1-وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴)(پ1،البقرۃ:34)ترجمہ کنزالعرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ابلیس کے علاوہ سب نے سجدہ کیا اس نے انکار کیا اور تکبر کیا اور کافر ہو گیا۔

تکبّر کی مذمّت:اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبّر ایک ایسا خطرناک عمل ہے کہ جو بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے جس طرح ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا اور یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السلام سے افضل ہے اور اس جیسے انتہائی عبادت گزار،فرشتوں کے استاد اور مقربِ بارگاہ الٰہی کو سجدہ کرنا حکمت کے خلاف ہے ،اپنے اس باطل عقیدے،حکم الٰہی سے انکار اور تعظیمِ نبی سے تکبّر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا اور بارگاہِ الٰہی میں مردود ٹھہرا اور قیامت تک کے لیے ذلت و رسوائی کا شکار ہو گیا ۔

حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سرورِ کائنات ﷺ نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن تکبر کرنے والے چیونٹیوں کی طرح آدمیوں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے،ہر طرف سے ذلت انہیں ڈھانپ لے گی ،انہیں جہنم کے قید خانے کی طرف لایا جائے گا جس کا نام بولس ہے ،آگ ان پر چھا جائے گی اور انہیں جہنمیوں کی پیپ اور خون پلایا جائے گا ۔

تکبّر سے متعلق حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس شخص کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبّر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔

اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم تکبر سے بچتی رہیں اور ہر روز جب اپنے بستر پر سونے کے لیے لیٹیں تو اپنے اعمال کا جائزہ کریں اور دیکھیں کہ ہم نے تکبر تو نہیں کیا! اگر خود کو تکبر میں مبتلا دیکھیں تو فوراً توبہ کر لیں اور معافی مانگ لیں۔

2-قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ(۲۳)

(پ8،الاعراف:23)ترجمہ کنزالعرفان:دونوں نے عرض کی:اے ہمارے رب ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی اور اگر تو نے ہماری مغفرت نہ فرمائی اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ضرور ہم نقصان والوں میں سے ہو جائیں گے۔

حضرت آدم علیہ السلام کے عمل میں مسلمانوں کے لیے تربیت :حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہے کہ جب ان سے کوئی گناہ ہو جائے تو وہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا اعتراف کریں،اللہ پاک سے مغفرت و رحمت کا انتہائی لجاجت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ پاک ان کا گناہ بخش دے اور ان پر رحم فرمائے۔

حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:مومن بندے سے جب کوئی گناہ ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے، پھر وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ کیا ہے! تو وہ جان لیتا ہے کہ اس سے نکلنے کی راہ توبہ اور استغفار کرنا ہے،لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی آدمی بھی شرم محسوس نہ کرے، کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ پاک کے بندوں میں سے کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے۔تمہارے جد اعلیٰ(حضرت آدم علیہ السلام) سے جب لغزش ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ پاک نے انہیں معاف فرمایا۔

3-وَ لَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِیْۤ اٰدَمَ وَ حَمَلْنٰهُمْ فِی الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ رَزَقْنٰهُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ وَ فَضَّلْنٰهُمْ عَلٰى كَثِیْرٍ مِّمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیْلًا۠(۷۰)ترجمہ کنزالعرفان:اور بے شک ہم نے اولادِ آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی اور تری میں سوار کیا اور ان کو ستھری چیزوں سے رزق دیا اور انہیں اپنی بہت سی مخلوق پر بہت سی برتری دی۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے اولادِ آدم کو اپنی کثیر مخلوق پر فضیلت دی یعنی انسان کو عقل ، علم،قوتِ گویائی،پاکیزہ صورت،معتدل قد و قامت عطا کیے گئے،جانوروں سے لے کر جہازوں تک کی سواریاں عطا فرمائیں ،نیز اللہ پاک نے انہیں دنیا و آخرت سنوارنے کی تدبیریں سکھائیں اور تمام چیزوں پر غلبہ عطا فرمایا۔اس کے علاوہ لاکھوں چیزیں اولادِ آدم کو عطا فرما کر اللہ پاک نے اسے عزت دی ہے اور انسان کو بقیہ تمام مخلوقات سے افضل بنایا ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:مومن اللہ پاک کے نزدیک فرشتوں سے زیادہ عزت رکھتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ فرشتے اللہ پاک کی بندگی پر مجبور ہیں، کیونکہ ان کی فطرت ہی یہ ہے، ان میں عقل تو ہے لیکن شہوت نہیں اور جانوروں میں شہوت ہے لیکن عقل نہیں،جبکہ آدمی میں شہوت و عقل دونوں ہیں۔تو جس نے عقل کو شہوت پر غالب کیا وہ فرشتوں سے افضل ہے اور جس نے شہوت کو عقل پر غالب کیا وہ جانوروں سے بد تر ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اللہ پاک کا شکر ادا کریں کہ اس نے ہمیں فرشتوں سے بھی افضل بنایا۔

4 -فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)ترجمہ کنزالعرفان: تو ہم نے فرمایا:اے آدم!بیشک یہ تیرا اور تیری بیوی کا دشمن ہے تو یہ ہر گز تم دونوں کو جنت سے نہ نکال دے ورنہ تو مشقت میں پڑ جائے گا بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بھوکا ہو گا اور نہ ننگا ہو گا اور یہ کہ نہ کبھی تو اس میں پیاسا ہو گا اور نہ تجھے دھوپ لگے گی۔

اس آیت سے معلوم ہوا کہ شیطان کا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرنا آپ علیہ السلام کے ساتھ اس دشمنی کی دلیل قرار دیاگیا ہے کہ جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السلام پر اللہ پاک کا انعام و اکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد اس کی دشمنی کا سبب تھا۔ اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے، وہ اس کی ہلاکت چاہتا ہے اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔

حسد سے بچنا چاہیے کیونکہ حدیث میں ہے :حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑی کو۔

وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-كَانَ مِنَ الْجِنِّ فَفَسَقَ عَنْ اَمْرِ رَبِّهٖؕ-اَفَتَتَّخِذُوْنَهٗ وَ ذُرِّیَّتَهٗۤ اَوْلِیَآءَ مِنْ دُوْنِیْ وَ هُمْ لَكُمْ عَدُوٌّؕ-بِئْسَ لِلظّٰلِمِیْنَ بَدَلًا(۵۰) ترجمہ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے،وہ جنوں میں سے تھا تو وہ اپنے رب کے حکم سے نکل گیا تو(اے لوگو!)کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں، ظالموں کے لیے کیا ہی برا بدلا ہے۔

اس آیت میں اللہ پاک نے لوگوں کو یہ سمجھایا کہ جس طرح ابلیس اللہ پاک کی نا فرمانی کر کے مردود ہوا، تم اس طرح نہ کرنا اور اس کی اطاعت و اتباع سے بچنا۔پھر ارشاد فرمایا:یاد کرو! جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ حضرت آدم علیہ السلام کی تعظیم کے طور پر انہیں سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے جو جنوں کے گروہوں سے تعلق رکھتا تھا اور ابلیس نے حکمِ الٰہی کے با وجود حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کیا بلکہ تکبر کا راستہ اختیار کیااور اپنے رب کے حکم سے نکل گیا تواے لوگو! کیا تم اسے اور اس کی اولاد کو میرے سوا دوست بناتے ہو اور ان کی اطاعت اختیار کرتے ہو اور وہ یوں کہ بجائے میری بندگی کے ان کی بندگی میں مبتلا ہوتے ہو!حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں اور جب وہ تمہارے دشمن ہیں تو تمہیں ان سے ہوشیار اور دور رہنا چاہیے نہ کہ تمہیں ان سے دوستی کرنی چاہیے اور یاد رکھو کہ شیطان،اس کی اولاد اور شیطان کے فرمانبردار سب ظالم ہیں اور ظالموں کے لیے بہت برا بدلہ ہے۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم شیطان کی پیروی کرنے کی بجائے اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری کریں،نیک خواتین کی صحبت اختیار کریں،شیطان مردود سے اللہ پاک کی پناہ مانگتی رہیں اور اس میں کسی طرح کی سستی اور غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:شیطان سے پناہ مانگنے میں غفلت نہ کرو، کیونکہ تم اگرچہ اسے دیکھ نہیں رہے لیکن وہ تم سے غافل نہیں۔

شیطان سے حفاظت کی دعا:حضرت جندب سے روایت ہے کہ نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: جو کوئی اپنے بستر پر جائے تو پڑھے:بسم اللہ اعوذباللہ من شیطان الرجیماللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان سے نصیحت حاصل کرنے اور اپنے گناہوں سے توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہِ خاتمِ النبیینﷺ