حافظ محمد احمد عطاری (درجۂ خامسہ جامعۃ المدینہ شاہ عالم
مارکیٹ لاہور، پاکستان)
حضرت یوسف علیہ
السلام کا اِجمالی ذکرِ خیر قرآنِ کریم میں تین مقامات پر ہے سورهِ انعام، سورہِ
مؤمن اور آپ علیہ السلام کا تفصیلی ذکر وہ سورہِ یوسف میں ہے.آئیے اب ہم آپ علیہ
السلام کی قرآنی صِفات کا ذکر کرتے ہیں. اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد فرماتا
ہے :وَ
وَهَبْنَا لَهٗۤ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَؕ-كُلًّا هَدَیْنَاۚ-وَ نُوْحًا هَدَیْنَا
مِنْ قَبْلُ وَ مِنْ ذُرِّیَّتِهٖ دَاوٗدَ وَ سُلَیْمٰنَ وَ اَیُّوْبَ وَ یُوْسُفَ
وَ مُوْسٰى وَ هٰرُوْنَؕ-وَ كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ(84)ترجمہ کنز الایمان :اور ہم نے انہیں اسحق اور یعقوب
عطا کیے ان سب کو ہم نے راہ دکھائی اور ان سے پہلے نوح کو راہ دکھائی اور اس کی
اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور ہم ایسا
ہی بدلہ دیتے ہیں نیکوکاروں کو۔ (پارہ 7،سورة الأنعام، آیت 84)
اس آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو اُن کے زمانے میں تمام
جہان والوں پر فضیلت بخشی ،آپ علیہ السلام کو ہدایت و صلاحیت عطا فرمائی اور آپ علیہ
السلام کو صراطِ مستقیم کی طرف ہدایت بخشی.
وہ مقام جس میں آپ علیہ السلام کا تفصیلی ذکر ہے
کہ ارشادِ خُدا وندی ہے :وَ قَالَ الَّذِی اشْتَرٰىهُ مِنْ
مِّصْرَ لِامْرَاَتِهٖۤ اَكْرِمِیْ مَثْوٰىهُ عَسٰۤى اَنْ یَّنْفَعَنَاۤ اَوْ
نَتَّخِذَهٗ وَلَدًاؕ-وَ كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِ٘-وَ لِنُعَلِّمَهٗ
مِنْ تَاْوِیْلِ الْاَحَادِیْثِؕ-وَ اللّٰهُ غَالِبٌ عَلٰۤى اَمْرِهٖ وَ لٰـكِنَّ اَكْثَرَ
النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ(21)ترجمہ
کنز الایمان :اور مصر کے جس شخص نے اسے خریدا وہ اپنی عورت سے بولا انہیں عزت سے
رکھ شاید ان سے ہمیں نفع پہنچے یا ان کو ہم بیٹا بنالیں اور اسی طرح ہم نے یوسف کو
اس زمین میں جماؤ دیا اور اس لیے کہ اسے باتوں کا انجام سکھائیں اور اللہ اپنے کام
پر غالب ہے مگر اکثر آدمی نہیں جانتے۔(پارہ 12،سورہِ یوسف، آیت 21)
اس آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو قتل سے محفوظ رکھا. آپ
علیہ السلام کو کنواں سے سلامتی کے ساتھ باہر نکالا. آپ علیہ السلام کو مصر کی سر
زمین میں ٹھکانہ دیا اور اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کرنا سکھایا.
(سیرت الانبیاء ص418)
اللہ تعالٰی
نے آپ علیہ السلام کو بُرائی اور بے حیائی سے محفوظ رکھا اور آپ علیہ السلام کو
اپنے چُنے ہوئے بندوں میں شمار کیا جیسا کہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالٰی ارشاد
فرماتا ہے :وَ
لَقَدْ هَمَّتْ بِهٖۚ-وَ هَمَّ بِهَا لَوْ لَاۤ اَنْ رَّاٰ بُرْهَانَ رَبِّهٖؕ-كَذٰلِكَ
لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوْٓءَ وَ الْفَحْشَآءَؕ-اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِیْنَ(24)ترجمہ کنز الایمان :اور بیشک عورت نے اس کا
ارادہ کیا اور وہ بھی عورت کا ارادہ کرتا اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتا ہم نے یونہی
کیا کہ اس سے برائی اور بے حیائی کو پھیر دیں بیشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں
ہے. (پارہ 12،سورہِ یوسف، آیت 24)
اس آیتِ
مبارکہ میں جس دلیل کا ذکر ہوا وہ برہان عصمتِ نبوت ہے. اللہ تعالٰی نے انبیاءِکرام
علیھم السلام کے پاکیزہ نفوس کو بُرے اَخلاق اور گندے اَفعال سے پاک پیدا کیا
ہےاور پاکیزہ، مقدّس اور شرافت والے اَخلاق پر اُن کی پیدائش فرمائی ہے، اس لیے وہ
ہر ایسے کام سے باز رہتے ہیں جس کا کرنا منع ہو.
ایک روایت یہ
بھی ہے کہ جس وقت زُلیخا، حضرت یوسف علیہ السلام کے درپے ہوئی اُس وقت آپ علیہ
السلام نے اپنے والد ماجد حضرت یعقوب علیہ السلام کو دیکھا کہ حضرت یعقوب علیہ
السلام اپنے انگشتِ مبارک دِندانِ اَقدس کے نیچے دبا کر اجتناب کا اشارہ فرماتے ہیں.
(سیرت النبياء ص430)
اللہ تعالٰی
نے آپ علیہ السلام کو خوابوں کی تعبیر کرنا سکھایا تھا کہ آپ علیہ السلام قید خانے
کے ساتھیوں کے خواب کی تعبیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اے قید خانے کے دونوں ساتھیوں
تم میں ایک ساتھی بادشاہ کو شراب پلانے والا تو اپنے عہدے پر بحال کیا جائے گا اور
پہلے کی طرح بادشاہ کو شراب پلائے گا اور تین خوشے جو خواب میں بیان کیے گئے تھے
اس سے مراد تین دن ہیں، وہ اِتنے ہی دن قید خانے میں رہے گا پھر بادشاہ اُسے
بُلالے گا اور جہاں تک دوسرے یعنی شاہی باورچی کا تعلّق ہے تو اُسے سولی دی جائے گی
پھر پرندے اس کا سر کھا لیں گے(سیرت الانبیاء، ص440) جیسا کہ اللہ پاک نے قرآنِ کریم
میں اِس واقعہ کی طرف اشارہ فرمایا ہے :
یٰصَاحِبَیِ السِّجْنِ اَمَّاۤ اَحَدُكُمَا فَیَسْقِیْ
رَبَّهٗ خَمْرًاۚ-وَ اَمَّا الْاٰخَرُ فَیُصْلَبُ فَتَاْكُلُ الطَّیْرُ مِنْ
رَّاْسِهٖؕ-قُضِیَ الْاَمْرُ الَّذِیْ فِیْهِ تَسْتَفْتِیٰنِ(41)ترجمہ کنز الایمان : اے قید خانہ کے دونوں ساتھیو
تم میں ایک تو اپنے رب (بادشاہ)کو شراب پلائے گا رہا دوسرا وہ سُولی دیا جائے گا
تو پرندے اس کا سر کھائیں گے حکم ہوچکا اس بات کا جس کا تم سوال کرتے تھے۔(پارہ
12،سورہِ یوسف، آیت 41)
اسی سورہِ یوسف
میں آگے آپ علیہ السلام کا ذکرِ خیر ہوتا ہےکہ اللہ تعالٰی قرآنِ مجید میں ارشاد
فرماتا ہے : وَ
كَذٰلِكَ مَكَّنَّا لِیُوْسُفَ فِی الْاَرْضِۚ-یَتَبَوَّاُ مِنْهَا حَیْثُ یَشَآءُؕ-نُصِیْبُ
بِرَحْمَتِنَا مَنْ نَّشَآءُ وَ لَا نُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ(56)وَ
لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ(57) ترجمہ کنز الایمان : اور یونہی ہم نے یوسف کو اس
ملک پر قدرت بخشی اس میں جہاں چاہے رہے ہم اپنی رحمت جسے چاہیں پہنچائیں اور ہم نیکوں
کا نیگ ضائع نہیں کرتے۔ اوربے شک آخرت کا ثواب ان کے لیے بہتر جو ایمان لائے اور
پرہیزگار رہے۔(پارہ 13،سورہِ یوسف، آیت 56،57)
مذکورہ آیتِ
مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی نے آپ علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی عطا
فرمائی، بادشاہ کی نگاہوں میں آپ علیہ السلام کو معزّز بنایا، آپ علیہ السلام کو
مصر کی سرزمین میں اِقتدار عطا فرما کر سب کچھ اُن کے تحتِ تصرّف کر دیا اور اللہ
تعالٰی نے آپ علیہ السلام کے لیے آخرت میں بہت زیادہ افضل و اعلٰی ثواب رکھا.