محترم قارئین کرام ! پچھلے ماہ کے "ماہنامہ فیضان مدینہ" میں ہم نے "حضرت ایوب علیہ السلام کی قرآنی صفات" کا تذکرہ سنا تھا ۔ آئیے اس ماہ ہم اللہ پاک کے بہت ہی پیارے اور برگزیدہ نبی حضرت یوسف علیہ السلام کا تذکرہ سنتے ہیں ۔ اللہ پاک نے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو مختلف اوصاف سے سرفراز فرمایا اور ان کے مراتب کو تمام لوگوں سے بلند فرمایا ۔ ہمیں اللہ پاک کے اپنے انبیاء کرام علیہم السلام کو عطا کردہ اوصاف کو نہ صرف پڑھنا چاہیے بلکہ اپنی عملی زندگی میں ان کو نافذ(اپنانا) بھی کرنا چاہیے تا کہ ہم ان کی پیروی کرتے ہوئے اپنی دنیاوی و اخروی زندگی میں سرخرو ہو سکیں۔ آئیے سب سے پہلے حضرت یوسف علیہ السلام کے نام و نسب کے بارے میں جانتے ہیں ؛

آپ علیہ السلام کا نام مبارک: آپ علیہ السلام کا نام مبارک "یوسف" ہے اور یہ عجمی زبان کا لفظ ہے ۔

حضرت یوسف علیہ السلام کا نسب مبارک: آپ علیہ السلام کا نسب نامہ درج ذیل ہے؛ یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم علیہم السلام ۔ آپ علیہ السلام حسب و نسب دونوں میں بہت اعلی ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان کی تین پشتوں میں بھی نبوت ہے کہ والد ، دادا اور پردادا منصب نبوت پر فائز تھے ۔

نبی کریم رؤف رحیم علیہ افضل الصلاۃ والتسلیم نے ارشاد فرمایا: "لوگوں میں بڑے شرف والے حضرت یوسف علیہ السلام ہیں کہ خود اللہ پاک کے نبی ہیں اور وہ نبی اللہ کے بیٹے اور وہ نبی اللہ کے بیٹے اور وہ خلیل اللہ کے بیٹے ہیں۔"(بخاری ،کتاب احادیث الانبیاء ،باب قول اللہ تعالی:واتخذاللہ ابراھیم خلیلا ،421/2 ، حدیث:3353 )

حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کے مقام و مرتبے کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ قرآن پاک میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے نام مبارک پر ایک پوری سورت موجود ہے۔ حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے قرآن پاک میں کئی واقعات مذکور ہیں ، جن کو تفسیر صراط الجنان میں سورۂ یوسف کے تحت پڑھا جا سکتا ہے ۔

محترم قارئین کرام! آئیے حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی قرآن پاک میں بیان کردہ چند صفات ملاحظہ فرمائیے؛

علم و حکمت: جب حضرت یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کی پوری قوت کو پہنچے اور شباب اپنی انتہا پر آیا اور عمر مبارک امام ضحاک رضی اللہ عنہ کے قول کے مطابق بیس سال، سدی کےقول کے مطابق تیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا ہے کہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور بعض علما نے فرمایا ہے کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جانناعلم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت ہے۔(خازن، یوسف، تحت الآیۃ: 22، 3 / 11-12)

چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے: وَ لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ

ترجمہ کنز الایمان: اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ بعض علماء کرام نے یوں بھی بیان فرمایا ہے کہ اس آیت میں "حکم" سے مراد "درست بات" اور "علم" سے مراد "خوابوں کی تعبیر" ہے ۔ اور بعض نے فرمایا کہ "چیزوں کی حقیقتوں کو جاننا " علم اور "علم کے مطابق عمل کرنا" حکمت ہے ۔

نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو علم لدنی بخشا کہ استاد کے واسطے کے بغیر ہی علم و فقہ اور عمل صالح عنایت کیا۔

