قرآن پاک میں اللہ تعالی نے بہت سے انبیاء اکرام علیہ السلام کا تذکر ارشاد فرمایا ہے۔ ان میں سے بہت ہی پیارے نبی حضرت یوسف عليه السلام کا تذکرے کی سعادت حاصل کرتے ہیں:

آپ علیہ السلام اللہ کے بہت ہی پیارے نبی ہیں۔اپ کا ویسے تو تذکرہ سنتے رہتے ہیں اور آج ہم ان کا ذکر قرآن پاک کی روشنی میں: پڑھنے کی سعادت حاصل کرتے ہے۔اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ یٰۤاَبَتِ اِنِّیْ رَاَیْتُ اَحَدَ عَشَرَ كَوْكَبًا وَّ الشَّمْسَ وَ الْقَمَرَ رَاَیْتُهُمْ لِیْ سٰجِدِیْنَ(آیت4سورۃیوسف) ترجمۂ کنز العرفان:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا: اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔ ( تفسیر صراط الجنان)

{اِذْ قَالَ یُوْسُفُ لِاَبِیْهِ:یاد کرو جب یوسف نے اپنے با پ سے کہا۔} یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ، آپ اپنی قوم کے سامنے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی وہ بات بیان کریں جو انہوں نے اپنے باپ حضرت یعقوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہی کہ اے میرے باپ! میں نے گیارہ ستاروں اور سورج اور چاند کو دیکھا ، میں نے انہیں اپنے لئے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا۔

(حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا خواب) مفسرین نے یہ واقعہ یوں بیان کیا ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے خواب دیکھا کہ آسمان سے گیارہ ستارے اترے اور ان کے ساتھ سورج اور چاند بھی ہیں ، ان سب نے آپ کو سجدہ کیا، حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے یہ خواب جمعہ کی رات کو دیکھا اور یہ رات شبِ قدر تھی۔ حضرت قتادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’خواب میں دیکھے گئے ستاروں کی تعبیرآپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے گیارہ بھائی ہیں اور سورج آپ کے والد اور چاند آپ کی والدہ ہیں۔ آپ کی والدہ ماجدہ کا نام راحیل ہے اورمفسرسدی کا قول ہے کہ چونکہ راحیل کا انتقال ہوچکا تھا اس لئے چاند سے آپ کی خالہ مراد ہیں۔ سجدہ کرنے سے مراد ایک قول کے مطابق تواضع کرنا اور فرمانبردار ہونا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ حقیقتاً سجدہ مراد ہے کیونکہ اس زمانہ میں سلام کی طرح سجدۂ تحیت یعنی تعظیم کا سجدہ بھی جائز تھا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی عمرشریف اس وقت بارہ سال کی تھی اور سات سال اور سترہ سال عمر ہونے کے قول بھی کتابوں میں مذکور ہیں۔

ایک اور ایت میں اللہ تعالی نے قران پاک میں ارشاد فرمایا لَقَدْ كَانَ فِیْ یُوْسُفَ وَ اِخْوَتِهٖۤ اٰیٰتٌ لِّلسَّآىٕلِیْنَ(آیت 7سورۃیوسف) ( ترجمۂ کنز العرفان) بیشک یوسف اور اس کے بھائیوں (کے واقعے) میں پوچھنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔

مزید اللہ تعالی قران پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔اِذْ قَالُوْا لَیُوْسُفُ وَ اَخُوْهُ اَحَبُّ اِلٰۤى اَبِیْنَا مِنَّا وَ نَحْنُ عُصْبَةٌؕ-اِنَّ اَبَانَا لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنِ ﹰ(آیت8سورہ یوسف) ( ترجمۂ کنز العرفان) یاد کرو جب بھائی بولے :بیشک یوسف اور اس کا سگا بھائی ہمارے باپ کو ہم سے زیادہ محبوب ہیں حالانکہ ہم ایک جماعت ہیں بیشک ہمارے والد کھلی محبت میں ڈوبے ہوئے ہیں ۔

ایک اور آیت میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے : وَ رَاوَدَتْهُ الَّتِیْ هُوَ فِیْ بَیْتِهَا عَنْ نَّفْسِهٖ وَ غَلَّقَتِ الْاَبْوَابَ وَ قَالَتْ هَیْتَ لَكَؕ-قَالَ مَعَاذَ اللّٰهِ اِنَّهٗ رَبِّیْۤ اَحْسَنَ مَثْوَایَؕ-اِنَّهٗ لَا یُفْلِحُ الظّٰلِمُوْنَ(آیت23سورۃ یوسف)

( ترجمۂ کنز العرفان) اور وہ جس عورت کے گھر میں تھے اُس نے اُنہیں اُن کے نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی اور سب دروازے بند کردئیے اور کہنے لگی: آؤ ، (یہ) تم ہی سے کہہ رہی ہوں ۔ یوسف نے جواب دیا: (ایسے کام سے) اللہ کی پناہ۔ بیشک وہ مجھے خریدنے والا شخص میری پرورش کرنے والا ہے، اس نے مجھے اچھی طرح رکھا ہے۔ بیشک زیادتی کرنے والے فلاح نہیں پاتے۔( تفسیر صراط الجنان)

اس آیت اور ا س کے بعد والی آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی انتہائی پاکدامنی بیان فرمائی ہے، آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام انتہائی حسین و جمیل تھے، جب زلیخا نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے حسن و جمال کو دیکھا تو اس نے آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بارے میں لالچ کیا۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام چونکہ اسی گھر میں رہائش پذیر تھے جہاں زلیخا رہتی تھی، اس لئے زلیخا نے موقع پاکر حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ان کے مُقَدّس نفس کے خلاف پھسلانے کی کوشش کی تا کہ وہ اس کے ساتھ مشغول ہو کر اس کی ناجائز خواہش کو پورا کریں۔زلیخا کے مکان میں یکے بعد دیگرے سات دروازے تھے، زلیخا نے ساتوں دروازے بند کر کے حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سے کہا ’’میری طرف آؤ ،یہ میں تم ہی سے کہہ رہی ہوں۔ حضرت یوسف عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے ا س کی بات سن کر فرمایا’’میں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں اور اسی سے اپنی حفاظت کا طلبگار ہوں کہ وہ مجھے اس قباحت سے بچائے جس کی تو طلب گار ہے۔ بے شک عزیز مصر قطفیر میری پرورش کرنے والا ہے اور اس نے مجھے رہنے کے لئے اچھی جگہ دی ہے اس کا بدلہ یہ نہیں کہ میں اس کے اہلِ خانہ میں خیانت کروں ، جو ایسا کرے وہ ظالم ہے۔

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ نیکی کا بدلہ نیکی ہی ہونا چاہیے اور اپنے مربی کا احسان ماننا انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کا طریقہ ہے۔

اللہ تعالی ہمیں بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے