محمد فیصل فانی بدایونی (درجۂ
سابعہ جامعۃُ المدینہ پیراگون سٹی لاہور ، پاکستان)
حضرت یوسف علیہ
السّلام اللہ تعالی کے جلیل القدر نبی ہیں۔ اور حضرت یعقوب علیہ السلام کے چہیتے
لخت جگر، حُسن کا منبع ، مصر کے بادشاہ اور اہل عزیمت کے لیے آپ کا جیل کاٹنا ہمیشہ
کے لیے ابدی تمثیل بن چکا ہے۔ رب تعالیٰ نے کائنات کی ہر چیز میں مختلف صفات رکھی
ہیں۔ پر انسان کو عقل جیسی صفت سے متصف فرما کر اسے کائنات میں امتیاز دیا ہے۔ پھر
انسانوں میں بعض کو بعض فضلیت بخشی ہے۔ جن کو اعلی مقام عطا فرمایا ہے ان میں خاص
صفات رکھی ہیں۔ جن کا ادراک ہمیں قرآن پاک و احادیث نبویہ کے نور علم سے حاصل ہوتا
ہے۔ بنی اسرائیل کے انبیاء کرام علیھم السلام میں سے ایک نبی حضرت یوسف علیہ
السلام کی جو صفات دنیا کی سب ethentic کتاب قرآن مجید میں بیان ہوئیں ہیں۔ ذیل میں
ہم اسے بیان کرتے ہیں ۔
اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ
السلام کے بارے میں مختلف زاویوں سے ذکر فرمایا ہے۔ لیکن ہمارا موضوع ان کی صفات بیان
کرنا ہے۔ تو رب تعالیٰ آپکے بارے میں فرماتا ہے۔ قَالُـوْۤا ءَاِنَّكَ
لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ
عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ
اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(90)قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا
وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـٕیْنَ(91) ترجمۂ
کنز الایمان: بولے کیا سچ مچ آپ ہی یوسف ہیں کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی
بے شک اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا
اجر ضائع نہیں کرتا۔ بولے خدا کی قسم بے شک اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دی اوربے شک
ہم خطاوار تھے۔
اس آیت میں آپ علیہ السلام کی صفت تقوی ، احسان
کرنا، آپ خود انعام ہونے اور صبر کا بیان رب تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اس کی ساتھ ساتھ
آپ کی ایک اہم صفت معاف کرنے کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ انسانی فطرت بن چکی ہے وہ
اپنا بدلا ضرور لیتا ہے۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا۔
یہ معاف کرنا بغیر کسی جاہ و طلب کے تھا۔ ان کے معاف کرنے سے انھوں نے بھی اپنی
خطا کے اعتراف کیا اور رب نے بھی ان کو معاف فرما دیا۔ اس کے آخر میں یہ بھی بیان
فرمایا کہ آپ کو بقیہ بھائیوں پر رب تعالیٰ نے فضیلت بھی بخشی ہے۔
ایک اور مقام پر آپ کے بارے میں رب تعالیٰ
فرماتا ہے۔
اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ
كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4)ترجمۂ کنز الایمان: یاد کرو جب یوسف نے اپنے با
پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے
سجدہ کرتے دیکھا ۔
اس آیت رب تعالیٰ نے آپ کو سچا خواب دیکھنے جیسی
صفت کا ذکر فرمایا۔ کیونکہ نبی کو جو خواب اسکی بعثت سے پہلے آتے ہیں۔ وہ ہمیشہ
سچے ہوتے ہیں۔ دوسرا اس خواب کے ذریعے آپ کو سرداری جیسے اعلی عہدے سے بھی نوازا گیا۔
ساتھ ساتھ ان کے بھائی ان کو سجدہ بھی کر رہے تھے۔ جو کہ گزشتہ امتوں میں جائز
تھا۔
مزید آپ کی پاکی بیان کرتے ہوئے فرمایا۔ یُوْسُفُ
اَعْرِضْ عَنْ هٰذَاٚ-وَ اسْتَغْفِرِیْ لِذَنْۢبِكِ ۚۖ-اِنَّكِ كُنْتِ مِنَ
الْخٰطِـٕیْنَ(29) ترجمۂ کنز
الایمان: اے یوسف تم اس کا خیال نہ کرو اور اے عورت تو اپنے گناہ کی معافی مانگ بیشک
تو خطاواروں میں ہے۔
آیت کے پہلے میں
فرمایا کہ آپ ان سے اعراض فرمائیں۔ اسکا مطلب یہ ہے کہ آپ حق پر ہیں۔ اور آپ کی یونسان
شیان نہیں کہ آپ ان سے مباحثہ کریں۔ اس موقع پر جو الزام حضرت یوسف علیہ السلام پر
لگایا گیا تھا اس سے آپکی برات کا اعلان کیا گیا۔ اور حضرت زلیخا سے یہ فرمایا گیا
کی وہ اپنی خطاوں کی معافی مانگیں۔ یہاں پر آپکی صفت معصومیت کا بیان ہے۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی صفت صدق معبر کا بیان یوں
فرمایا گیا ہے : یُوْسُفُ
اَیُّهَا الصِّدِّیْقُ اَفْتِنَا فِیْ سَبْعِ بَقَرٰتٍ سِمَانٍ یَّاْكُلُهُنَّ
سَبْعٌ عِجَافٌ وَّ سَبْعِ سُنْۢبُلٰتٍ خُضْرٍ وَّ اُخَرَ یٰبِسٰتٍۙ-لَّعَلِّیْۤ
اَرْجِـعُ اِلَى النَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَعْلَمُوْنَ(46) ترجمۂ کنز الایمان:اے یوسف اے صدیق ہمیں تعبیر دیجئے
سات فربہ گایوں کی جنہیں سات دُبلی کھاتی ہیں اور سات ہری بالیں اور دوسری سات
سوکھی شاید میں لوگوں کی طرف لوٹ کر جاؤں شاید وہ آگاہ ہوں۔
قَالَ تَزْرَعُوْنَ سَبْعَ سِنِیْنَ دَاَبًاۚ-فَمَا
حَصَدْتُّمْ فَذَرُوْهُ فِیْ سُنْۢبُلِهٖۤ اِلَّا قَلِیْلًا مِّمَّا
تَاْكُلُوْنَ(47) ترجمۂ کنز الایمان:کہا
تم کھیتی کرو گے سات برس لگاتار تو جو کاٹو اسے اس کی بال میں رہنے دو مگر تھوڑا
جتنا کھالو۔ یہ آپ نے جو تعبیر بیان فرمائی وہ من و عن سچ ثابت ہوئی۔
وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا
وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(22) ترجمۂ کنز الایمان:اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا
ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔
اس آیت میں رب
العزت نے اعلان فرمایا کہ ہم نے آپ کو علم عطا فرمایا۔ نوجوانی کی عمر میں علم
حاصل کرنا سب تقریباً انسانوں کا شیوہ ہے۔ مگر علم کا عطا ہونا صرف تقرب خدا ہونے
کی علامت ہے۔ علم کے ساتھ ساتھ حکمت بھی عطا فرمائی جو کہ خیر کثیر ہے۔ وَ
رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ
الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَؕ-قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ
اَحْسَنَ مَثْوَایَؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(23) ترجمۂ کنز الایمان:اور وہ جس عورت کے گھر میں تھا
اس نے اسے لبھایا کہ اپنا آپا نہ روکے اور دروازے سب بند کردئیے اور بولی آؤ تمہیں
سے کہتی ہوں کہا اللہ کی پناہ وہ عزیز تو میرا رب یعنی پرورش کرنے والا ہے اس نے
مجھے اچھی طرح رکھا بیشک ظالموں کا بھلا نہیں ہوتا۔
عالم شباب میں
کسی بشر کو دعوت گناہ دی جائے اس کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہو جاتا ہے۔ حالانکہ
کے مقام بھی ایسا ہو جہاں انسان کو انسانوں کا ڈر بھی نہ ہو۔ اور وہ اس وقت قدرت
بھی رکھتا ہو۔ لیکن حضرت یوسف علیہ السلام اس جگہ پر بھی محفوظ رہے۔ اور اپنے آپ
کو روکے رکھا۔ یہاں سے پتا چلتا ہے وہ اللہ تعالی کی یاد میں ہر وقت مستغرق رہتے
تھے۔
وَ لَقَدْ
هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ
عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(24)ترجمۂ کنز الایمان:اور بیشک عورت نے اس کا
ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی
کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں
ہے۔
تفسیر
صراط الجنان: زلیخا نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے
برائی کاا رادہ کیا اور اگرحضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو انسانی
فطرت کے تقاضے کے مطابق وہ بھی عورت کی طرف مائل ہو جاتے لیکن حضرت یوسف عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے رب تعالیٰ کی دلیل دیکھی اور اس فاسد
ارادے سے محفوظ رہے اور وہ دلیل وبُرہان عِصْمت ِنبوت ہے، اللہ تعالیٰ
نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاکیزہ نُفوس کو
برے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا ہے اور پاکیزہ، مُقَدّس اور
شرافت والے اَخلاق پر ان کی پیدائش فرمائی ہے، اس لئے وہ ہر ایسے کام سے باز
رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو۔
اللہ تعالی سے دعا ہے ہمیں حضرت یوسف علیہ
السلام کی سیرت پر چلنے اور انکی تعلیمات کو عام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم
آمین