پاک دامنی (خیانت نہ کرنے والے): اللہ پاک نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جن اوصاف سے آراستہ فرمایا ان میں سے آپ کا ایک وصف پاک دامنی بھی ہے ۔ جس کو قرآن پاک نے بہت احسن انداز میں بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت یوسف علیہ الصلاۃ والسلام کے پاک دامنی کی گواہ قران مجید میں بھی مذکور ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے: ذٰلِكَ لِیَعْلَمَ اَنِّیْ لَمْ اَخُنْهُ بِالْغَیْبِ وَ اَنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِیْ كَیْدَ الْخَآىٕنِیْنَ ترجمہ کنز الایمان:یوسف نے کہا یہ میں نے اس لیے کیا کہ عزیز کو معلوم ہوجائے کہ میں نے پیٹھ پیچھے اس کی خیانت نہ کی اور اللہ دغا بازوں کا مکر نہیں چلنے دیتا۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا اَخلاقی خیانت انتہائی مذموم وصف ہے اس سے ہر ایک کو بچنا چاہئے اور اخلاقی امانتداری ایک قابل تعریف وصف ہے جسے ہر ایک کو اختیار کرنا چاہئے۔اللہ تعالی ہمیں اخلاقی خیانت کرنے سے محفوظ فرمائے اور اخلاقی طور پر بھی امانت دار بننے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔

وزن پورا کرنے والے اور مہمان نواز: قران پاک میں حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کے بیان کردہ اوصاف میں سے دو اوصاف درج ذیل آیت مبارکہ میں بیان کیے گئے ہیں کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام وزن کو پورا کرنے والے بھی تھے اور مہمان نواز بھی تھے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اَلَا تَرَوْنَ اَنِّیْۤ اُوْفِی الْكَیْلَ وَ اَنَا خَیْرُ الْمُنْزِلِیْنَ

ترجمہ کنز الایمان:کیا نہیں دیکھتے کہ میں پورا ماپتا ہوں اور میں سب سے بہتر مہمان نواز ہوں ۔

لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم بھی ناپ تول میں کمی بیشی نہ کریں بلکہ پورا پورا وزن کریں اور اسی طرح حضرت یوسف علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت پر عمل کرتے ہوئے مہمان نوازی بھی کرنی چاہیے۔

حفیظ اور علیم: آپ علیہ الصلوۃ والسلام جن اعلی اوصاف سے متصف تھے ان میں سے ایک وصف حفیظ(حفاظت کرنے والے) ہے اور دوسرا وصف علیم(علم /جاننے والے) ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے: قَالَ اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ ترجمہ کنز الایمان:یوسف نے کہا مجھے زمین کے خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔

آئیے اب آخر میں حضرت یوسف علیہ السلام کا ایک مختصر واقعہ ملاحظہ فرمائیں ؛

اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ

ترجمہ کنز الایمان: یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔

مندرجہ بالا آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب ذکر کیا گیا ہے ۔ آئیے وہ خواب سنتے ہیں ؛

حضرت یوسف علیہ السلام کا خواب: مفسرین نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں ، ان سب نے آپ کو سجدہ کیا، حضرت یوسف علیہ السلام نے یہ خواب جمعہ کی رات کو دیکھا اور یہ رات شبِ قدر تھی۔ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ’’خواب میں دیکھے گئے ستاروں کی تعبیر آپ علیہ السلام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل ہے اورمفسرسدی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے چاند سے آپ کی خالہ مراد ہیں۔ سجدہ کرنے سے مراد ایک قول کے مطابق تواضع کرنا اور فرمانبردار ہونا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقتاً سجدہ مراد ہے کیونکہ اس زمانہ میں سلام کی طرح سجدۂ تحیت یعنی تعظیم کا سجدہ بھی جائز تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کی عمرشریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات سال اور سترہ سال عمر ہونے کے قول بھی کتابوں میں مذکور ہیں۔ (خازن، یوسف، تحت الآیۃ: 4، 3 / 3)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی سیرت پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق رفیق مرحمت فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم