محمد حمزہ
رضا (درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدینہ فیضان حسن و جمال مصطفیٰ لانڈھی کراچی ، پاکستان)
حضرت یوسف علیہ
السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزند حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت
ابراہیم علیہ السلام کے پڑ پوتے تھے آپ کا نسب نامہ یہ ہے "یوسف بن یعقوب بن
اسحاق بن ابراہیم " آپ حسب و نسب دونوں میں بہت اعلٰی ہیں آپ خود بھی نبی تھے
اور آپ کے والد، دادا اور پردادا یہ تینوں بھی منصبِ نبوت پر فائز تھے قرآن پاک میں
ایک مکمل سورت " سورۂ یوسف " آپ کے نام پر رکھی گئی ہے.حضرت یوسف علیہ
السلام کو اللّٰه تعالیٰ نے حسنِ ظاہری عطا فرمایا تھا اپنے حسن کے سبب حضرت یوسف
علیہ السلام تمام لوگوں پر فضیلت رکھنے والے تھے.صرف ہمارے آقا عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کو ان سے بڑھ کر حسن عطا کیا گیا۔
خوابِ یوسف :
ایک بار حضرت یوسف علیہ السلام نے خواب دیکھا جس کی خبر انہوں نے اپنے والد صاحب
کو یوں دی، چنانچہ قرآن پاک پاک میں ہے: اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ
یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ
رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ ترجمۂ
کنزالایمان : "یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ
تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ کرتے دیکھا ۔" ( پ 12، یوسف
: 4)
حضرت یوسف علیہ
السلام نے جب یہ خواب دیکھا تو اس وقت انکی عمر 12 سال تھی.نیز 7 اور 17 سال عمر
ہونے کا قول بھی کتابوں میں مذکور ہے. حضرت یعقوب علیہ السلام کی بشارت : حضرت یعقوب
علیہ السلام نے بشارت دیتے ہوئے حضرت یوسف علیہ السلام سے فرمایا : وَ
كَذٰلِكَ یَجْتَبِیْكَ رَبُّكَ وَ یُعَلِّمُكَ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِ وَ یُتِمُّ
نِعْمَتَهٗ عَلَیْكَ وَ عَلٰۤى اٰلِ یَعْقُوْبَ كَمَاۤ اَتَمَّهَا عَلٰۤى اَبَوَیْكَ
مِنْ قَبْلُ اِبْرٰهِیْمَ وَ اِسْحٰقَؕ-اِنَّ رَبَّكَ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌo ترجمۂ کنزالایمان : " اور اسی طرح تجھے تیرا
رب چن لے گا اور تجھے باتوں کا انجام نکا لنا سکھائے گا اور تجھ پر اپنی نعمت پوری
کرے گا اور یعقوب کے گھر والوں پر جس طرح تیرے پہلے دونوں باپ دادا ابراہیم اور
اسحق پر پوری کی بیشک تیرا رب علم و حکمت والا ہے۔" ( پ 12، یوسف: 6)
امام فخرالدین
رازی فرماتے ہیں اگر اس آیت میں یَجْتَبِیْکَ سے بلند درجات تک پہنچانا مراد لیا جائے تو اس صورت میں
نعمت پوری کرنے سے مراد نبوت عطا فرمانا ہے. جوانی میں یوسف علیہ السلام کو عطائے
علم و حکمت : جب یوسف علیہ السلام اپنی جوانی کی پوری قوت و شباب پر پہنچے تو
اللّٰه پاک نے انہیں نبوت اور دین میں فقاہت عطا فرمائی.امام ضحاک کے قول کے مطابق
بیس سال اور کلبی کے قول کے مطابق اٹھارہ اور تیس کے درمیان تھی قرآن پاک میں ہے: وَ
لَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗۤ اٰتَیْنٰهُ حُكْمًا وَّ عِلْمًاؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی
الْمُحْسِنِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان
: "اور جب اپنی پوری قوت کو پہنچا ہم نے اسے حکم اور علم عطا فرمایا اور ہم ایسا
ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔" (پ12،یوسف:22)
بعض علماء نے یہ
بھی فرمایا ہیکہ اس آیت میں حکم سے درست بات اور علم سے خواب کی تعبیر مراد ہے اور
بعض نے فرمایا کہ چیزوں کی حقیقتوں کو جاننا علم اور علم کے مطابق عمل کرنا حکمت
ہے.( بحوالہ خازن،یوسف،تحت الآیۃ:12/3,22)
حضرت یوسف علیہ
السلام کی پاکدامنی کا بیان :حضرت یوسف علیہ اسلام انتہائی حسین و جمیل نوجوان تھے
آپ کا حسن دیکھ کر عزیز مصر کی بیوی زلیخا کا آپ پر دل آگیا اس نے موقع پاکر حضرت یوسف
علیہ سلام کو پھیلا نے کی کوشش کی اور مکان کے تمام دروازے بند کر کے آپ کو اپنی
