اللہ پاک کی بے شمار مخلوقات میں سے ایک مخلوق انبیاء کرام علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام بھی ہیں جو تمام مخلوقات میں عزت رفعت، عظمت، شرافت،صفات وکمالات، نورانیت ومعرفت کے اعتبار سے افضل اجمل اکمل احسن منصب پر فائز ہیں انہیں میں سے ایک نبی آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام بھی ہیں جن کی پیدائش پر فرشتوں نے رب سے عرض کی: اے اللہ پاک! کیا تو زمین میں اس کو نائب بنائے گا جو فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا حالانکہ ہم ہر وقت تیری تسبیح بیان کرتے ہیں رب کائنات نے اس کے جواب میں فرمایا: جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور تمام انسانوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے باپ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی تخلیق فرمائی جو ابو البشر کے لقب کا مصداق بنے۔

سب سے پہلے میں آپ کواس بات سے آگاہ کرتا چلوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر خیر فرمایا کسی نبی کا تفصیلاً اور کسی کا اجمالاً ذکر فرمایا لیکن میں آپ کے سامنے اس تحریر میں فقط آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے پانچ واقعات سے حاصل ہونے والی نصیحتوں کو ذکر کروں گا۔

(1)اللہ پاک نے حکم دیا تمام ملائکہ کو کہ وہ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(الاعراف:11)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا ذکر فرمایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے مقرب بندے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرو تو فرشتوں نے رب تعالیٰ کے حکم کو مانا اور ابلیس نے حکم نہ مانا اور وہ ذلیل و رسوا ہوا تو ہمیں اس آیت کریمہ سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ اللہ پاک کا حکم ہمیں ماننا چاہیے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی سے ہمیں بچتے رہنا چاہیے تاکہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر ہو!

(2)علم کی فضیلت: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ2، البقرۃ:31)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے اور بطور الہام آپ کو تمام اشیاء کے نام،کام صفات و خصوصیات اصولی علم اور صنعتیں سکھا دیں اور پھر فرشتوں سے فرمایا کہ تم اگر سمجھتے ہو کہ تم سب سے افضل ہو تو ان کے نام بتاؤ تو فرشتوں نے ان اشیاء کے ناموں کو نہ بتایا اور عرض کی کہ اے اللہ تو پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں علم سکھا دیا بیشک تو ہی علم والا حکمت والا ہے اس آیت کریمہ میں علم کی اہمیت،فضیلت،رفعت اور عظمت اجاگر کیا تو اس آیت کریمہ سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہیں کہ ہمیں علم دین حاصل کرتے رہنا چاہیے!

(3)ابلیس حسد کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کا دشمن بنا: علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہے: جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر وہ آپ کا دشمن بن گیا اس واقعے سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ جسے کسی سے حسد ہو جائے تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔( کتاب سیرت الانبیاء، بحوالہ صاوی الاعراف آیت 43)

(4)فرشتوں کا رب تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا اور ابلیس کا تکبر کرنا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(البقرۃ:34)

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السّلام کو تمام موجودات اور عالم روحانی اور جسمانی کا نمونہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصول و کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو کیونکہ اس میں آدم علیہ السّلام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ اَتَجْعَلُ فِیْهَا کی معذرت بھی ہے بہرحال تمام فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتے رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام سے افضل ہے اور اس جیسے انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقرب بارگاہ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار کرنے اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا!

ہمیں اس واقعے سے یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ تکبر ایسی بیکار اور خراب بیماری ہے جو بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتی ہے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ تکبر کرنے سے بچے!

(5)حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی رب تبارک و تعالیٰ سے توبہ کرنا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرۃ:37)اور ایک روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔

اس واقعے سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ اپنی لغزش اور خطاؤں کے بعد رب تبارک وتعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا چاہیے اور جس طرح حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد تو بہ کی تو ہمیں بدرجہ اولیٰ توبہ استغفار کرنا چاہیے۔


پہلی نصیحت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی اس میں مسلمانوں کے لیے یہ نصیحت ہےکہ ان سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اس کا اعتراف کریں اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت و رحمت کا انتہائی لجاجت کے ساتھ سوال کریں تاکہ اللہ تعالیٰ ان کے گناہ بخش دے اور ان پر رحم فرمائے حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مومن بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہوتا ہے تو وہ اپنے رب سے حیا کرتا ہے،پھر الحمدللہ وہ یہ جاننے کی کوشش کرتا ہے کہ اس سے نکلنے کی کیا راہ ہے تو وہ جان لیتا ہےکہ اس سے نکلنے کی راہ توبہ اور استغفار کرنا ہے لہٰذا توبہ کرنے سے کوئی شخص شرم محسوس نہ کرے کیونکہ اگر توبہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ کے بندوں میں سے کوئی بھی خلاصی اور نجات نہ پا سکے تمہارےجَدِّ اعلیٰ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے جب لغزش سرزد ہوئی تو توبہ کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں معاف فرمایا۔ (صراط الجنان سورۃ اعراف آیت نمبر 23)

دوسری نصیحت:حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے ایک نصیحت یہ بھی ملتی ہےکہ کسی شخص کو اپنی عبادت پر ناز نہیں کرنا چاہیے کیونکہ شیطان جب عابد تھا تو اگرچہ خدا کے علم میں وہ کافر تھا مگر اس وقت کی حالت کے لحاظ سے اس کو فرشتوں میں عزت دی گئی اور جب اس کا کفر ظاہر ہوا تب نکالا گیا۔( تفسیر نعیمی سورۃ بقرہ آیت نمبر 34)

تیسری نصیحت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے ایک یہ نصیحت ملتی ہے کہ اولاد باپ کی ہے اس سے اولاد کا نسب ہوتا ہے ماں سے نسب نہیں ہوتا یہ نصیحت (خلقکم من نفس واحدة) سے حاصل ہوئی(نفس واحدة) سے مراد باپ ہے اگر باپ سید ہو اور ماں غیر سید تو اولاد سید ہوگی اور اگر ماں سیدانی ہو مگر باپ سید نہ ہو تو اولاد بھی سید نہ ہوگی۔( تفسیر نعیمی سورۃ اعراف آیت نمبر 189)

چوتھی نصیحت: حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے ایک نصیحت یہ ملتی ہے کہ انسان کی بیوی انسان ہی ہو سکتی ہے جانور یا جن نہیں ہو سکتی یہ نصیحت (جعل منہا زوجہا) سے حاصل ہوئی کیونکہ زوج سے مراد بیوی ہےیوں ہی انسان عورت کا خاوند انسان ہی ہو سکتا ہے کوئی جانور یا جن نہیں ہو سکتا۔ (تفسیر نعیمی سورۃ اعراف آیت نمبر 189)


اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مختلف قوموں کی طرف نبی بھیجے، انبيائے کرام عليہم السّلام کے واقعات میں ہمارے لئے بہت سے درس و نصیحتیں ہیں، آئیے!حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے حاصل ہونے والی نصیحتیں پڑھ کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْ نَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔فرشتوں نے جو بات ظاہر کی تھی وہ یہ تھی کہ انسان فساد انگیزی اور خون ریزی کرے گا اورجو بات چھپائی تھی وہ یہ تھی کہ خلافت کے مستحق وہ خود ہیں اور اللہ تعالیٰ ان سے زیادہ علم و فضل والی کوئی مخلوق پیدا نہ فرمائے گا۔آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ فرشتوں کے علوم و کمالات میں زیادتی ہوتی ہے۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ: 33)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے شیطان مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام اورحضرت حوا رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ جنت میں رہو اور جہاں دل کرے بے روک ٹوک کھاؤالبتہ اِس درخت کے قریب نہ جانا۔شیطان نے انہیں وسوسہ ڈالا اورکہنے لگا کہ تمہیں تمہارے رب پاک نے اس درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤاوراس کے ساتھ شیطان نے قسم کھاکر کہا کہ میں تم دونوں کا خیر خواہ ہوں۔اس پر انہیں خیال ہوا کہ اللہ پاک کی جھوٹی قسم کون کہا سکتا ہے، اس خیال سے حضرت حوا رضی اللہ عنہانے اس میں سے کچھ کھایا پھر حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو دیا توانہوں نے بھی کھا لیا اور یہ خیال کیا کہ اللہ تعالیٰ کی ممانعت تحریمی نہ تھی بلکہ تنزیہی تھی یعنی حرام قرار دینے کیلئے نہ تھی بلکہ ایک ناپسندیدگی کا اظہار تھا۔یہاں حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہاد میں خطا ہوئی اور خطائے اجتہادی گناہ نہیں ہوتی۔چنانچہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ:35، 36)

فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے۔

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:

رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳)ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔

لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا ترجمۂ کنز الایمان: ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر فرشتوں نے بارگاہِ الٰہی میں اپنے عِجز کا اعتراف کیا اور اس بات کا اظہار کیا کہ ان کا سوال اعتراض کرنے کیلئے نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کیلئے تھا اور اب انہیں اِنسان کی فضیلت اور اس کی پیدائش کی حکمت معلوم ہوگئی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔اس آیت سے انسان کی شرافت اور علم کی فضیلت ثابت ہوتی ہے اور یہ بھی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف تعلیم کی نسبت کرنا صحیح ہے اگرچہ اس کو معلم نہ کہا جائے گا کیونکہ معلم پیشہ ور تعلیم دینے والے کو کہتے ہیں۔(تفسیر صراط الجنان، البقرہ:32)

یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ ترجمۂ کنز الایمان:اے یعقوب کی اولاد۔

اسراء کا معنیٰ عبد یعنی بندہ اور اِیل سے مراد اللہ تو اسرائیل کا معنیٰ ہوا عبداللہ یعنی اللہ کا بندہ۔یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے اور حضرت یعقوب عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کا لقب ہے۔(مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰) دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے وہ عہد مراد ہے جواللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ذریعے بنی اسرائیل سے لیاکہ میں آخری زمانے میں حضرت اسماعیل عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی اولاد میں ایک نبی کوبھیجنے والاہوں تو جس نےان کی پیروی کی اور اس نور کی تصدیق کی جسے وہ لے کرآئے تو میں ا س کے گناہ بخش دوں گا اور اسے جنت میں داخل کروں گااور اسے دگنا ثواب عطا کروں گا۔(جلالین،البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰، ص۸-۹،خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ:۴۰،۱/۴۸،ملتقطاً-تفسیر صراط الجنان، البقرہ، آیت 40)

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں قرآن پاک پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


انبيائے کرام عليہم السّلام کے واقعات میں ہمارے لئے بہت سے درس و نصیحتیں ہیں لہٰذا ان واقعات کو درس حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں۔یہاں حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے حاصل بونے والی چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں:

(1)حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال ہلاکت کا سبب ہے: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجده کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کئے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے يا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔

(2)تکبر کی مذمت:ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناه تکبر تھا۔حديث پاک میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔

(3)لمبی امیدوں سے نجات کا طریقہ:شیطان مردود کا بہت بڑا ہتھیار لمبی امیدیں دلانا ہے چنانچہ وہ لمبے عرصے تک زندہ رہنے کی سوچ انسان کے دل، دماغ میں بٹھا کر موت سے غافل، توبہ سے دور اور گناہوں میں مشغول رکھتا ہے، حتی کہ اسی غفلت میں اچانک موت آجاتی ہے اور گناہوں سے توبہ اور نیکی کرنے کی طاقت ہمیشہ کے لئے ختم ہو جاتی ہے۔اس کا حل موت،قبر اور آخرت کی یاد ہے۔

(4)تخلیقاتِ الٰہی میں خلاف شرع تبدیلیوں کا شرعی حکم: اللہ تعالیٰ کی پیدا کی ہوئی چیزوں میں خلاف شرع تبدیلیاں حرام ہیں اور ان سے بچنا لازم ہے جیسے لڑکیوں کا ابرووں کے بالوں کو خوبصورتی کے لئے باریک کرنا، چہرے وغیرہ پر سوئیوں کے ذریعے تل یا کوئی نشان ڈالنا، مرد یا عورت کا بدن پر ٹیٹو بنوانا، مختلف خوشی وغیرہ کے مواقع پر چہرے کو مختلف رنگوں سے بگاڑنا، لڑکوں کا اپنے کان چھیدنا، لڑکیوں کا سر کے بال لڑکوں جیسے چھوٹے چھوٹے کاٹنا اور مرد کا داڑھی منڈانا وغیرہ۔

(5)انبیاء کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام علیہم السّلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔


قرآن مجید میں جابجا رب کائنات نے اپنے بندوں کو نصیحت فرمائی ہے۔آج ہم قرآن مجید میں سب سے پہلے نبی حضرت سیدنا آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعے سے متعلق جو ہمیں سیکھنے کو ملتا ہے، جو نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، ان میں سے چند نصیحتوں کو زینتِ قِرطاس بنانے کی کوشش کریں گے، اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس علم کو ہمارے لیے علم نافع بنائے۔

