حضرت یوسف علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزند ؛حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پر پوتے ہیں؛ اپ علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے اہم واقعات قران پاک کی ایک مکمل سورت میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں اور اسی مناسبت سے اس سورت کا نام :سورۃ یوسف ؛رکھا گیا ہے اس کے علاوہ بھی چند صورتوں اور احادیث میں اپ علیہ السلام کا تذکرہ موجود ہے؟

حضرت یوسف علیہ السلام کا تعارف:آپ علیہ السلام کا نام مبارک : یوسف ؛ اور یہ عجمی زبان کا ایک لفظ ہے

نسب نامہ : آپ علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے _ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام آپ علیہ السلام حسب و نسب دونوں میں بہت اعلی ہے کہ خود بھی نبی ہیں اور ان کی تین پشتوں میں نبوت ہے کہ والد ؛ دادا : اور پردادا تینوں منصب نبوت پر سرفراز تھے نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،، لوگوں میں بڑے شرف والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں کہ خود اللہ تعالی کے نبی اور نبی اللہ کے بیٹے اور وہ نبی اللہ کے بیٹے اور وہ خلیل اللہ کے بیٹے ہیں؟

( ولادت و پرورش) حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی زوجہ( لیا ) کے انتقال کے بعد ان کی بہن : راحیل ؛ سے نکاح فرمایا اور ان کے بدن سے حضرت یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی ولادت ہوئی ۔ ولادت کے بعد حضرت یعقوب علیہ السلام نے یوسف علیہ السلام کو اپنی بہن کی گود میں دے دیا اور انہوں نے ہی اپ علیہ السلام کی پرورش کی پھر ان کے انتقال کے بعد اپ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اغوش تربیت میں اگئے۔

( حسن یوسف) آپ علیہ السلام انتہائی حسین و جمیل تھےاحادیث معراج میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے اپ علیہ السلام کے حسن کا اجمالی تذکرہ کیا ہے؛چنانچہ ارشاد فرمایا ؛ ( 1 ) پھر ہمارے لیے دروازہ کھولا گیا تو میں نے حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا، انہیں اللہ تعالی نے حسن کا نصف حصہ عطا فرمایا تھا،انہوں نے مجھے خوش امدید کہا اور میرے لیے دعائے خیر کی،

(2) میں نے ایک شخص کو دیکھا جن کی صورت چودویں رات کے چاند کی صورت جیسی تھی،،میں نے کہا،،اے جبرائیل،،یہ کون ہے؟ عرض کی،،یہ اپ کے بھائی یوسف علیہ السلام ہے

(3) معراج کی رات میں نے تیسرے اسمان میں حضرت یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو وہ ایسے شخص تھے جن کے حسن نے مجھے تعجب میں ڈال دیا،،وہ نوجوان اور اپنے حسن کے سبب لوگوں پر فضیلت رکھنے والے تھے

تمام انسانوں میں حضرت یوسف علیہ السلام سب سے زیادہ حسین تھے،صرف ہمارے اقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو ان سے بڑھ کر حسن عطا کیا گیا،، چنانچہ ایک شاعر نے فارسی میں کیا خوب کہا ہے،،

حسن یوسف ،دم عیسیٰ ، یدبیضاداری

آنچہ خوباں ہمہدارند تو تنہاداری

یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کا حسن ،،حضرت عیسی علیہ السلام کا پرندے کی مورت میں پھونک مار کر اسے زندہ کر دینا اور حضرت موسی علیہ السلام کا روشن ہاتھ سب معجزات اپ کو حاصل ہیں جو خوبیاں تمام انبیاء کو حاصل تھی وہ سب اے پیارے محبوب صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم تنہا اپ کی ذات پاک میں موجود ہیں

( جوانی میں حضرت یوسف علیہ السلام کو عطا علم و حکمت):جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر ایا تو اللہ تعالی نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی اس وقت عمر مبارک امام ضحاک رضی اللہ تعالی عنہ کے قول کے مطابق 20 سال،،اور سری کے قول کے مطابق 30 سال اور قلبی کے قول کے مطابق 18 اور 30 کے درمیان تھی،

جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے

وَ وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84) ترجمہ کنز الایمان، اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو ( سورۃ الانعام ایت نمبر 84 پارہ نمبر 7 )

تفسیر صراط الجنان : حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے حضرت نوح عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ہدایت کا تذکرہ کیا گیا اور اس کے ساتھ حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولادِ مبارک کا تذکرہ کیا ۔ جن کے اسماءِ کریمہ آیت میں بیان ہوئے یہ سب حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور یہ سارے نبی ہوئے۔

حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کامقام: حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو اللہ تعالٰی نے یہ مقام اور مرتبہ عطا فرمایا کہ آپ کے بعد جتنے بھی انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام مبعوث ہوئے سب آپ ہی کی اولاد سے تھے،چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ‘‘ (عنکبوت:27) ترجمۂ کنزُالعِرفان:اور ہم نے اس کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی۔

تفسیرِ بغوی اور تفسیرِ خازن میں ہے ’’یُقَالُ اِنَّ اللہَ لَمْ یَبْعَثْ نَبِیًّا بَعْدَ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ نَسْلِہٖ‘‘ کہا جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد جو نبی مبعوث فرمایا وہ ان کی نسل سے تھا۔ (بغوی، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 3 / 399-400، خازن، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 3 / 449)

تفسیرِ قرطبی میں ہے ’’لَمْ یَبْعَثِ اللہُ نَبِیًّا مِنْ بَعْدِ اِبْرَاہِیْمَ اِلَّا مِنْ صُلْبِہٖ‘‘ اللہ تعالٰی نے حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بعد تمام انبیاء ان کے صلب سے مبعوث فرمائے۔ (قرطبی، العنکبوت، تحت الآیۃ: 27، 7 / 255، الجزء الثالث عشر) ایک اور جگہ اللہ تبارک و تعالی نے قران مجید میں ارشاد فرمایا ہے،، وَ لَقَدْ جَآءَكُمْ یُوْسُفُ مِنْ قَبْلُ بِالْبَیِّنٰتِ فَمَا زِلْتُمْ فِیْ شَكٍّ مِّمَّا جَآءَكُمْ بِهٖؕ-حَتّٰۤى اِذَا هَلَكَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰهُ مِنْۢ بَعْدِهٖ رَسُوْلًاؕ-كَذٰلِكَ یُضِلُّ اللّٰهُ مَنْ هُوَ مُسْرِفٌ مُّرْتَابُ(34) ترجمۂ کنز الایمان : اور بیشک اس سے پہلے تمہارے پاس یوسف روشن نشانیاں لے کر آئے تو تم ان کے لائے ہوئے سے شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے انتقال فرمایا تم بولے ہرگز اب اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا اللہ یونہی گمراہ کرتا ہے اسے جو حد سے بڑھنے والا شک لانے والا ہے۔( پارہ نمبر 24 سورۃ المومن ایت نمبر 34 )

تفسیر صراط الجنان ،اس آیت میں خطاب اگرچہ فرعون اور اس کی قوم سے ہے لیکن مراد ان کے آباؤ اَجداد ہیں ( کیونکہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام فرعون اور اس کی قوم کے پاس رسول بن کر تشریف نہیں لائے تھے بلکہ ان کے آباؤ اَجداد کے پاس آئے تھے،) چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے مصر والو! بیشک حضر ت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے پہلے تمہارے آباؤ اَجداد کے پاس حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام روشن نشانیاں لے کر آئے تو وہ ان کے لائے ہوئے حق دین سے شک ہی میں رہے یہاں تک کہ جب انہوں نے انتقال فرمایا توتمہارے آباؤ اَجداد نے کہا: اب اللہ تعالیٰ ہرگز کوئی رسول نہ بھیجے گا۔ یہ بے دلیل بات تمہارے پہلے لوگوں نے خود گڑھی تاکہ وہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃ وَالسَّلَام کے بعد آنے والے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی تکذیب کریں اور انہیں جھٹلائیں، تو وہ کفر پر قائم رہے، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی نبوت میں شک کرتے رہے اور بعد والوں کی نبوت کے انکار کے لئے انہوں نے یہ منصوبہ بنالیا کہ اب اللہ تعالیٰ کوئی رسول ہی نہ بھیجے گا ۔ یاد رکھو کہ جس طرح تمہارے آباؤ اَجداد گمراہ ہوئے ،اسی طرح اللہ تعالیٰ ہر اس شخص کو گمراہ کرتا ہے جو حد سے بڑھنے والا اور ان چیزوں میں شک کرنے والا ہو جن پر روشن دلیلیں شاہد ہیں ۔(خازن ، حم المؤمن ، تحت الآیۃ : 34، 4 / 72 ، روح البیان، المؤمن، تحت الآیۃ: 24، 8 / 181، جلالین، غافر، تحت الآیۃ: 34، ص393، ملتقطاً)

اللہ تبارک و تعالی سے دعا ہے کہ میری کاوش کو قبول فرمائے اور حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے فیضان سے ہم سب کو مالا مال فرمائے امین بجاہل خاتم النبیین صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم ۔اللہ تبارک و تعالی کی حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بے حساب مغفرت ہو امین ثم امین