طرف دعوت دی حضرت یوسف علیہ السلام نے جب خود کو ہر طرف سے گھرا ہوا پایا تو للّٰه
کی پناہ مانگی اور زلیخا کونصیحت کی.آپ انتہائی پاک دامن تھے آپ کی پاکدامنی کی
گواہی رب تعالٰی نے قرآن پاک میں بیان فرمائی ہے:
وَ لَقَدْ
هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ
عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(²⁴) ترجمۂ کنزالایمان : "اور بیشک عورت نے اس
کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم
نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے
بندوں میں ہے ۔" (پ12، یوسف: 24 )
حضرت یوسف علیہ
السلام پر احسانِ الٰہی : اللّٰه پاک نے حضرت یوسف علیہ السلام پر بہت سے احسان و
انعام فرمائے ہیں جن میں سے 10 یہ ہیں:
( 1-4 ) آپ کو
قتل ہونے سے محفوظ رکھا، کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا، مصر کی زمین میں
ٹھکانہ دیا اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھایا جسکا ذکر قرآن پاک میں یوں ہے: وَ
قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ
عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاؕ-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ
فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ
غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ o ترجمۂ کنزالایمان : "اور مصر کے جس شخص نے
اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے رکھ شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان
کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ
اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں
جانتے۔" (پ12،یوسف:21 )
( 6-5 ) آپ کو
برائی اور بے حیائی سے محفوظ رکھا اور اپنے چنے ہوئے بندوں میں شمار فرمایا ارشادِ
باری تعالیٰ ہے: وَ
لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ
لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ
oْ ترجمۂ کنزالایمان : "اور بیشک عورت نے اس
کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم
نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے
بندوں میں ہے." (پ12،یوسف:24 )
( 10-7) قید
خانے سے رہائی عطا فرمائی، بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنایا، مصر کی سرزمین میں
اقتدار عطا فرماکر سب کچھ اُن کے تحتِ تصرف کردیا اور آپ کے لیے آخرت میں بہت زیادہ
افضل و اعلٰی ثواب رکھا۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
كَذٰلِكَ
مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ
بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْن(⁵⁶)وَ لَاَجْرُ
الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَo ترجمۂ کنزالایمان:"اور یونہی ہم نے یوسف کو
اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم
نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے. اوربے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے
اور پرہیزگار رہے." ( پ12، یوسف : 57،56)
حضرت
یوسف علیہ السلام کی دعا : رَبِّ قَدْ اٰتَیْتَنِیْ مِنَ
الْمُلْكِ وَ عَلَّمْتَنِیْ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِۚ-فَاطِرَ السَّمٰوٰتِ
وَ الْاَرْضِ- اَنْتَ وَلِیّٖ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِۚ-تَـوَفَّنِیْ
مُسْلِمًا وَّ اَلْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ oْ ترجمۂ کنزالایمان : " اے میرے رب بے شک تو
نے مجھے ایک سلطنت دی اور مجھے کچھ باتوں کا انجام نکالنا سکھایا اے آسمانوں اور
زمین کے بنانے والے تو میرا کام بنانے والا ہے دنیا اور آخرت میں مجھے مسلمان اٹھا
اور ان سے ملا جو تیرے قربِ خاص کے لائق ہیں ۔" (پ13، یوسف :101)
اس آیت میں حضرت
یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے جو اسلام کی حالت میں موت عطا ہونے کی
دعا مانگی، ان کی یہ دعا دراصل امت کی تعلیم کے لئے ہے کہ وہ حسنِ خاتمہ کی دعا
مانگتے رہیں ۔