(1)لاعلمی کا اظہار کرنا:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔(البقرۃ: 32)

حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے بعد جب رب العالمین نے فرشتوں سے پوچھا کہ ان اشیاء کے نام بتاؤ، تو فرشتوں نے ان کے نام معلوم نہ ہونے پر لاعلمی کا اظہار کیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کیلئے یہ نصیحت ہے کہ ہمیں کسی بات کا علم نہ ہو تو اس کے بارے میں لاعلمی (نہیں معلوم) کا صاف اظہار کر دیں۔لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات خود سے بیان نہ کی جائے۔

بعض لوگ اپنی شان و شوکت کو بڑہانے کے لیے مسائل کے درست جوابات معلوم نہ ہونے پر اپنی عقل کے مطابق جوابات دیتے ہیں تو ان لوگوں کو سوچنا چاہیے کہ ہمارے اس غلط جواب دینے سے دین اور سامنے والے بندے کا کتنا نقصان ہوگا۔

محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان پڑھیے اور بغیر علم کے فتویٰ دینے سے خود کو بچائیے۔جیسا کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے بِغیر علم کے فتویٰ دیا تو آسمان و زمین کے فِرِشتے اُس پر لعنت بھیجتے ہیں۔(کنزالعمال، 10/193، حدیث:29018)

سیدی اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:جھوٹا مسئلہ بیان کرناسخت شدیدہ کبیرہ ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد23)

مسائل کا جواب دینا مفتی کا کام ہے،اس لیے ہمیں چاہیے جب بھی کوئی مسئلہ دریافت کرے تو ہم فوراً دار الافتاء اہل سنت سے رابطہ کروائیں بجائے اس کے ہم خود مفتی بن جائیں۔

(2)تکبر سے بچو: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پارہ:01،سورۃالبقرہ،آیت:34)

اللہ پاک نے جب فرشتوں کو اور ابلیس کو حکم دیا کہ تم حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ کرو تو تمام فرشتوں نے رب العالمین کے اس حکم کو مانتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا۔اور سوائے ابلیس کے تمام فرشتے سجدے میں جھک گئے۔اور ابلیس نے وہاں غرور و تکبر کیا! اور کہا کہ میں اس (جناب آدم علیہ السّلام) کو کیوں سجدہ کروں جس کو مٹی سے بنایا گیا اور حالانکہ میں تو آگ سے بنایا گیا ہوں۔

ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر تھا۔حدیث مبارکہ میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانے اور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، حدیث: 265)

تکبر کبیرہ گناہوں میں سے ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔اس حدیث مبارکہ اور روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ تکبر کرنے والا دنیا میں بھی خسارے میں ہے اور آخرت میں بھی خسارے میں ہے۔اور یہ کبیرہ گناہ کرنے والوں میں سے ہے۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے آپ کو غرور و تکبر سے ہمیشہ بچائیں۔تکبر کرنا یہ شیطان کا کام ہے اور عاجزی و انکساری سے کام لینا یہ انبیائے کرام عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی مبارک صفت اور سنت ہے۔

(3)انبیاء کی گستاخی سے بچو: ارشادِ باری تعالیٰ ہے: وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ رَسُوْلَ اللّٰهِ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۱) ترجَمۂ کنز الایمان: اور وہ جو رسولُ اللہ کو ایذا دیتے ہیں ان کے لئے دردناک عذاب ہے۔(پ10، التوبۃ:61)

ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ایسے لوگوں پر لعنت فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:

اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ وَ اَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِیْنًا(۵۷) ترجَمۂ کنز الایمان:بے شک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے ان کے لیے ذلّت کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔(پ22، الاحزاب:57)

معلوم ہواکہ محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی گستاخی کرنے اور انہیں اذیّت پہنچانے والاآخرت میں دردناک عذاب کا مستحق ہے اوردنیا میں بھی اس کا انجام بھیانک ہوتا ہے۔

حضرت علیُّ المُرْتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ محبوب کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے ایک موئے مبارک کو پکڑ کر ارشاد فرمایا: جس شخص نے میرے ایک بال کو تکلیف دی بے شک اس نے مجھے تکلیف دی اور جس نے مجھے تکلیف دی اس نے اللہ پاک کو تکلیف دی اور جس نے اللہ پاک کو تکلیف دی اس پر زمین وآسمان کے بھرنے کے برابر خدا کی لعنت۔(کنزالعمال،کتاب الفضائل، باب فضائل النبی…الخ، 12/159، حدیث:35347)

اللہ پاک کے انبیا علیہم السلام کی گستاخی اتنا بڑا جرم ہے کہ جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے، ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔

محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کائنات کی سب سے مکرّم ومُعَظّم ہستی ہیں اور بارگاہِ الٰہی میں سب سے زیادہ مقبول و محبوب ہیں، ایسے میں اگر کوئی دُشْمنِ رسول، محبوبِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر طعنہ زنی کرے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ خالقِ کائنات پاک اس بات کو گوارا کرلے، وہ ہستی جنہیں حبیبِ خدا ہونے کا شرف حاصل ہو اس کے مُتَعَلِّق کسی بھی قسم کے نازیبا الفاظ استعمال کرنا یا انہیں کسی بھی طرح سے تکلیف پہنچانا، اللہ پاک کو ہرگز ہرگز پسند نہیں بلکہ ایسی جسارت کرنے والوں کو تو دردناک عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔

(4)پردہ کرنا: رب العالمین قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) ترجمۂ کنزالایمان: اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔(البقرہ: 35)

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ شیطان کے دھوکے کی وجہ سے انہوں نے اس ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا اور پھل کھاتے ہی ان کے پردے کے مقام بے پردہ ہوگئے اور وہ اسے چھپانے کیلئے ان پر پتے ڈالنے لگے۔اس وقت اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ کیا میں نے تمہیں اس درخت سے منع نہیں کیا تھا؟اور میں نے تم سے یہ نہ فرمایا تھا کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے؟ اس کے بعد حکمِ الٰہی ہوا کہ تم زمین پر اترجاؤ۔اب تمہاری اولادآپس میں ایک دوسرے کی دشمن ہوگی اور تم ایک خاص وقت تک زمین میں رہوگے۔(صراط الجنان، جلد 1، سورۂ بقرہ، آیت نمبر 35)

حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا جب آپ دونوں مبارک ہستیوں سے لباس جدا ہوا تو آپ دونوں نے اپنے بدن کو پتوں کے ذریعے اپنے بدن کو چھپانا شروع کر دیا۔تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔اب جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ننگا ہونا انسانی فطرت ہے تو یہ ان نادنوں کی بھول ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام کے اس عمل سے ان لوگوں کی فطرت مسخ ہو چکی ہے۔

یاد رکھیں! پردہ ایک ایسے قلعے کی طرح ہے جس میں ہر ایک کو داخلے کی اجازت نہیں ہوتی۔پردہ دراصل پرہیزگاری کی علامت ہے۔پردے کی برکت سےمعاشرے کو بدکاری کی آفت سے نجات ملتی ہے۔پردے کی برکت سے عبادت میں لذت حاصل ہوتی ہے۔

حدیثِ مبارکہ میں ہے کہ حضرت سیِّدَتُنا اُمِّ خَلاد رضی اللہ عنہا کا بیٹا جنگ میں شہید ہو گیا تو آپ اپنے بیٹے کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے چہرے پر نِقاب ڈالے باپردہ بارگاہِ رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں حاضِر ہوئیں، اِس پر کسی نے حیرت سے کہا: اِس وقْت بھی آپ نے مُنہ پر نِقاب ڈال رکھا ہے؟ کہنے لگیں: میں نے بیٹا ضَرور کھویا ہے، (مگر) حیا نہیں کھوئی۔(سنن ابی داؤد،کتاب الجہاد،باب فضل قتال الخ، 3/9،حدیث:2488)

پردے کے چند فوائد: ٭ پردہ عزت کا محافظ ہے ٭پردے کی برکت سے دل کو پاکیزگی اور تقویٰ جیسی نعمتیں حاصل ہوتی ہیں ٭پردے سے حیا وغیرت جیسے اوصاف پیدا ہوتے ہیں ٭پردہ عفت و پاکدامنی کی نشانی ہے٭پردے کی برکت سے شیطانی وسوسے دور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے تہمت،بہتان اور بدگمانی سے حفاظت رہتی ہے ٭پردہ حیا پیدا کرنے کا ذریعہ ہے اور حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے۔

(5)گناہ کے بعد توبہ کرنا: اللہ پاک قرآنِ پاک میں ارشادفرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْۤا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًاؕ-ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہوجائے۔(پ28، التحریم: 8)

صدرالافاضل حضرتِ علّامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں: توبۂ صادِقہ جس کا اثر توبہ کرنے والے کے اَعمال میں ظاہر ہو، اُس کی زندگی طاعتوں اور عبادتوں سے معمورہو جائے اور وہ گناہوں سے مجتنب (یعنی بچتا) رہے۔امیر المؤمنین حضرتِ سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور دوسرے اَصحاب نے فرمایا کہ توبۂ نصوح وہ ہے کہ توبہ کے بعد آدمی پھر گناہ کی طرف نہ لوٹے جیسا کہ نکلا ہوا دودھ پھر تھن میں واپس نہیں ہوتا۔(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ106)

جب بندہ اچانک آنے والی موت کو یاد رکھے گا تو امید ہے اسے توبہ کا مدنی ذہن نصیب ہوگا۔اسی لیے حکمت ودانائی کے پیکر حضرت سیدنا حکیم لقمان رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے کو یہ نصیحت فرمائی: بیٹا! توبہ میں تاخیر نہ کرنا کیونکہ موت اچانک آتی ہے۔(احیاء العلوم،4/38)

روایت میں آیا ہے:دوزخیوں کی زیادہ چیخ وپکار توبہ میں ٹال مٹول کے سبب ہوگی۔(ایضاً)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی لغزش کے بعد جس طرح دعا فرمائی، اس میں مسلمانوں کے لیے یہ تربیت ہے کہ جب بھی کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنے گناہ پر ندامت کا اظہار کریں اور مغفرت اور رحمت کا عاجزی سے گڑگڑا کر سوال کریں۔

اللہ پاک ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سچی پکی توبہ کرنے والوں میں شامل کرکے ہمارا خاتمہ ایمان پر فرمائے، اٰمین۔


حضرت آدم علیہ السّلام سب سے پہلے انسان اور تمام انسانوں کے باپ ہیں اسی لئے آپ کا لقب ابو البشر ہے۔

اللہ تعالیٰ نے خاص اپنے دست قدرت سے آپ کا جسم مبارک بنایا اور اس میں اپنی طرف سے ایک خاص روح پھونک کر پسند یدہ صورت پر پیدا فرمایا۔انہیں کائنات کی تمام اشیاء کے ناموں، ان کی صفات اور ان کی حکمتوں کا علم عطا فرمایا۔

فرشتوں نے ان کی علمی فضیلت کا اقرار کر کے انہیں سجدہ کیا جبکہ ابلیس سجدے سے انکار کر کے مردود ہوا۔حضرت آدم علیہ السّلام کثیر فضائل سے مشرف ہیں اور قرآن وحدیث میں آپ کا کثرت سے تذکرہ موجود ہے۔چنانچہ آپ علیہ السّلام کا اجمالی تذکرہ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر موجود ہے اور تفصیلی ذکر درج ذیل 7 سورتوں میں کیا گیا ہے:

(1) سورۂ بقرہ (2) سورۂ اعراف (3) سورۂ حجر (4) سورۂ بنی اسرائیل (5) سورۂ کہف (6) سورۂ طہ (7) سورۂ قصص

(1)ماتحت افراد سے مشورہ کرنے کی ترغیب: تخلیق آدم سے پہلے اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا، اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہے کہ ہم بھی کوئی اہم کام شروع کرنے سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا کریں، اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ یا تو مزید کوئی اچھی رائے مل جائے گی جس سے کام اور زیادہ بہتر طریقے سے ہو جائے گا یا اس کام سے متعلق ماتحت افراد کے ذہن میں موجود خلش کا ازالہ ہو جائے گا۔

(2) علم کی فضیلت: حضرت آدم علیہ السّلام کو جو فرشتوں پر فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب آپ کا علم تھا، اس سےیہ بات معلوم ہوئی کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادتوں سے افضل ہے۔

(3)نامعلوم بات پر لاعلمی ظاہر کردی جائے: اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑکر بیان نہ کرنی چاہئے۔

(4) حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بر بادی کا شکار ہوا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کئے بغیر تسلیم کرناضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یانہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔

(5) تکبر کی مذمت:ابلیس سے سرزد ہونے والے گناہوں میں بنیادی گناہ تکبر تھا۔حدیث پاک میں ہے: تکبر حق بات کو جھٹلانےاور دوسروں کو حقیر سمجھنے کا نام ہے۔تکبر کبیرہ گناہ ہے اور جس کے دل میں رائی کے دانے برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا اور متکبروں کو قیامت کے دن لوگ اپنے پاؤں سے روندیں گے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قصہ آدم سے حاصل ہونے والی نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


نزولِ قرآن کا ایک بنیادی مقصد لوگوں کی ہدایت و راہنمائی ہے اسی لیے اس میں کئی مقامات پر انبیائے کرام علیہم السلام اور ان کی قوموں کے واقعات کو ذکر کیا گیا ہے تاکہ لوگ ان واقعات کو پڑھ، سُن کر ان سے سبق حاصل کریں اور اپنی اصلاح کرسکیں، ان ہی واقعات میں سے ایک واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام کا بھی ہے جوکہ قرآن کریم میں متعدد بار ذکر کیا گیا ہے اس واقعے سے بھی ہمیں کئی نصیحتیں حاصل ہوتیں ہیں ان میں سے پانچ یہ ہیں:

شیطان ہمارا کُھلا دشمن ہے:یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ لَا یَفْتِنَنَّكُمُ الشَّیْطٰنُ كَمَاۤ اَخْرَ جَ اَبَوَیْكُمْ مِّنَ الْجَنَّةِ یَنْزِعُ عَنْهُمَا لِبَاسَهُمَا لِیُرِیَهُمَا سَوْاٰتِهِمَاؕ-اِنَّهٗ یَرٰىكُمْ هُوَ وَ قَبِیْلُهٗ مِنْ حَیْثُ لَا تَرَوْنَهُمْؕ- ترجمۂ کنز الایمان:اے آدم کی اولاد خبردار تمہیں شیطان فتنہ میں نہ ڈالے جیسا تمہارے ماں باپ کو بہشت سے نکالا اتروا دیئے ان کے لباس کہ ان کی شرم کی چیزیں انہیں نظر پڑیں بے شک وہ اور اس کا کنبہ تمہیں وہاں سے دیکھتے ہیں کہ تم انہیں نہیں دیکھتے۔

شیطان کی فریب کاری اور حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ساتھ اس کی دشمنی وعداوت کا بیان فرما کر بنی آدم کو مُتَنَبّہ اور ہوشیار کیا جارہا ہے کہ وہ شیطان کے وسوسے،اغواء اور اس کی مکاریوں سے بچتے رہیں۔جو حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ساتھ ایسی فریب کاری کرچکا ہے وہ اُن کی اولاد کے ساتھ کب درگزر کرنے والا ہے۔اس میں مومن، کافر، ولی، عالم، پرہیز گار سب سے خطاب ہے، کوئی اپنے آپ کو ابلیس سے محفوظ نہ جانے۔(تفسیر صراط الجنان، پارہ: 08، سورۃالاعراف،آیت:27)

تکبر کی نحوست:جب الله پاک نے تمام فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور کہاکہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام سے بہتر ہے کیونکہ مجھے آگ سے پیدا کیا گیا ہے جبکہ آدم علیہ السّلام مٹی سے پیدا سے ہوئے ہیں تو میں ان سے افضل ہوں۔لہٰذا وہ اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ کافر ہو گیا۔چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴)ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔ (پارہ:01، سورۃالبقرۃ،آیت:34)

انبیائے کرام علیہم السلام فرشتوں سے افضل ہیں:مذکورہ آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو یہ حکم دیاکہ وہ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ کریں،اس سے معلوم ہوا کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ سجدے میں انتہائی تواضع ہوتی ہے اور کسی کے سامنے انتہائی تواضع وہی کرے گا جو اس سے کم مرتبے والا ہو۔

بارگاہِ الٰہی کے مقبول بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا جائز ہے:اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷)ترجمۂ کنز الایمان: پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پارہ:01،سورۃالبقرۃ،آیت:37)

نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جب حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد)انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب! مجھے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں معاف فرمادے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے عرض کی: اے اللہ! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔(معجم اوسط،جلد05، ص115، 116،حدیث:6502)

الله پاک ہمیں قرآن پاک پڑھنے،سننے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔


قراٰنِ پاک اللہ ربُّ العزت کا وہ بے مثل وبے مثال کلام ہے کہ اس میں کائنات کی ہر چھوٹی ،بڑی چیزوں کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ دنیا وآخرت کی بھلائی، مخلوق کی رشدوہدایت، مؤمنین کے لئے رحمت، شفا اور وعظ و نصیحت موجود ہے اور قراٰنِ پاک کو بغور پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں سابقہ انبیا علیہمُ السّلام اور ان کی قوموں کے واقعات وقصص بیان کرکے ہمیں نصیحت کی جارہی ہے تاکہ ہم اس سے عبرت حاصل کریں جیسا کہ قراٰنِ کریم میں فرمانِ باری تعالیٰ ہے : ﴿لَقَدْ كَانَ فِیْ قَصَصِهِمْ عِبْرَةٌ لِّاُولِی الْاَلْبَابِؕ-﴾ ترجَمۂ کنز العرفان : بیشک ان رسولوں کی خبروں میں عقل مندوں کیلئے عبرت ہے۔ (پ13، یوسف :111)

حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعہ سے حاصل ہونےوالی 5 نصیحتیں آپ بھی ملاحظہ کیجئے:

(1) اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کرنا : یاد رہے کہ اللہ رب العزت اس سے پاک ہے کہ اس کو کسی کے مشورہ کی حاجت ہو لیکن اس نے حضرت آدم علیہ السّلام کو اپنا خلیفہ، نائب بنانے کی خبر ظاہرا ً فرشتوں کو مشورہ کرنے کے انداز میں دی چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: ﴿ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً﴾ ترجَمۂ کنز الایمان : میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔ (پ1،البقرۃ:30)

جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو ازالہ ہوجائے یا کوئی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام بہتر انداز میں ہوسکے۔

(دیکھئے: صراط الجنان ، 1/97)

(2) تکبر شیطانی کام ہے: فرشتوں پر حضرت آدم علیہ السّلام کی برتری ظاہر فر ماکر رب تعالیٰ نے جب آپ علیہ السّلام کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا تو شیطان ابلیس نے تکبر کرتے ہوئے اللہ پاک کی نافرمانی کی اور سجدہ کرنے سے انکار کر کے کافر ہوگیا ۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴)﴾ ترجَمۂ کنز الایمان:منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔ (پ1، البقرۃ:34) اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبر ایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔

(3) ممنوعہ کام کی طرف لے جانے والے اسباب سے بھی بچنا چاہئے: حضرت آدم علیہ السّلام کو جنت میں ایک درخت کے پھل کھانے کی ممانعت تھی لیکن اس کے قریب جانے سے بھی منع فرمایاگیا چنانچہ ارشاد باری ہے:﴿وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ ترجَمۂ کنزُالایمان: اس پیڑ کے پاس نہ جانا۔(پ1، البقرۃ:35) اس طرزِ خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کیلئے اس کے قریب جانے سے بھی روکنا چاہئے ۔ (صراط الجنان، 1/105)

(4) حسد کے سبب دشمنی پیدا ہوتی ہے: قراٰنِ پاک میں ہے: ﴿فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہے تو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔(پ16، طٰہٰ: 117)

شیطان نے حضرت آدم علیہ السّلام پر جب اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام دیکھا تو ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد اس کی دشمنی کا ایک سبب تھا، ہر مسلمان کو اس سے عبرت حاصل کرنا چاہئے۔

(5) ہدایتِ الٰہی کی اتباع میں ہی بھلائی ہے :حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہُ عنہا کو جب جنت سے زمین پر اترنے کا حکم ہوا تو رب تعالیٰ نے فرمایا : ﴿بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-فَاِمَّا یَاْتِیَنَّكُمْ مِّنِّیْ هُدًىﳔ فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَ لَا یَشْقٰى(۱۲۳)﴾ ترجَمۂ کنزُالایمان: تم میں ایک دوسرے کا دشمن ہے پھر اگر تم سب کو میری طرف سے ہدایت آئے تو جو میری ہدایت کا پیرو ہوا وہ نہ بہکے نہ بدبخت ہو ۔(پ16، طٰہٰ: 123)

اس سے معلوم ہوا کہ اس امت کے لوگوں کا قراٰنِ مجید میں دئیے گئے اَحکامات پر عمل کرنا اور سیّد المرسَلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم َکی اطاعت کرنا انہیں دنیا میں گمراہی سے بچائے گا اور آخرت میں بدبختی سے نجات دلائے گا، لہٰذا ہر ایک کو چاہئے کہ وہ قراٰنِ مجید کی پیروی کرے اور حضور پُر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِتباع کرے تاکہ وہ گمراہ اور بدبخت ہونے سے بچ جائے۔(دیکھئے:صراط الجنان،6/258)اللہ پاک ہمیں ان قراٰنی نصیحتوں پر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین