اللہ پاک نے انسانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے وقتاً فوقتاً بہت سے نبیوں اور رسولوں کو معبوث فرمایا انبیاء کرام کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوا. ان ہی انبیاء کرام میں سے ایک نبی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں.آپ علیہ السلام کا نام مبارک یوسف ہے اور یہ ایک عجمی زبان کا ایک لفظ ہے.

آپ علیہ السلام حضرت یعقوب علیہ السلام کے فرزند، حضرت اسحاق علیہ السلام کے پوتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پڑپوتے تھے، چنانچہ حضرت یوسف علیہ السلام کا نسب نامہ یہ ہے کہ: یوسف علیہ السلام بن یعقوب علیہ السلام بن اسحاق علیہ السلام بن ابراہیم علیہ السلام. آپ علیہ السلام حسب و نسب دونوں میں بہت اعلیٰ ہیں کہ خود بھی نبی ہیں اور ان کی تین پشتوں میں نبوت ہے کہ والد، دادا اور پردادا تینوں منصبِ نبوت پر سرفراز تھے.

حضرت یوسف علیہ السلام انتہائی حسین و جمیل تھے. حضرت یوسف علیہ السلام کی حیات مبارکہ کے اہم واقعات قرآن مجید کی ایک مکمل سورت میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں اور اسی مناسبت سے اس سورت کا نام سورۃ یوسف رکھا گیا ہے. ۔ اللہ پاک نے آپ علیہ السلام پر بہت سے احسان و انعام فرمائے جن میں سے چند یہ ہیں:

1 تا 4): آپ علیہ السلام کو قتل ہونے سے محفوظ رکھا، کنویں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا، مصر کی سر زمین میں ٹھکانہ دیا اور خوابوں کی تعبیر نکالنا سکھایا. اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتے ہیں: وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ ترجمۂ کنز العرفان: اور اسی طرح ہم نے یوسف کو زمین میں ٹھکانا دیا اور تاکہ ہم اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔ (سورۃ یوسف آیت نمبر 21)۔

5،6): آپ علیہ السلام کو برائی اور بے حیائی سے محفوظ رکھا اور اپنے چنے ہوئے بندوں میں شمار فرمایا. چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْن ترجمہ کنزالایمان: اور بیشک عورت نے اس کا ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں ہے۔ ( سورۃ یوسف آیت نمبر 24).

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں کہ: یعنی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام سے برائی کا ارادہ کیا اور اگر حضرت یوسف علیہ السلام اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی دلیل نہ دیکھ لیتے تو انسانی فطرت کے تقاضے کے مطابق وہ بھی عورت کی طرف مائل ہو جاتے لیکن حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے رب تعالیٰ کی دلیل دیکھی اور اس فاسد ارادے سے محفوظ رہے اور وہ دلیل وبُرہان عِصْمت ِنبوت ہے، اللہ تعالیٰ نے انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے پاکیزہ نُفوس کو برے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا ہے اور پاکیزہ، مُقَدّس اور شرافت والے اَخلاق پر ان کی پیدائش فرمائی ہے، اس لئے وہ ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ جس وقت زلیخا حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے درپے ہوئی اس وقت آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دیکھا کہ انگشت ِمبارک دندانِ اَقدس کے نیچے دبا کر اِجتناب کا اشارہ فرماتے ہیں۔

یاد رہے کہ ان آیات میں ذکر کئے گئے واقعے سے متعلق بحث کرنے سے بچنا ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کیونکہ معاملہ اللہ تعالیٰ کے پیارے نبی کی عصمت کا ہے اور بحث کرنا کہیں ایمان کی بربادی کا سبب نہ بن جائے.

یعنی جس طرح ہم نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو دلیل دکھائی اسی طرح ہم اس سے ہر برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں گے اور بیشک حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہمارے ان بندوں میں سے ہے جنہیں ہم نے نبوت کے لئے منتخب فرما لیا ہے اور دوسرے لوگوں پر انہیں اختیار کیا ہے. (تفسیر صراط الجنان، سورۃ یوسف، آیت نمبر 24).

7 تا 10): قید خانے سے رہائی عطا فرمائی، بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنایا، مصر کی سر زمین میں اقتدار عطا فرماکر سب کچھ ان کے تحت تصرف کردیا.

چنانچہ اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ ترجمہ کنزالایمان: اور یونہی ہم نے یوسف کو اس ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتے. ( سورۃ یوسف آیت نمبر 56).

11):آپ علیہ السلام کے لیے آخرت میں بہت افضل و اعلیٰ ثواب رکھا. ا رشاد باری تعالیٰ ہے: وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ ترجمہ کنزالایمان: اور بے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے. ( سورۃ یوسف آیت نمبر 57)۔

اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں کہ: آخرت کا اجر و ثواب ان کے لئے دنیا کے اجر سے بہتر ہے جو ایمان لائے اور پرہیز گار رہے۔ اس آیت سے ثابت ہوا کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے لئے آخرت کا اجر وثواب اس سے بہت زیادہ افضل و اعلیٰ ہے جو اللہ تعالیٰ نے اُنہیں دُنیا میں عطا فرمایا.

انبیاء کرام علیھم السلام کی زندگیاں ہمارے کے لیے بہترین عملی نمونہ ہیں ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے بچوں کو انبیاء کرام کی سیرت کے بارے میں بتاۓ تاکہ ان کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور ہمارے بچے ان سے محبت کرتے ہوۓ ان کی سنتوں پر عمل کرۓ۔ انبیاء کرام کی سیرت کے مطالعہ کے لیے مفتی محمد قاسم عطاری کی کتاب سیرت الانبیاء انتہاہی مفید ہے۔

دعا ہے اللہ پاک ہمیں انبیاء کرام کی سیرت کو پڑھنے اور پڑھ کر اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم