اللہ پاک کی بے شمار مخلوقات میں سے ایک مخلوق انبیاء کرام علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام بھی ہیں جو تمام مخلوقات میں عزت رفعت، عظمت، شرافت،صفات وکمالات، نورانیت ومعرفت کے اعتبار سے افضل اجمل اکمل احسن منصب پر فائز ہیں انہیں میں سے ایک نبی آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام بھی ہیں جن کی پیدائش پر فرشتوں نے رب سے عرض کی: اے اللہ پاک! کیا تو زمین میں اس کو نائب بنائے گا جو فساد پھیلائے گا اور خون بہائے گا حالانکہ ہم ہر وقت تیری تسبیح بیان کرتے ہیں رب کائنات نے اس کے جواب میں فرمایا: جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور تمام انسانوں اور انبیاء کرام علیہم السلام کے باپ حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی تخلیق فرمائی جو ابو البشر کے لقب کا مصداق بنے۔

سب سے پہلے میں آپ کواس بات سے آگاہ کرتا چلوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں مختلف انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر خیر فرمایا کسی نبی کا تفصیلاً اور کسی کا اجمالاً ذکر فرمایا لیکن میں آپ کے سامنے اس تحریر میں فقط آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے پانچ واقعات سے حاصل ہونے والی نصیحتوں کو ذکر کروں گا۔

(1)اللہ پاک نے حکم دیا تمام ملائکہ کو کہ وہ آدم علیہ السّلام کو سجدہ کریں: وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(الاعراف:11)

اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے خالق ہونے کا ذکر فرمایا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ میرے مقرب بندے حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرو تو فرشتوں نے رب تعالیٰ کے حکم کو مانا اور ابلیس نے حکم نہ مانا اور وہ ذلیل و رسوا ہوا تو ہمیں اس آیت کریمہ سے یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ اللہ پاک کا حکم ہمیں ماننا چاہیے اور رب تعالیٰ کی ناراضگی سے ہمیں بچتے رہنا چاہیے تاکہ ہماری دنیا اور آخرت دونوں بہتر ہو!

(2)علم کی فضیلت: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ2، البقرۃ:31)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے اور بطور الہام آپ کو تمام اشیاء کے نام،کام صفات و خصوصیات اصولی علم اور صنعتیں سکھا دیں اور پھر فرشتوں سے فرمایا کہ تم اگر سمجھتے ہو کہ تم سب سے افضل ہو تو ان کے نام بتاؤ تو فرشتوں نے ان اشیاء کے ناموں کو نہ بتایا اور عرض کی کہ اے اللہ تو پاک ہے ہمیں تو صرف اتنا علم ہے جتنا تو نے ہمیں علم سکھا دیا بیشک تو ہی علم والا حکمت والا ہے اس آیت کریمہ میں علم کی اہمیت،فضیلت،رفعت اور عظمت اجاگر کیا تو اس آیت کریمہ سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوتی ہیں کہ ہمیں علم دین حاصل کرتے رہنا چاہیے!

(3)ابلیس حسد کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کا دشمن بنا: علامہ اسماعیل حقی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہے: جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام و اکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور اس حسد کی بنا پر وہ آپ کا دشمن بن گیا اس واقعے سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ جسے کسی سے حسد ہو جائے تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور اس کو خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔( کتاب سیرت الانبیاء، بحوالہ صاوی الاعراف آیت 43)

(4)فرشتوں کا رب تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنا اور ابلیس کا تکبر کرنا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(البقرۃ:34)

اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السّلام کو تمام موجودات اور عالم روحانی اور جسمانی کا نمونہ بنایا اور فرشتوں کے لیے حصول و کمالات کا وسیلہ بنایا تو انہیں حکم فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو کیونکہ اس میں آدم علیہ السّلام کی فضیلت کا اعتراف اور اپنے مقولہ اَتَجْعَلُ فِیْهَا کی معذرت بھی ہے بہرحال تمام فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کردیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتے رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام سے افضل ہے اور اس جیسے انتہائی عبادت گزار، فرشتوں کے استاد اور مقرب بارگاہ الٰہی کو سجدہ کا حکم دینا حکمت کے خلاف ہے اپنے اس باطل عقیدے، حکمِ الٰہی سے انکار کرنے اور تعظیم نبی سے تکبر کی وجہ سے وہ کافر ہوگیا!

ہمیں اس واقعے سے یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ تکبر ایسی بیکار اور خراب بیماری ہے جو بعض اوقات بندے کو کفر تک پہنچا دیتی ہے ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ تکبر کرنے سے بچے!

(5)حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی رب تبارک و تعالیٰ سے توبہ کرنا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(البقرۃ:37)اور ایک روایت کے مطابق حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔

اس واقعے سے ہمیں یہ نصیحت حاصل ہوئی کہ اپنی لغزش اور خطاؤں کے بعد رب تبارک وتعالیٰ کے سامنے حاضر ہونا چاہیے اور جس طرح حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی لغزش کے بعد تو بہ کی تو ہمیں بدرجہ اولیٰ توبہ استغفار کرنا چاہیے۔