اشتیاق احمد عطّاری ( جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم
سادھوکی لاہور،پاکستان)
جس طرح اللہ
تعالیٰ نے قرآن مجید میں مختلف جگہوں پر مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کی صفات
اور ان کی قوموں کا ذکر فرمایا اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت یوسف علیہ
السلام کا بھی ذکر فرمایا اور ان کی صفات بیان فرمائی آئیے کچھ آیتیں مبارکہ آپ کے
سامنے رکھتا ہوں آپ بھی ملاحظہ فرما لیجئے۔
(1)۔
چاند اور سورج کا سجدہ کرنا: اِذْ
قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا
وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(4) ترجمۂ کنز الایمان:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے
کہا اے میرے باپ میں نے گیارہ تارے اور سورج اور چاند دیکھے انہیں اپنے لیے سجدہ
کرتے دیکھا ۔(حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 4)
تفسیر : یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور
چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔
(2)۔حضرت
یوسف علیہ السلام کا خزانوں کی حفاظت کرنا۔ قَالَ
اجْعَلْنِیْ عَلٰى خَزَآىٕنِ الْاَرْضِۚ-اِنِّیْ حَفِیْظٌ عَلِیْمٌ(55) ترجمۂ کنز الایمان:یوسف نے کہا مجھے زمین کے
خزانوں پر کردے بیشک میں حفاظت والا علم والا ہوں ۔
( حوالہ سورتہ
یوسف آیت نمبر 55)
تفسیر : حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام نے بادشاہ سے فرمایا: اپنی سلطنت کے تمام خزانے میرے سپرد کردے، بے شک
میں خزانے کی حفاظت کرنے والا اور ان کے مَصارف کو جاننے والا ہوں ۔ بادشاہ نے کہا
آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے زیادہ اس کا مستحق اور کون ہوسکتا ہے ؟
چنانچہ بادشاہ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے اس مطالبے کو
منظور کرلیا۔
(3)۔
اللہ پاک کا آپ علیہ السلام کو ملک پر قدرت بخشنا:كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی
الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ بِرَحْمَتِنَا مَنْ
نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)
ترجمۂ کنز الایمان:اور یونہی ہم نے یوسف کو اس
ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں
کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 56)
تفسیر : یعنی جس طرح ہم نے اندھیرے کنویں سے
نجات دے کر، قید خانے سے رہائی عطا فرما کر اور بادشاہ کی نگاہوں میں معزز بنا کر
حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام پر انعام فرمایا اسی طرح ہم نے حضرت یوسف
عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کومصر کی سر زمین میں اقتدار عطا فرمایا اور سب
کچھ اُن کے تحت ِتَصَرُّف ہے ۔
(4)۔
حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیض سے جنت کی خوشبو:وَ لَمَّا فَصَلَتِ الْعِیْرُ قَالَ
اَبُوْهُمْ اِنِّیْ لَاَجِدُ رِیْحَ یُوْسُفَ لَوْ لَاۤ اَنْ تُفَنِّدُوْنِ(94)ترجمہ کنزالایمان:جب قافلہ مصر سے جدا ہوا یہاں
ان کے باپ نے کہا بے شک میں یوسف کی خوشبو پا تا ہوں اگر مجھے یہ نہ کہو کہ سٹھ گیا
۔ ( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 94)
تفسیر: یعنی جب قافلہ مصر کی سرزمین سے نکلا اور
کنعان کی طرف روانہ ہوا تو حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنے بیٹوں
اور پوتوں یا پوتوں اور پاس والوں سے فرما دیا ’’بیشک میں یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کی قمیص سے جنت کی خوشبو پا رہا ہوں ۔ اگر تم مجھے کم سمجھ نہ کہو تو
تم ضرور میری بات کی تصدیق کرو گے۔
(5)۔
حضرت یوسف علیہ السلام کا اپنے بھائیوں سے ملنا:قَالُـوْۤا ءَاِنَّكَ لَاَنْتَ یُوْسُفُؕ-قَالَ
اَنَا یُوْسُفُ وَ هٰذَاۤ اَخِیْ٘-قَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَیْنَاؕ-اِنَّهٗ مَنْ یَّتَّقِ
وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(90) ترجمہ کنزالایمان: بولے کیا سچ مچ آپ ہی یوسف ہیں
کہا میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی بے شک اللہ نے ہم پر احسان کیا بے شک جو پرہیزگاری
اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتا۔( حوالہ سورتہ یوسف آیت نمبر 90)
تفسیر: حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے بھائیوں نے کہا ’’کیا واقعی آپ ہی یوسف ہیں ؟ حضرت یوسف عَلَیْہِ
الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا ’’ہاں ، میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے ،بیشک
اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا ، ہمیں جدائی کے بعد سلامتی کے ساتھ ملایا اور دین
و دنیا کی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ بے شک جو گناہوں سے بچے اور اللہ تعالیٰ کے
فرائض کی بجا آوری کرے، اپنے نفس کو ہر ا س بات یا عمل سے روک کر رکھے جسے اللہ تعالیٰ
نے اس پر حرام فرمایا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی نیکیوں کا ثواب اورا س کی اطاعت
گزاریوں کی جزا ضائع نہیں کرتا۔