقَدْ جَآءَكُمْ يُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا زِلْتُـمْ فِىْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖ ۖ حَتّـٰٓى اِذَا هَلَكَ قُلْتُـمْ لَنْ يَّبْعَثَ اللّـٰهُ مِنْ بَعْدِهٖ رَسُوْلًا ۚ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّـٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابٌ : ترجمہ کنزالایمان: اور تمہارے پاس یوسف بھی اس سے پہلے واضح دلیلیں لے کر آچکا پس تم ہمیشہ اس سے شک میں رہے جو وہ تمہارے پاس لایا، یہاں تک کہ جب وہ فوت ہوگیا تو تم نےکہا کہ اللہ اس کے بعد کوئی رسول ہرگز نہیں بھیجے گا، اسی طرح اللہ گمراہ کرتا ہے اس کو جو حد سے بڑھنے والا شک کرنے والا ہے:

آیت نمبر ( 2) :پارہ 24 سورۃ مؤمن آیت 34: اِذْ قَالَ يُوْسُفُ لِاَبِيْهِ يَآ اَبَتِ اِنِّـىْ رَاَيْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ رَاَيْتُـهُـمْ لِىْ سَاجِدِيْنَ : ترجمہ کنزالعرفان: جس وقت یوسف نے اپنے باپ سے کہا اے باپ میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو خواب میں دیکھا کہ وہ مجھے سجدہ کر رہے ہیں۔

آیت نمبر (3)پارہ 12 سورۃ یوسف آیت 4:اِذْ قَالُوْا لَيُوْسُفُ وَاَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰٓى اَبِيْنَا مِنَّا وَنَحْنُ عُصْبَةٌ ؕ اِنَّ اَبَانَا لَفِىْ ضَلَالٍ مُّبِيْنٍ :ترجمہ کنزالعرفان: جب انہوں نے کہا البتہ یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارا ہے حالانکہ ہم طاقتور جماعت ہیں، بے شک ہمارا باپ صریح غلطی پر ہے۔

آیت نمبر (4)پارہ 12 سورۃ یوسف آیت 8: اُقْتُلُوْا يُوْسُفَ اَوِ اطْرَحُوْهُ اَرْضًا يَّخْلُ لَكُمْ وَجْهُ اَبِيْكُمْ وَتَكُـوْنُـوْا مِنْ بَعْدِهٖ قَوْمًا صَالِحِيْنَ : ترجمہ کنزالعرفان:یوسف کو مار ڈالو یا کسی ملک میں پھینک دو تاکہ باپ کی توجہ اکیلے تم پر رہے اور اس کے بعد نیک آدمی ہو جانا۔(پارہ 12 سورۃ یوسف آیت 9:)


ىوں تو قرآن پاک مىں جاں بجا انبیاء کرام کے اوصاف موجود هىں اسى طرح قرآن پاک مىں حضرت ىوسف علیہ السلام کے قرآنى اوصاف موجود هىں

حضرت ىوسف علیہ السلام کا حسن :فَلَمَّا سَمِعَتْ بِمَكْرِهِنَّ اَرْسَلَتْ اِلَیْهِنَّ وَ اَعْتَدَتْ لَهُنَّ مُتَّكَاً وَّ اٰتَتْ كُلَّ وَاحِدَةٍ مِّنْهُنَّ سِكِّیْنًا وَّ قَالَتِ اخْرُ جْ عَلَیْهِنَّۚ-فَلَمَّا رَاَیْنَهٗۤ اَكْبَرْنَهٗ وَ قَطَّعْنَ اَیْدِیَهُنَّ وَ قُلْنَ حَاشَ لِلّٰهِ مَا هٰذَا بَشَرًاؕ-اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا مَلَكٌ كَرِیْمٌ(31) ترجمہ کنزالعرفان تو جب زلیخا نے ان کا چکروا سنا تو ان عورتوں کو بلا بھیجا اور ان کے لیے مسندیں تیار کیں اور ان میں ہر ایک کو ایک چھری دیدی اور یوسف سے کہا ان پر نکل آؤ جب عورتوں نے یوسف کو دیکھا اس کی بڑائی بولنے لگیں اور اپنے ہاتھ کاٹ لیے اور بولیں اللہ کو پاکی ہے یہ تو جنسِ بشر سے نہیں یہ تو نہیں مگر کوئی معزز فرشتہ۔

ىوسف علىہ السلام کی خوشبو:

آئىت نمبر 2 وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ اَبُوْهُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ ترجمہ کنزالعرفان جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی خوشبو پا تا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ گیا ۔(آئىت 93سوره ىوسف)

ىوسف علىہ اسلام کی پاکىزگى کی قرآن مىں گواہی: قَالَ هِیَ رَاوَدَتْنِیْ عَنْ نَّفْسِیْ وَ شَهِدَ شَاهِدٌ مِّنْ اَهْلِهَاۚ-اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ قُبُلٍ فَصَدَقَتْ وَ هُوَ مِنَ الْكٰذِبِیْنَ(26)وَ اِنْ كَانَ قَمِیْصُهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ فَكَذَبَتْ وَ هُوَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ(27)فَلَمَّا رَاٰ قَمِیْصَهٗ قُدَّ مِنْ دُبُرٍ قَالَ اِنَّهٗ مِنْ كَیْدِكُنَّؕ-اِنَّ كَیْدَكُنَّ عَظِیْمٌ(28)یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاٚ-وَ اسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِكِ ۚۖ-اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِـٕیْنَ(29) ترجمہ کنزالعرفان کہا اس نے مجھ کو لبھایا کہ میں اپنی حفاظت نہ کروں اور عورت کے گھر والوں میں سے ایک گواہ نے گواہی دی اگر ان کا کرتا آگے سے چرا ہے تو عورت سچی ہے اور انہوں نے غلط کہا۔ اور اگر ان کا کرتا پیچھے سے چاک ہوا تو عورت جھوٹی ہے اور یہ سچے۔ پھر جب عزیز نے اس کاکرتا پیچھے سے چرا دیکھا بولا بیشک یہ تم عورتوں کا چرتر ہے بیشک تمہارا چرتر بڑا ہے۔ اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بیشک تو خطاواروں میں ہے۔

ستاروں کا ىوسف علىہ السلام کو سجدہ کرنااِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4) ترجمہ کنزالعرفان یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔

ىوسف علىه اسلام کی دعا کا قبول هونا قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِۚ-وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ(33)فَاسْتَجَابَ لَهٗ رَبُّهٗ فَصَرَفَ عَنْهُ كَیْدَهُنَّؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ(34)ثُمَّ بَدَا لَهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ مَا رَاَوُا الْاٰیٰتِ لَیَسْجُنُنَّهٗ حَتّٰى حِیْنٍ(35)

ترجمہ کنزالعرفانیوسف نے عرض کی اے میرے رب مجھے قید خانہ زیادہ پسند ہے اس کام سے جس کی طرف یہ مجھے بلاتی ہیں اور اگر تو مجھ سے ان کا مکر نہ پھیرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہوں گا اور نادان بنوں گا۔تو اس کے رب نے اس کی سن لی اور اس سے عورتوں کا مکر پھیردیا بیشک وہی ہے سنتا جانتا ۔پھر سب کچھ نشانیاں دیکھ دکھا کر پچھلی مت انہیں یہی آئی کہ ضرور ایک مدت تک اسے قیدخانہ میں ڈالیں۔

ىوسف علىه السلام کا معاف کرنا قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـٕیْنَ(91)قَالَ لَا تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(92) ترجمہ کنزالعرفان بولے خدا کی قسم بے شک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اوربے شک ہم خطاوار تھے۔کہا آج تم پر کچھ ملامت نہیں اللہ تمہیں معاف کرے اور وہ سب مہربانوں سے بڑھ کر مہربان ہے۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہمىں حضرت ىوسف علیہ السلام کے نقش قدم پر چلنے کى توفیق عطا فرمائے. آمین

محترم قارئین کرام ! پچھلے ماہ کے "ماہنامہ فیضان مدینہ" میں ہم نے "حضرت ایوب علیہ السلام کی قرآنی صفات" کا تذکرہ سنا تھا ۔ آئیے اس ماہ ہم اللہ پاک کے بہت ہی پیارے اور برگزیدہ نبی حضرت یوسف علیہ السلام کا تذکرہ سنتے ہیں ۔ اللہ پاک نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو مختلف اوصاف سے سرفراز فرمایا اور ان کے مراتب کو تمام لوگوں سے بلند فرمایا ۔ ہمیں اللہ پاک کے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا کردہ اوصاف کو نہ صرف پڑھنا چاہیے بلکہ اپنی عملی زندگی میں ان کو نافذ(اپنانا) بھی کرنا چاہیے تا کہ ہم ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی دنیاوی و اخروی زندگی میں سرخرو ہو سکیں۔ آئیے سب سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام کے نام و نسب کے بارے میں جانتے ہیں ؛

آپ علیہ السلام کا نام مبارک: آپ علیہ السلام کا نام مبارک "یوسف" ہے اور یہ عجمی زبان کا لفظ ہے ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا نسب مبارک: آپ علیہ السلام کا نسب نامہ درج ذیل ہے؛ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ۔ آپ علیہ السلام حسب و نسب دونوں میں بہت اعلی ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان کی تین پشتوں میں بھی نبوت ہے کہ والد ، دادا اور پردادا منصب نبوت پر فائز تھے ۔

نبی کریم رؤف رحیم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا: "لوگوں میں بڑے شرف والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں کہ خود اللہ پاک کے نبی ہیں اور وہ نبی اللہ کے بیٹے اور وہ نبی اللہ کے بیٹے اور وہ خلیل اللہ کے بیٹے ہیں۔"(بخاری ،کتاب احادیث الانبیاء ،باب قول اللہ تعالی:واتخذاللہ ابراھیم خلیلا ،421/2 ، حدیث:3353 )

حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کے مقام و مرتبے کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے نام مبارک پر ایک پوری سورت موجود ہے۔ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے قرآن پاک میں کئی واقعات مذکور ہیں ، جن کو تفسیر صراط الجنان میں سورۂ یوسف کے تحت پڑھا جا سکتا ہے ۔

محترم قارئین کرام! آئیے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی قرآن پاک میں بیان کردہ چند صفات ملاحظہ فرمائیے؛

علم و حکمت: جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر آیا اور عمر مبارک امام ضحاک رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق بیس سال، سدی کےقول کے مطابق تیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض علما نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جانناعلم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: 22، 3 / 11-12)

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ

ترجمہ کنز الایمان: اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ بعض علماء کرام نے یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ اس آیت میں "حکم" سے مراد "درست بات" اور "علم" سے مراد "خوابوں کی تعبیر" ہے ۔ اور بعض نے فرمایا کہ "چیزوں کی حقیقتوں کو جاننا " علم اور "علم کے مطابق عمل کرنا" حکمت ہے ۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو علم لدنی بخشا کہ استاد کے واسطے کے بغیر ہی علم و فقہ اور عمل صالح عنایت کیا۔

پاک دامنی (خیانت نہ کرنے والے): اللہ پاک نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جن اوصاف سے آراستہ فرمایا ان میں سے آپ کا ایک وصف پاک دامنی بھی ہے ۔ جس کو قرآن پاک نے بہت احسن انداز میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کے پاک دامنی کی گواہ قران مجید میں بھی مذکور ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ذٰلِكَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ كَیْدَ الْخَآىٕنِیْنَ ترجمہ کنز الایمان:یوسف نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہ کی اور اللہ دغا بازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا اَخلاقی خیانت انتہائی مذموم وصف ہے اس سے ہر ایک کو بچنا چاہئے اور اخلاقی امانتداری ایک قابل تعریف وصف ہے جسے ہر ایک کو اختیار کرنا چاہئے۔اللہ تعالی ہمیں اخلاقی خیانت کرنے سے محفوظ فرمائے اور اخلاقی طور پر بھی امانت دار بننے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔

وزن پورا کرنے والے اور مہمان نواز: قران پاک میں حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان کردہ اوصاف میں سے دو اوصاف درج ذیل آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے ہیں کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام وزن کو پورا کرنے والے بھی تھے اور مہمان نواز بھی تھے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ

ترجمہ کنز الایمان:کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ماپتا ہوں اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں ۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ناپ تول میں کمی بیشی نہ کریں بلکہ پورا پورا وزن کریں اور اسی طرح حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مہمان نوازی بھی کرنی چاہیے۔

حفیظ اور علیم: آپ علیہ الصلوۃ والسلام جن اعلی اوصاف سے متصف تھے ان میں سے ایک وصف حفیظ(حفاظت کرنے والے) ہے اور دوسرا وصف علیم(علم /جاننے والے) ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ ترجمہ کنز الایمان:یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔

آئیے اب آخر میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک مختصر واقعہ ملاحظہ فرمائیں ؛

اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ

ترجمہ کنز الایمان: یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔

مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب ذکر کیا گیا ہے ۔ آئیے وہ خواب سنتے ہیں ؛

حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب: مفسرین نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں ، ان سب نے آپ کو سجدہ کیا، حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب جمعہ کی رات کو دیکھا اور یہ رات شبِ قدر تھی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’خواب میں دیکھے گئے ستاروں کی تعبیر آپ علیہ السلام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل ہے اورمفسرسدی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے چاند سے آپ کی خالہ مراد ہیں۔ سجدہ کرنے سے مراد ایک قول کے مطابق تواضع کرنا اور فرمانبردار ہونا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقتاً سجدہ مراد ہے کیونکہ اس زمانہ میں سلام کی طرح سجدۂ تحیت یعنی تعظیم کا سجدہ بھی جائز تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی عمرشریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات سال اور سترہ سال عمر ہونے کے قول بھی کتابوں میں مذکور ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: 4، 3 / 3)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم


حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزند ؛حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پر پوتے ہیں؛ اپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے اہم واقعات قران پاک کی ایک مکمل سورت میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں اور اسی مناسبت سے اس سورت کا نام :سورۃ یوسف ؛رکھا گیا ہے اس کے علاوہ بھی چند صورتوں اور احادیث میں اپ علیہ السلام کا تذکرہ موجود ہے؟

حضرت یوسف علیہ السلام کا تعارف:آپ علیہ السلام کا نام مبارک : یوسف ؛ اور یہ عجمی زبان کا ایک لفظ ہے

نسب نامہ : آپ علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے _ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام آپ علیہ السلام حسب و نسب دونوں میں بہت اعلی ہے کہ خود بھی نبی ہیں اور ان کی تین پشتوں میں نبوت ہے کہ والد ؛ دادا : اور پردادا تینوں منصب نبوت پر سرفراز تھے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،، لوگوں میں بڑے شرف والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں کہ خود اللہ تعالی کے نبی اور نبی اللہ کے بیٹے اور وہ نبی اللہ کے بیٹے اور وہ خلیل اللہ کے بیٹے ہیں؟

( ولادت و پرورش) حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی زوجہ( لیا ) کے انتقال کے بعد ان کی بہن : راحیل ؛ سے نکاح فرمایا اور ان کے بدن سے حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو اپنی بہن کی گود میں دے دیا اور انہوں نے ہی اپ علیہ السلام کی پرورش کی پھر ان کے انتقال کے بعد اپ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اغوش تربیت میں اگئے۔

( حسن یوسف) آپ علیہ السلام انتہائی حسین و جمیل تھےاحادیث معراج میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپ علیہ السلام کے حسن کا اجمالی تذکرہ کیا ہے؛چنانچہ ارشاد فرمایا ؛ ( 1 ) پھر ہمارے لیے دروازہ کھولا گیا تو میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا، انہیں اللہ تعالی نے حسن کا نصف حصہ عطا فرمایا تھا،انہوں نے مجھے خوش امدید کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی،

(2) میں نے ایک شخص کو دیکھا جن کی صورت چودویں رات کے چاند کی صورت جیسی تھی،،میں نے کہا،،اے جبرائیل،،یہ کون ہے؟ عرض کی،،یہ اپ کے بھائی یوسف علیہ السلام ہے

(3) معراج کی رات میں نے تیسرے اسمان میں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو وہ ایسے شخص تھے جن کے حسن نے مجھے تعجب میں ڈال دیا،،وہ نوجوان اور اپنے حسن کے سبب لوگوں پر فضیلت رکھنے والے تھے

تمام انسانوں میں حضرت یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ حسین تھے،صرف ہمارے اقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ان سے بڑھ کر حسن عطا کیا گیا،، چنانچہ ایک شاعر نے فارسی میں کیا خوب کہا ہے،،

حسن یوسف ،دم عیسیٰ ، یدبیضاداری

آنچہ خوباں ہمہدارند تو تنہاداری

یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن ،،حضرت عیسی علیہ السلام کا پرندے کی مورت میں پھونک مار کر اسے زندہ کر دینا اور حضرت موسی علیہ السلام کا روشن ہاتھ سب معجزات اپ کو حاصل ہیں جو خوبیاں تمام انبیاء کو حاصل تھی وہ سب اے پیارے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم تنہا اپ کی ذات پاک میں موجود ہیں

( جوانی میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا علم و حکمت):جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر ایا تو اللہ تعالی نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی اس وقت عمر مبارک امام ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کے مطابق 20 سال،،اور سری کے قول کے مطابق 30 سال اور قلبی کے قول کے مطابق 18 اور 30 کے درمیان تھی،

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے

وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84) ترجمہ کنز الایمان، اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو ( سورۃ الانعام ایت نمبر 84 پارہ نمبر 7 )

تفسیر صراط الجنان : حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت کا تذکرہ کیا گیا اور اس کے ساتھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولادِ مبارک کا تذکرہ کیا ۔ جن کے اسماءِ کریمہ آیت میں بیان ہوئے یہ سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ سارے نبی ہوئے۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامقام: حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے یہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا کہ آپ کے بعد جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مبعوث ہوئے سب آپ ہی کی اولاد سے تھے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ‘‘ (عنکبوت:27) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔

تفسیرِ بغوی اور تفسیرِ خازن میں ہے ’’یُقَالُ اِنَّ اللہَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا بَعْدَ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ نَسْلِہٖ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جو نبی مبعوث فرمایا وہ ان کی نسل سے تھا۔ (بغوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 3 / 399-400، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 3 / 449)

تفسیرِ قرطبی میں ہے ’’لَمْ یَبْعَثِ اللہُ نَبِیًّا مِنْ بَعْدِ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ صُلْبِہٖ‘‘ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء ان کے صلب سے مبعوث فرمائے۔ (قرطبی، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 7 / 255، الجزء الثالث عشر) ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالی نے قران مجید میں ارشاد فرمایا ہے،، وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖؕ-حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًاؕ-كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ(34) ترجمۂ کنز الایمان : اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف روشن نشانیاں لے کر آئے تو تم ان کے لائے ہوئے سے شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے انتقال فرمایا تم بولے ہرگز اب اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا اللہ یونہی گمراہ کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا شک لانے والا ہے۔( پارہ نمبر 24 سورۃ المومن ایت نمبر 34 )

تفسیر صراط الجنان ،اس آیت میں خطاب اگرچہ فرعون اور اس کی قوم سے ہے لیکن مراد ان کے آباؤ اَجداد ہیں ( کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون اور اس کی قوم کے پاس رسول بن کر تشریف نہیں لائے تھے بلکہ ان کے آباؤ اَجداد کے پاس آئے تھے،) چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مصر والو! بیشک حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے تمہارے آباؤ اَجداد کے پاس حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ ان کے لائے ہوئے حق دین سے شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے انتقال فرمایا توتمہارے آباؤ اَجداد نے کہا: اب اللہ تعالیٰ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے گا۔ یہ بے دلیل بات تمہارے پہلے لوگوں نے خود گڑھی تاکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃ وَالسَّلَام کے بعد آنے والے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کریں اور انہیں جھٹلائیں، تو وہ کفر پر قائم رہے، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں شک کرتے رہے اور بعد والوں کی نبوت کے انکار کے لئے انہوں نے یہ منصوبہ بنالیا کہ اب اللہ تعالیٰ کوئی رسول ہی نہ بھیجے گا ۔ یاد رکھو کہ جس طرح تمہارے آباؤ اَجداد گمراہ ہوئے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو گمراہ کرتا ہے جو حد سے بڑھنے والا اور ان چیزوں میں شک کرنے والا ہو جن پر روشن دلیلیں شاہد ہیں ۔(خازن ، حم المؤمن ، تحت الآیۃ : 34، 4 / 72 ، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: 24، 8 / 181، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: 34، ص393، ملتقطاً)

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ میری کاوش کو قبول فرمائے اور حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے فیضان سے ہم سب کو مالا مال فرمائے امین بجاہل خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ۔اللہ تبارک و تعالی کی حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو امین ثم امین


حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑ پوتے تھے آپ کا نسب نامہ یہ ہے "یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم " آپ حسب و نسب دونوں میں بہت اعلٰی ہیں آپ خود بھی نبی تھے اور آپ کے والد، دادا اور پردادا یہ تینوں بھی منصبِ نبوت پر فائز تھے قرآن پاک میں ایک مکمل سورت " سورۂ یوسف " آپ کے نام پر رکھی گئی ہے.حضرت یوسف علیہ السلام کو اللّٰه تعالیٰ نے حسنِ ظاہری عطا فرمایا تھا اپنے حسن کے سبب حضرت یوسف علیہ السلام تمام لوگوں پر فضیلت رکھنے والے تھے.صرف ہمارے آقا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان سے بڑھ کر حسن عطا کیا گیا۔

خوابِ یوسف : ایک بار حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا جس کی خبر انہوں نے اپنے والد صاحب کو یوں دی، چنانچہ قرآن پاک پاک میں ہے: اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان : "یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔" ( پ 12، یوسف : 4)

حضرت یوسف علیہ السلام نے جب یہ خواب دیکھا تو اس وقت انکی عمر 12 سال تھی.نیز 7 اور 17 سال عمر ہونے کا قول بھی کتابوں میں مذکور ہے. حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت : حضرت یعقوب علیہ السلام نے بشارت دیتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام سے فرمایا : وَ كَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَ یُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اٰلِ یَعْقُوْبَ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰۤى اَبَوَیْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَؕ-اِنَّ رَبَّكَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌo ترجمۂ کنزالایمان : " اور اسی طرح تجھے تیرا رب چن لے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا اور تجھ پر اپنی نعمت پوری کرے گا اور یعقوب کے گھر والوں پر جس طرح تیرے پہلے دونوں باپ دادا ابراہیم اور اسحق پر پوری کی بیشک تیرا رب علم و حکمت والا ہے۔" ( پ 12، یوسف: 6)

امام فخرالدین رازی فرماتے ہیں اگر اس آیت میں یَجْتَبِیْکَ سے بلند درجات تک پہنچانا مراد لیا جائے تو اس صورت میں نعمت پوری کرنے سے مراد نبوت عطا فرمانا ہے. جوانی میں یوسف علیہ السلام کو عطائے علم و حکمت : جب یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کی پوری قوت و شباب پر پہنچے تو اللّٰه پاک نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی.امام ضحاک کے قول کے مطابق بیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان تھی قرآن پاک میں ہے: وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان : "اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔" (پ12،یوسف:22)

بعض علماء نے یہ بھی فرمایا ہیکہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض نے فرمایا کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جاننا علم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے.( بحوالہ خازن،یوسف،تحت الآیۃ:12/3,22)

حضرت یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کا بیان :حضرت یوسف علیہ اسلام انتہائی حسین و جمیل نوجوان تھے آپ کا حسن دیکھ کر عزیز مصر کی بیوی زلیخا کا آپ پر دل آگیا اس نے موقع پاکر حضرت یوسف علیہ سلام کو پھیلا نے کی کوشش کی اور مکان کے تمام دروازے بند کر کے آپ کو اپنی طرف دعوت دی حضرت یوسف علیہ السلام نے جب خود کو ہر طرف سے گھرا ہوا پایا تو للّٰه کی پناہ مانگی اور زلیخا کونصیحت کی.آپ انتہائی پاک دامن تھے آپ کی پاکدامنی کی گواہی رب تعالٰی نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہے:

وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(²) ترجمۂ کنزالایمان : "اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے ۔" (پ12، یوسف: 24 )

حضرت یوسف علیہ السلام پر احسانِ الٰہی : اللّٰه پاک نے حضرت یوسف علیہ السلام پر بہت سے احسان و انعام فرمائے ہیں جن میں سے 10 یہ ہیں:

( 1-4 ) آپ کو قتل ہونے سے محفوظ رکھا، کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا، مصر کی زمین میں ٹھکانہ دیا اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھایا جسکا ذکر قرآن پاک میں یوں ہے: وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاؕ-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o ترجمۂ کنزالایمان : "اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے رکھ شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔" (پ12،یوسف:21 )

( 6-5 ) آپ کو برائی اور بے حیائی سے محفوظ رکھا اور اپنے چنے ہوئے بندوں میں شمار فرمایا ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان : "اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے." (پ12،یوسف:24 )

( 10-7) قید خانے سے رہائی عطا فرمائی، بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنایا، مصر کی سرزمین میں اقتدار عطا فرماکر سب کچھ اُن کے تحتِ تصرف کردیا اور آپ کے لیے آخرت میں بہت زیادہ افضل و اعلٰی ثواب رکھا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْن(⁵⁶)وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَo ترجمۂ کنزالایمان:"اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے. اوربے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے." ( پ12، یوسف : 57،56)

حضرت یوسف علیہ السلام کی دعا : رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِۚ-فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ- اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-تَـوَفَّنِیْ مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان : " اے میرے رب بے شک تو نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا اے آسمانوں اور زمین کے بنانے والے تو میرا کام بنانے والا ہے دنیا اور آخرت میں مجھے مسلمان اٹھا اور ان سے ملا جو تیرے قربِ خاص کے لائق ہیں ۔" (پ13، یوسف :101)

اس آیت میں حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو اسلام کی حالت میں موت عطا ہونے کی دعا مانگی، ان کی یہ دعا دراصل امت کی تعلیم کے لئے ہے کہ وہ حسنِ خاتمہ کی دعا مانگتے رہیں ۔


حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کی دوسری بیوی راحیل بنت لابان کے بطن سے پیدا ہوئے۔آپ علیہ السلام انتہائی خوبصورت اور حسن وجمال کے پیکر اور صبر اور عفو درگزر کرنے والے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے آ پ علیہ السلام کو اپنا نبی منتخب فرمایا ۔

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(سورہ یوسف آ یت 4) ترجمۂ کنز الایمان:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔

تفسیر صراط الجنان:{اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰۤى اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَةٌؕ-اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ ﹰ(سورہ یوسف آیت8) ترجمۂ کنز الایمان:جب بولے کہ ضرور یوسف اور اس کا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ پیارے ہیں اور ہم ایک جماعت ہیں بیشک ہمارے باپ صراحۃً ان کی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (سورہ یوسف آیت22) ترجمۂ کنز الایمان:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔

یُوْسُفُ اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍۙ-لَّعَلِّیْۤ اَرْجِـعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُوْنَ(سورہ یوسف آیت46) ترجمۂ کنز الایمان:اے یوسف اے صدیق ہمیں تعبیر دیجئے سات فربہ گایوں کی جنہیں سات دُبلی کھاتی ہیں اور سات ہری بالیں اور دوسری سات سوکھی شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں۔

قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(سورہ یوسف آیت55) ترجمۂ کنز الایمان:یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں

انبیا عَلَیْہِمُ السَّلَام وہ انسان ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہےاور اُنہیں اللہ تعالیٰ مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے بھیجتا ہے۔ ان میں سے جونئی شریعت لائے انہیں رسول کہتے ہیں۔

اللہ پاک کے کئی انبیاء کرام علیہم السلام ان دنیا میں حق تعالی کا پیغام لے کر تشریف لائے انہیں میں سے ایک حضرت داؤد علیہ السلام بھی ہیں۔جس طرح قران کریم میں دیگر انبیاء کرام علیہم السلام اوصاف کا ذکر آیا ہے اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کا بھی تذکرہ قرآن پاک میں موجود ہے۔

سابقہ ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024 میں حضرت ایوب علیہ السلام کی صفات کے متعلق مضمون شائع ہوا اور اس ماہ میں حضرت یوسف علیہ السّلام کی چند صفات قراٰن کی روشنی میں بیان کی جا رہی ہیں۔ آپ بھی پڑھئے اور علم میں اضافہ کیجئے :

تعبیر الرؤیہ:اللہ عزوجل نےآپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کے وصف سےنوازا، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ
ترجمہ کنزالعرفان:اور تاکہ ہم اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے (سورہ یوسف :21)

علم و حکمت:اسی طرح اللہ عزوجل نےآپ علیہ السلام کو علم و حکمت کے وصف سےبھی نوازا ، جیسا کہ قران پاک میں ہے :وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَترجمہ کنزالعرفان:اور جب یوسف بھر پور جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں (سورہ یوسف :22)

1. حسن یوسف:اللہ پاک نے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد سب سے زیادہ حسن حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا فرمایا، ارشاد رب یوسف ہے:وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَؕ-قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ ترجمہ کنزالعرفان: اور وہ جس عورت کے گھر میں تھے اُس نے اُنہیں اُن کے نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی اور سب دروازے بند کردئیے اور کہنے لگی: آؤ ، (یہ) تم ہی سے کہہ رہی ہوں ۔ یوسف نے جواب دیا: (ایسے کام سے) اللہ کی پناہ۔ بیشک وہ مجھے خریدنے والا شخص میری پرورش کرنے والا ہے، اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔ بیشک زیادتی کرنے والے فلاح نہیں پاتے(سورہ یوسف :23)

تفسیر صراط الجنان میں اسی آیت کے لکھا ہے "حضرت یوسف علیہ السلام انتہائی حسین و جمیل تھے، جب زلیخا نے آپ علیہ السلام کے حسن و جمال کو دیکھا تو اس نے آپ علیہ السلام کے بارے میں لالچ کیا"

2. برائی اور بے حیائی سے محفوظ:

3. چنے ہوئے بندے:ارشاد باری تعالیٰ ہے:وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَاور بیشک عورت نے یوسف کا ارادہ کیا اوراگروہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا تووہ بھی عورت کا ارادہ کرتا۔ ہم نے اسی طرح کیاتاکہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں ،بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہے

اللہ پاک ہمیں انبیائے کرام علیہم السلام کی مبارک صفات کے صدقے نیکیاں کرنے اور گناہوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں فیضانِ انبیا سے مالا مال فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

حضرت یوسف علیہ السّلام اللہ تعالی کے جلیل القدر نبی ہیں۔ اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہیتے لخت جگر، حُسن کا منبع ، مصر کے بادشاہ اور اہل عزیمت کے لیے آپ کا جیل کاٹنا ہمیشہ کے لیے ابدی تمثیل بن چکا ہے۔ رب تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز میں مختلف صفات رکھی ہیں۔ پر انسان کو عقل جیسی صفت سے متصف فرما کر اسے کائنات میں امتیاز دیا ہے۔ پھر انسانوں میں بعض کو بعض فضلیت بخشی ہے۔ جن کو اعلی مقام عطا فرمایا ہے ان میں خاص صفات رکھی ہیں۔ جن کا ادراک ہمیں قرآن پاک و احادیث نبویہ کے نور علم سے حاصل ہوتا ہے۔ بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیھم السلام میں سے ایک نبی حضرت یوسف علیہ السلام کی جو صفات دنیا کی سب ethentic کتاب قرآن مجید میں بیان ہوئیں ہیں۔ ذیل میں ہم اسے بیان کرتے ہیں ۔

اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ السلام کے بارے میں مختلف زاویوں سے ذکر فرمایا ہے۔ لیکن ہمارا موضوع ان کی صفات بیان کرنا ہے۔ تو رب تعالیٰ آپکے بارے میں فرماتا ہے۔ قَالُـوْۤا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(90)قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـٕیْنَ(91) ترجمۂ کنز الایمان: بولے کیا سچ مچ آپ ہی یوسف ہیں کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بے شک اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ بولے خدا کی قسم بے شک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اوربے شک ہم خطاوار تھے۔

اس آیت میں آپ علیہ السلام کی صفت تقوی ، احسان کرنا، آپ خود انعام ہونے اور صبر کا بیان رب تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اس کی ساتھ ساتھ آپ کی ایک اہم صفت معاف کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ انسانی فطرت بن چکی ہے وہ اپنا بدلا ضرور لیتا ہے۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا۔ یہ معاف کرنا بغیر کسی جاہ و طلب کے تھا۔ ان کے معاف کرنے سے انھوں نے بھی اپنی خطا کے اعتراف کیا اور رب نے بھی ان کو معاف فرما دیا۔ اس کے آخر میں یہ بھی بیان فرمایا کہ آپ کو بقیہ بھائیوں پر رب تعالیٰ نے فضیلت بھی بخشی ہے۔

ایک اور مقام پر آپ کے بارے میں رب تعالیٰ فرماتا ہے۔ اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4)ترجمۂ کنز الایمان: یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔

اس آیت رب تعالیٰ نے آپ کو سچا خواب دیکھنے جیسی صفت کا ذکر فرمایا۔ کیونکہ نبی کو جو خواب اسکی بعثت سے پہلے آتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سچے ہوتے ہیں۔ دوسرا اس خواب کے ذریعے آپ کو سرداری جیسے اعلی عہدے سے بھی نوازا گیا۔ ساتھ ساتھ ان کے بھائی ان کو سجدہ بھی کر رہے تھے۔ جو کہ گزشتہ امتوں میں جائز تھا۔

مزید آپ کی پاکی  بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ یُوْسُفُ اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاٚ-وَ اسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِكِ ۚۖ-اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ الْخٰطِـٕیْنَ(29) ترجمۂ کنز الایمان: اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بیشک تو خطاواروں میں ہے۔

آیت کے پہلے میں فرمایا کہ آپ ان سے اعراض فرمائیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ حق پر ہیں۔ اور آپ کی یونسان شیان نہیں کہ آپ ان سے مباحثہ کریں۔ اس موقع پر جو الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر لگایا گیا تھا اس سے آپکی برات کا اعلان کیا گیا۔ اور حضرت زلیخا سے یہ فرمایا گیا کی وہ اپنی خطاوں کی معافی مانگیں۔ یہاں پر آپکی صفت معصومیت کا بیان ہے۔

حضرت یوسف علیہ السلام کی صفت صدق معبر کا بیان یوں فرمایا گیا ہے : یُوْسُفُ اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍۙ-لَّعَلِّیْۤ اَرْجِـعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُوْنَ(46) ترجمۂ کنز الایمان:اے یوسف اے صدیق ہمیں تعبیر دیجئے سات فربہ گایوں کی جنہیں سات دُبلی کھاتی ہیں اور سات ہری بالیں اور دوسری سات سوکھی شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں۔

قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاۚ-فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِیْ سُنْۢبُلِهٖۤ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ(47) ترجمۂ کنز الایمان:کہا تم کھیتی کرو گے سات برس لگاتار تو جو کاٹو اسے اس کی بال میں رہنے دو مگر تھوڑا جتنا کھالو۔ یہ آپ نے جو تعبیر بیان فرمائی وہ من و عن سچ ثابت ہوئی۔

وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(22) ترجمۂ کنز الایمان:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔

اس آیت میں رب العزت نے اعلان فرمایا کہ ہم نے آپ کو علم عطا فرمایا۔ نوجوانی کی عمر میں علم حاصل کرنا سب تقریباً انسانوں کا شیوہ ہے۔ مگر علم کا عطا ہونا صرف تقرب خدا ہونے کی علامت ہے۔ علم کے ساتھ ساتھ حکمت بھی عطا فرمائی جو کہ خیر کثیر ہے۔ وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَؕ-قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(23) ترجمۂ کنز الایمان:اور وہ جس عورت کے گھر میں تھا اس نے اسے لبھایا کہ اپنا آپا نہ روکے اور دروازے سب بند کردئیے اور بولی آؤ تمہیں سے کہتی ہوں کہا اللہ کی پناہ وہ عزیز تو میرا رب یعنی پرورش کرنے والا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا بیشک ظالموں کا بھلا نہیں ہوتا۔

عالم شباب میں کسی بشر کو دعوت گناہ دی جائے اس کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ حالانکہ کے مقام بھی ایسا ہو جہاں انسان کو انسانوں کا ڈر بھی نہ ہو۔ اور وہ اس وقت قدرت بھی رکھتا ہو۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام اس جگہ پر بھی محفوظ رہے۔ اور اپنے آپ کو روکے رکھا۔ یہاں سے پتا چلتا ہے وہ اللہ تعالی کی یاد میں ہر وقت مستغرق رہتے تھے۔

وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(24)ترجمۂ کنز الایمان:اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔

 تفسیر صراط الجنان: زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے برائی کاا رادہ کیا اور اگرحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق وہ بھی عورت کی طرف مائل ہو جاتے لیکن حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے رب تعالیٰ کی دلیل دیکھی اور اس فاسد ارادے سے محفوظ رہے اور وہ دلیل وبُرہان عِصْمت ِنبوت ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاکیزہ نُفوس کو برے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا ہے اور پاکیزہ، مُقَدّس اور شرافت والے اَخلاق پر ان کی پیدائش فرمائی ہے، اس لئے وہ ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو۔

اللہ تعالی سے دعا ہے ہمیں حضرت یوسف علیہ السلام کی سیرت پر چلنے اور انکی تعلیمات کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین


کفر و شرک ، گمراہی اور بد عملی کے ماحول میں لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر ایمان لانے ،شرک سے روکنے، ایمان لانے پر جنت کی بشارت اور کفر پر عذاب کی وعید سانے کیلئے اللہ تعالی نے اپنے مقرب بندوں کو نبوت و رسالت کا عظیم منصب عطا فرما کر مخلوق کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے مبعوث فرمایا ۔ انہی مقرب بندوں میں ایک حضرت یوسف علیہ السلام بھی ہیں۔

مختصر تعارف : حضرت یوسف علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے۔

یوسف بن اسحاق بن ابراهیم علیهم السلام آپ علیہ السلام حسب و نسب دونوں میں بہت اعلی ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان کی تینوں پشتین (والد، دادا اور پردادا ) بھی منصب نبوت پر سرفراز تھیں۔آپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے اہم واقعات قرآن پاک کی ایک مکمل سورت میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں اور اسی مناسب سے اس سورت کا نام سورہ یوسف رکھا گیا ہے۔

جوانی میں یوسف علیہ السلام کو عطائے علم و حکمت :جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کو پہنچے تو اللہ تعالی نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی ۔ قرآن مجید میں ہے: وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَترجمہ کنز العرفان :" اور جب یوسف بھر پور جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔(پ 12یوسف:22)

حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت : جب حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام سے اپنا خواب بیان کیا کہ گیارہ ستارے اور سورج اور چاند انہیں سجدہ کر رہے ہیں تو حضرت یعقوب علیہ السلام نے بشارت دیتے ہوئے فرمایا : جس طرح اس عظمت و شرافت والے خواب کی وجہ سے اللہ تعالی نے تیرا مقام بلند کیا اسی طرح تیرا رب عزوجل تمہیں، نبوت وبادشاہت یا اہم کاموں کے لئے منتخب فرمائے گا۔

قرآن مجید میں ہے : وَ كَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَ یُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اٰلِ یَعْقُوْبَ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰۤى اَبَوَیْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَؕ-اِنَّ رَبَّكَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ ترجمہ کنز العرفان: اور اسی طرح تیرا رب تمہیں منتخب فرمائے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھائے گا اور تجھ پر اور یعقوب کے گھر والوں پر اپنا احسان مکمل فرمائے گا جس طرح اس نے پہلے تمہارے باپ دادا ابراھیم اور اسحق پر اپنی نعمت مکمل فرمانی بیشک تیرارب علم والا ، حکمت والا ہے ۔ (پ 12 ، یوسف : 6)

آیت میں مذکور "تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ" سے خوابوں کی تعبیر نکالنا مراد ہے ۔ نعمت پورا کرنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نعمت کو اس طرح کامل کر دیا جائے کہ وہ ہر قسم کے نقصان سے محفوظ ہو اور انسان کے حق میں ایسی نعمت صرف نبوت ہی ہے۔

حضرت یعقوب علیہ السلام نے فرمایا :- جس طرح اس نے پہلے تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحق پر اپنی نعمت مکمل فرمائی ، یہ بات واضح ہے کہ وہ نعمت تامہ جس کی وجہ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسحق علیہ السلام کو باقی انسانوں سے امتیاز حاصل ہوا، وہ نبوت ہے، لہذا اس آیت میں تکمیل نعمت سے مراد نبوت ہے۔(دیکھئے: صراط الجنان جلد 4، صفحہ نمبر 527 /528 )

اللہ پاک کے چنے ہوئے بندے :آپ علیہ السلام کو اللہ تعالی نے اپنے برگذیدہ اور چنے ہوئے بندوں میں شمار فرمایاہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :- اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(24)ترجمہ کر العرفان - بیشک وہ ہمارے چنے ہوئےبندوں میں سے ہے ۔(پ 12، یوسف: 24)

محترم قارئین! حضرت یوسف علیہ السلام کے واقعے کو قرآن مجید میں احسن القصص فرمایا گیا ہے نیز اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کو کثیر حسن بھی عطا فرمایا ہے۔

ہمیں چاہیے کہ ہم انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت کا ذوق و شوق کے ساتھ مطالعہ کریں اور ان کی مبارک صفات و عادات کو اپنائیں تاکہ ہماری روح سے انبیاء کرام علیہم السلام کی محبت جھلکتی نظر آئے۔ (آمین)


اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا یوسف علیہ السلام کی شان اور آپ کی سیرت کے بارے قرآن کریم میں پوری ایک سورۃ نازل فرمائی ہے تاکہ آپ کی سیرت میں جو حکمتیں ، مواعظ، آداب اور دانائی کی باتیں ہیں تاکہ ان پر غور و فکر کیا جاسکے۔ اللہ تعالی نے آپ کو نبوت بھی عطاء فرمائی آپ علیہ السلام نے بہت صبر کیا آپ نے اپنے بچپن میں بہت ہی مصیبتیں اور تکلیفیں جھیلی اور اس پر صبر کیا اور پھر ایک وقت آیا کہ آپ کے بھائی آپ کے دربار میں حاضر ہوئے اور آپ سے مدد حاصل کی اور پھر ایک دودھ پیتے بچے نے آپ کی گواہی دی آئیے آپ علیہ اسلام کا تذکرہ خیر پڑھتے ہیں:

(1 ) سجدہ کرتے ہوئے دیکھا:اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4)سورہ یوسف، ترجمۂ کنز العرفان۔ یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا: اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

(2) آپ علیہ السلام کی حکمت۔ قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاۚ-فَمَا حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِیْ سُنْۢبُلِهٖۤ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا تَاْكُلُوْنَ(47)سورہ یوسف، ترجمۂ کنز العرفان۔ یوسف نے فرمایا: تم سات سال تک لگاتار کھیتی باڑی کرو گے تو تم جو کاٹ لو اسے اس کی بالی کے اندر ہی رہنے دو سوائے اس تھوڑے سے غلے کے جو تم کھالو۔

(3) آپ علیہ السلام بہت علم والے تھے۔ قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(55)سورہ یوسف، ترجمۂ کنز العرفان۔ یوسف نے فرمایا: مجھے زمین کے خزانوں پر مقرر کردو، بیشک میں حفاظت والا، علم والا ہوں۔

(4) ہم نیک لوگوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)سورہ یوسف، ترجمۂ کنز العرفان۔ اور ایسے ہی ہم نے یوسف کو زمین میں اقتدار عطا فرمایا، اس میں جہاں چاہے رہائش اختیار کرے، ہم جسے چاہتے ہیں اپنی رحمت پہنچا دیتے ہیں اور ہم نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتے۔

(5) اللہ پاک کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔ یٰبَنِیَّ اذْهَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَ اَخِیْهِ وَ لَا تَایْــٴَـسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِؕ-اِنَّهٗ لَا یَایْــٴَـسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰهِ اِلَّا الْقَوْمُ الْكٰفِرُوْنَ(87) سورہ یوسف، ترجمۂ کنز العرفان: اے بیٹو! تم جا ؤ اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگاؤ اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بیشک اللہ کی رحمت سے کافر لوگ ہی ناامید ہوتے ہیں ۔ اللہ پاک سے دعا ہیں کہ اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت مبارکہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ امین ثم امین


اللہ عزوجل نے حضرت یوسف علیہ السلام کو نبوت اور بادشاہت سے سرفراز فرمایا آپ علیہ السلام کو بہت سے علوم سے بھی سرفراز فرمایا اپ حسب و نسب دونوں میں بہت اعلی ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان کی تین پشتوں میں نبوت ہے کہ والد دادا اور پردادا تینوں منصب نبوت پر سرفراز تھے آپ خوابوں کی تعبیر کا علم بھی جانتے تھے اپ کی پاک دامنی کا عالم یہ ہے کہ خود رب غفار نے اپ کے پاک دامنی بیان فرمائی آپ نے کبھی سیر ہو کر نہیں کھایا اس لیے اس لیے نہ کھاتے کہ غریبوں کو بھول نہ جاؤں۔ آپ علیہ السلام کا مبارک تذکرہ قران پاک میں موجود ہے عمل کی نیت سے قرانی تذکرہ ملاحظہ فرمائیں۔ اللہ عز وجل کا آپ کو علم و حکمت عطا فرمانا :

آیت نمبر 1: وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(22) ترجمہ کنز العرفان:اور جب یوسف بھرپور جوانی کی عمر کو پہنچے تو ہم نے اسے حکمت اور علم عطا فرمایا اور ہم نیکوں کو ایسا ہی صلہ دیتے ہیں۔

آیت نمبر:-2 : وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَؕ-قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(23) ترجمہ کنز العرفان: اور وہ جس عورت کے گھر میں تھے اس نے انہیں ان کے نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی اور سب دروازے بند کر دیے اور کہنے لگی اؤ یہ تم سے کہہ رہی ہوں یوسف نے جب جواب دیا ایسے کام سے اللہ کی پناہ بے شک وہ مجھے خریدنے والا شخص میری پرورش کرنے والا ہے اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے بے شک زیادتی کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔ (پارہ 12 سورہ یوسف ایت نمبر 23)

اللہ عزوجل کے پسندیدہ بندے: وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(24) ترجمہ کنز العرفان: اور بے شک عورت نے یوسف کا ارادہ کیا اگر وہ اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا تو وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا ہم نے اسی طرح کیا تاکہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بے شک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے ہیں۔ (پارہ 12 سورہ یوسف ایت نمبر 24)

گناہ کی طرف مائل ہونے کے بجائے اپنے لیے قید خانے کو پسند کرنے والے: قَالَ رَبِّ السِّجْنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدْعُوْنَنِیْۤ اِلَیْهِۚ-وَ اِلَّا تَصْرِفْ عَنِّیْ كَیْدَهُنَّ اَصْبُ اِلَیْهِنَّ وَ اَكُنْ مِّنَ الْجٰهِلِیْنَ(33) ترجمہ کنزو عرفان:-

یوسف نے عرض کی اے میرے رب مجھے اس کام کی بجائے قید خانہ پسند ہے جس کی طرف یہ مجھے بلا رہی ہے اور اگر تم مجھ سے ان کا مکر و فریب نہ پھیرے گا تو میں ان کی طرف مائل ہو جاؤں گا اور میں نہ دانوں میں سے ہو جاؤں گا۔ (پارہ12 سورہ یوسف ایت نمبر 33)

اللہ عزوجل کا آپ کو نبوت اور بادشاہت کی بشارت فرمانا: وَ كَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَ یُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اٰلِ یَعْقُوْبَ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰۤى اَبَوَیْكَ مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَؕ-اِنَّ رَبَّكَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(6) ترجمہ کنز العرفان : اور اسی طرح تیرا رب تمہیں منتخب فرمائے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکالنا سکھائے گا اور تجھ پر اور یعقوب کے گھر والوں پر اپنا احسان مکمل فرمائے گا جس طرح اس نے پہلے تمہارے باپ دادا ابراہیم اور اسحاق پر اپنی نعمت مکمل فرمائی بے شک تیرا رب علم والا حکمت والا ہے ۔ (پارہ12 سورہ یوسف ایت نمبر6)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو عورتوں کا آپ علیہ السلام کو اپنی طرف بلانا اور اپ کا ان کی طرف مائل نہ ہونا اور گناہوں سے دور رہنا اور اللہ عزوجل کی پناہ مانگنا بہت عظیم کام ہے اللہ پاک ہمیں بھی گناہوں سے دور رکھے اور ان کی طرف مائل نہ ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وصحبہ وبارک وسلم