اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:یہ لوگوں کو بتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت ہے۔(پ4، آل عمرٰن: 138)

قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت اور نصیحت کیلئے نازل فرمایا، آئیے! ان نصیحتوں کے بارے میں کچھ باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن کا ذکر اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔

(1) اہم کاموں میں مشاورت:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)

اللہ تعالیٰ اس سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہو،البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پر مشورے کے انداز میں دی گئی۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ ا س کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمران: 159) (تفسیر صراط الجنان، البقرۃ:30)

(2) علم دین کا حصول:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر تمام اشیاء پیش فرمائیں اور بطورِ الہام آپ کو ان تمام چیزوں کے نام، کام، صفات، خصوصیات، اصولی علوم اور صنعتیں سکھا دیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تمہارا ا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، البقرۃ: 31)

(3) تکبر کی مذمت:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے ۔(تفسیر صراط الجنان، البقرۃ: 34)

(4) گناہوں کے بعد توبہ کرنا:

وَ قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۳۶) فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرہ: 35تا37)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)

(5) شیطان کے فریب سے بچنا:وَ لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔(پ16، طہ:115)

اس سے پہلے سورۂ بقرہ، سورۂ اَعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں مختلف حکمتوں کی وجہ سے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہو ا اور اب یہاں سے چھٹی بار ان کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے اور اسے ذکر کرنے میں یہ حکمت بھی ہو سکتی ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے شیطان انسانوں کا بڑ اپرانا دشمن ہے ا س لئے ہر انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہے اور اس کے وسوسوں سے بچنے کی تدابیر اختیار کرے۔(تفسیر صراط الجنان، طہ: 115)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قرآن پاک کی ان نصیحتوں پر عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔


قرآنِ کریم اس ربِّ عظیم کا بے مثل کلام ہے جو اکیلا معبود، تنہا خالق اور ساری کائنات کا حقیقی مالک ہے، یہ جامع العلوم کتاب ہے کہ اولین و آخرین کا علم اس کتاب میں موجود ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَنَزَّلْنَا عَلَیْكَ الْكِتٰبَ تِبْیَانًا لِّكُلِّ شَیْءٍ ترجمۂ کنزالایمان:اور ہم نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے۔ (پ14، النحل:89)

اسی طرح حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں قرآن کریم ہر نافع علم پر مشتمل یعنی اس میں گزشتہ واقعات کی خبریں اور آئندہ ہونے والے واقعات کا علم موجود ہے ہر حلال و حرام کا حکم اس میں مذکور ہے اور اس میں ان تمام چیزوں کا علم ہے جن کی لوگوں کو اپنے دنیوی، دینی، معاشی اور اخروی معاملات میں ضرورت ہے۔(ابن کثیر، النحل، تحت الآیۃ: 89)

گزشتہ واقعات میں سے قرآن کریم کے پہلے پارے کے رکوع نمبر (4) میں حضرت آدم علیہ السّلام کا واقعہ بھی مذکور ہے جس میں ہمارے لئے متعدد قرآنی نصیحتیں ہیں،آئیے! حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے (5) قرآنی نصیحتیں جانتے ہیں۔

(1)اہم کام کرنے سے قبل ماتحت سے مشورہ کرنا: حضرت آدم علیہ السّلام کو خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کو ظاہری طور پر مشورہ کے انداز میں دی گئی جس سے اشارةً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے قبل اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام کے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی مفید رائے مل جائے جس سے کام مزید بہتر ہو جائے۔(تفسیرِ صراط الجنان)

(2) چھوٹوں کو بڑوں سے سوال کرنے کا حق ہے:حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں یہ بھی قرآنی نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ چھوٹوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بڑوں سے سوال کے ذریعے کام کی حکمت پوچھ لیں جیسے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے زمین میں خلیفہ بنانے کی حکمت دریافت کی۔(تفسیرِ نعیمی)

(3) اپنی کم علمی کا اعتراف کرنا: حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں یہ بھی قرآنی نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ بڑے سے بڑا عالم اگر کسی مسئلہ سے ناواقف ہو تو اپنی عزت رکھنے کے لئے غلط جواب نہ دے بلکہ اپنی کم علمی کا اقرار کرے کیونکہ اس میں عزت ہے جیسے کہ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں عرض کیا: قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔(پ1، البقرۃ: 32)(تفسیرِ نعیمی)

(4) تکبر اور حسد نہایت بری چیزیں ہیں: حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں یہ بھی نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ تکبر اور حسد دونوں نہایت بری چیزیں ہیں کیونکہ دنیا میں سب سے پہلا گناہ شیطان نے ان دونوں چیزوں کی وجہ سے کیا۔(تفسیرِ نعیمی)

(5) زمین میں سب سے پہلے انسان کی عبادت: حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعے سے ہمیں یہ بھی نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ انسان کو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ حضرت آدم علیہ السّلام نے زمین پر آ کر سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں توبہ کی۔(تفسیرِ نعیمی)

اللہ پاک ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے اورقرآن کریم کی زیادہ سے زیادہ تلاوت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قرآن مجید فرقان حمید کا ایک مبارک اسلوب یہ بھی ہے کہ لوگوں کو نصیحت کرنے کے لیے سمجھانے کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محبوب آقا کریم خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو مخاطب کرتے ہوئے انبیاء کرام علیہم السلام کے مبارک احوال اور ان کی قوموں کے معاملات کو بیان فرمایا۔کہیں فرمایا: یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ لَكُمْ ترجَمۂ کنزُالایمان: اللہ چاہتا ہے کہ اپنے احکام تمہارے لیے صاف بیان کردے۔(پ5، النسآء: 26) تو کہیں فرمایا: تِلْكَ الْقُرٰى نَقُصُّ عَلَیْكَ مِنْ اَنْۢبَآىٕهَاۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: یہ بستیاں ہیں جن کے احوال ہم تمہیں سناتے ہیں۔(پ9، الاعراف: 101) اور دیگر مقامات پر بھی پہلی قوموں کے احوال بیان کر کے امتِ محمدیہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سمجھایا کہ اے محبوب ان سے فرما دیجیے کہ پہلی قوموں نے یوں کیا، تم اس طرح نہ کرنا ان سے عبرت حاصل کرو۔انہی میں سے ایک واقعہ ابو البشر حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کا بھی ہے۔آپ کی مبارک تخلیق سے لے کر دنیا میں تشریف فرما ہونے تک اور بہت کچھ قرآنی آیات میں بیان ہے۔جس کے ذریعے امتِ محمدیہ کو درس و نصیحت کی گئی ہے۔

آئیے قرآن مجید کی روشنی میں واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام سے پانچ قرآنی نصیحتیں ملاحظہ کرتے ہیں:

(1)مشورہ کرنے کی ترغیب: وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1، البقرۃ:30)

اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ نے تخلیق آدم علیہ الصّلوٰۃُوالسّلام سے پہلے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا۔اس سے ہمیں بھی یہ نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ کوئی بھی اہم کام شروع کرنے سے پہلے اہل حق سے، تجربہ شدہ لوگوں سے مشورہ کر لینا چاہیے۔اس سے بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں اچھی رائے، لوگوں کے خیالات سے آگاہی، کام کی بہتری اور بہت کچھ۔

(2)علم حاصل کرنے کی ترغیب: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔(پ1، البقرۃ: 31)

تخلیق آدم علیہ السّلام کے بعد فرشتوں پر حضرت آدم علیہ الصّلوٰۃُ والسّلام کی عظمت و فضیلت ظاہر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم عطا فرمایا۔اس سے معلوم ہوا علم ہی کے ذریعے انسان کی عظمت و فضیلت ہے۔علم ہی کے ذریعے انسان نے فرشتوں سے برتری اور بلند مقام حاصل کیا۔اندھیروں سے روشنی کی طرف لانے والا علم ہے۔کسی کام کو شروع کرنے سے پہلے علم کا ہونا ضروری ہے وگرنہ ہلاکت ہے۔ہمیں بھی چاہیے کہ علم دین حاصل کریں اور خود سے جہالت کے اندھیرے دور کریں۔

(3) نامعلوم بات پر لا علمی کا اظہار کرنے کی ترغیب:قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ- ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا۔(پ1، البقرۃ: 32)

اس سے معلوم ہوا کہ فرشتوں نے اپنی لا علمی کا اعتراف کیا کہ مالک ہمیں تو اتنا ہی علم ہے جتنا تو نے عطا کیا بے شک تیری ذات ہی علم و حکمت والی ہے۔اس سے ہر ایک کو نصیحت حاصل ہوتی ہے کہ جس بات کا علم نہ ہو تو لا علمی کا اظہار کر دینا چاہیے نہ کہ اسرار کرنا بے جا اور کہہ دینا خاص کر دین کے معاملے میں یہ تو ہے ہی نہیں۔لوگوں کی ملامت، یا عزت میں کمی کی وجہ سے ان جیسے شیطانی وسوسوں کی پیری میں کوئی جھوٹ اور من گھڑت بات نہ کہی جائے۔

(4)حکمِ الٰہی بجا لانے کی ترغیب: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى(۱۱۶)ترجمۂ کنزالایمان: اور جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب سجدے میں گرے مگر ابلیس اس نے نہ مانا۔(پ16، طہ:116)

اللہ اکبر اس سے معلوم ہوا کہ رب تعالیٰ کے مبارک فرامین پر اپنی عقل کو آڑے نہیں آنے دینا چاہیے۔حکمِ الٰہی پر فوراً لبیک کہہ دینا چاہیے، میں اقرار کرتا ہوں، گواہی دیتا ہوں۔دورے حاضر میں نت نئے فتنے ہیں معاذاللہ رب تعالیٰ اور حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بارے میں شکوک وشبہات پیدا کئے جاتے ہیں ایسی صحبتِ بد سے بچنا چاہیے۔ سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم پر علماء اہلسنت سے رجوع کرنا چاہیے۔اور احکامات الٰہی کو من و عن بغیر عقل سے قیاس کئے چوں و چرا کے بغیر تسلیم کرنا ضروری ہے تاکہ ایمان جیسی عظیم دولت قائم رہے۔

(5)توہین اور بے ادبی سے بچنے کی ترغیب:قَالَ اَنَا خَیْرٌ مِّنْهُۚ-خَلَقْتَنِیْ مِنْ نَّارٍ وَّ خَلَقْتَهٗ مِنْ طِیْنٍ(۱۲)ترجَمۂ کنزُالایمان: بولا میں اس سے بہتر ہوں تو نے مجھے آگ سے بنایا اور اُسے مٹی سے بنایا۔(پ8، الاعراف:12)

رب تعالیٰ نے فرمایا: قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّاِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہا(لعنت کیا) گیا۔ اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔ (پ23، صٓ:77، 78)

ابلیس لعین نے تکبر کرتے ہوئے خود کو افضل جانا اور نبی پاک عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی توہین کا مرتکب ہوا۔جس سے وہ مردود ہوا اور لعین ٹھہرا۔اس سے معلوم ہوا کہ انبیاء کرام، اور اہل حق کی توہین، گستاخی بے ادبی اتنا بڑا جرم ہے کہ اس سے بندہ مردود ہو جاتا ہے اور لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے۔تکبر ہی کی بنا پر اس نے گستاخی کی۔معلوم ہوا تکبر اور دیگر باطنی و ظاہری گناہوں سے بچنا چاہیے تاکہ اللہ پاک کی ناراضگی کا ہم سبب نہ بنیں۔

دور حاضر میں بھی گستاخیوں کا بازار سر گرم ہے معاذ اللہ لوگ نفسانی خواہشات کے تابع ہوتے ہوئے پہلوں کی توہین کرتے نظر آتے ہیں انبیاء کرام، اولیائے عظام اور علماء کرام کی توہین کرتے نظر آتے ہیں۔ان کو ابلیس لعین کے اس واقعے سے عبرت حاصل کرنی چاہیے کہ کسی کی باتوں میں آ کر، چند منٹ کی گفتگو اور لٹریچر پڑھ کر توہین کے مرتکب ہونے سے، بے ادبی کرنے سے ایمان ختم ہو جاتا ہے۔ہمیشہ کے لیے مردود ہو جاتا ہے، لعنت کا مستحق ٹھہرتا ہے اور جہنم کا دائمی عذاب الگ ہے۔الامان الحفیظ

ہمیں تو سب انبیاء صحابہ و اہلبیت و اولیاء اہل حق سے پیار ہے

اِن شآءَ اللہ اپنا بیڑا پار ہے

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں سے عبرت حاصل کرنے اور خوب دین کا علم حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین بجاہ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔


حضرت آدم (علیہ السّلام) وہ پہلے بشر (انسان) ہیں جن کو الله پاک نے اپنے دست قدرت سے بنایا اور اپنی طرف سے خاص روح پھونکی، اور فرشتوں کو حضرت آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کرنے کا حکم فرمایا، تمام فرشتوں نے حکم کی تکمیل کی اور سجدہ کیا، جبکہ شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کیا اور مردود ہو گیا۔

حضرت آدم (علیہ السّلام) کے قرآن و احادیث میں بے شمار فضائل آئے ہیں، آئیے اب ہم قرآن پاک سے آدم (علیہ السّلام) کا ذکر سنتے اور نصیحتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(1)جب الله پاک نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو پیدا فرمانے کا ارادہ فرمایا تو اپنے فرشتوں سے مشورے کے انداز میں کلام فرمایا۔الله پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔حضرت علامہ مولانا مفتی محمد قاسم عطاری قادری (مدظلہ العالی) صراط الجنان میں فرماتے ہیں: یہاں نائب سے مراد حضرت آدم (علیہ السّلام) سے ہیں۔

فرشتوں نے الله پاک کا یہ کلام سن کر عرض کی:ترجَمۂ کنزُالایمان:بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں۔

یہاں فرشتوں نے جو الله پاک کی بارگاہ میں عرض کی اس کا مقصد اظہار تعجب اور خلیفہ بنانے کی حکمت معلوم کرنے کےلیے کی تھی، الله پاک کی تخلیق یا اس کی مشیت پر اعتراض کرنا نہ تھا۔

آیت میں ہمارے لیے یہ نصیحت ہے کہ حضرت آدم (علیہ السّلام) کو پیدا فرمانے سے پہلے مشورے کے اندازے میں جو کلام کیا اس میں ہمارے لیے یہ تعلیم ہے کہ ہم کوئی بھی کام شروع کریں تو اپنے ماتحت یا دوستوں یا بڑے بزرگوں سے مشورہ لیں اس کا فائدہ یہ ہو گا کہ کوئی اچھی رائے مل گئی تو کام اور بہترین انداز سے ہو جائے گا۔

(2)اسی طرح ایک اور مقام پر حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے بعد تمام اشیاء کے نام سیکھا دیئے اور حضرت آدم علیہ السّلام فضیلت کے اظہار کے لئے فرشتوں کے سامنے اشیاء کو پیش کیا اور ارشاد فرمایا: ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ: 31)

یہ کلام سن کر فرشتوں نے ان اشیاء کے نام نہیں بتائے اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے بارگاہ الٰہی میں عرض کی: ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔ (پ1، البقرۃ: 32)

تفسیر:حضرت آدم علیہ السّلام کے علمی فضل و کمال کو دیکھ کر اس بات کا کیا کہ ان کا(مذکورہ بات یعنی کیا تو زمین میں اسے نائب بنائے گا جو اس میں فساد پھیلائے گے اور خون بہائے گا حالانکہ ہم تیری حمد کر تے ہوئے تسبیح کرتے اور تیری پاکی بیاں کرتے ہیں) اعتراض کرنے کے لیے نہ تھا بلکہ حکمت معلوم کرنے کے لئے تھا، اب انہیں انسان کی فضیلت اور اس کی پیدائش کی حکمت معلوم ہو گی جس کو وہ پہلے نہ جانتے تھے۔ (صراط الجنان، جلد ۱، سورۃ بقرہ، آیت ۳۲)

آیت میں ہمارے لیے نصیحت:اس آیت سے ہمیں معلوم ہوا کہ جب فرشتوں کو اشیاء کے نام معلوم نہ تھے تو انہوں نے اپنے لا علمی کا اعتراف کیا۔ اسی طرح ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کو چاہیے کہ اگر اس کو کوئی بات معلوم نہ ہو تو اس کے بارے میں صاف اظہار کر دے کہ مجھے اس بات کا علم نہیں ہے۔

(3)اسی طرح جب الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق مکمل فرمائی تو فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے انکار کیا اور مردود ہو گیا اسے بیان کرتے ہوئے ، الله پاک نے فرمایا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

تمام فرشتوں کو سجدے کا حکم دیا گیا اور ملائکہ مقربین سمیت تمام فرشتوں نے سجدہ کیا لیکن شیطان نے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور تکبر کے طور پر یہ سمجھتا رہا کہ وہ حضرت آدم علیہ السّلام سے افضل ہے۔

آیت میں ہمارے لئے نصیحت:الله پاک کے انبیاء علیہم السّلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر عبادت، ریاضت بھی بربادہو جاتی ہے جس طرح شیطان جیسا عبادت گزار بھی حضرت آدم علیہ السّلام کی گستاخی سے برباد ہو گیا تو ہماری عبادتیں کیا ہیں؟

(4)جب فرشتوں نے سجدہ کیا اور شیطان انکار کر کے مردود ہو گیا تو الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا کو جنت میں رہنے کی اجازت عطا فرمائی مگر ایک درخت سے منع فرمایا جس کا ذکر اس آیت میں ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔ (پ1، البقرۃ: 35)

حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے مردود ہوا تھا لہٰذا وہ حضرت آدم علیہ السّلام کو نقصان پہنچانے کی تاک میں رہا۔اور ہر طرح سے وسوسہ ڈالتا رہا بالآخر آدم علیہ السّلام نے ممنوعہ درخت سے کھالیا جس کی وجہ حضرت آدم اور حضرت حوا کو جنت چھوڑ کر زمین پر آنا پڑا۔

اس آیت میں ہمارے لیے نصیحت:حسد نہیں کرنا چاہئے کیونکہ حسد شیطانی کام ہے اور یہی پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے الله پاک کی نافرمانی کی گئی۔

(5)جب الله پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا کو اپنی قدرت سے پیدا فرمایا اور ان سے انسانی نسل کی ابتدا فرمائی۔منقول ہے کہ حضرت حوا رضی اللہ عنہا بیس یا چالیس بار حضرت آدم علیہ السّلام سےحاملہ ہوئیں۔ہر حمل سے دو بچے پیدا ہوئے ایک لڑکا اور ایک لڑکی، حضرت آدم علیہ السّلام ایک حمل کے لڑکے کا نکاح دوسرے حمل کی لڑکی کے ساتھ کرا دیا کرتے تھے۔(صاوی، سورۃ النساء، تحت الایۃ، ۱، ۲، ۳۵۶)

اب قابیل کے ساتھ جو لڑکی پیدا ہوئی وہ بہت خوبصورت تھی جبکہ ہابیل کے ساتھ پیدا ہونے والی لڑکی کم خوبصورت تھی۔ حضرت آدم علیہ السّلام نے شرعی دستور کے مطابق قابیل کا نکاح ہابیل کی بہن سے کرنا چاہا تو قابیل اس سے راضی نہ ہوا اور نفس امارہ کے دھوکے میں آ کر اپنے بھائی ہابیل کو قتل کر کے اپنی بہن کو لے کر چلا گیا۔اس واقعے کے بارے میں نے الله پاک فرماتا ہے: ترجمہ کنزالایمان: تو اس کے نفس نے اسے بھائی کے قتل کا چاؤ دلایا(قتل پراُبھارا) تو اُسے قتل کردیا تو رہ گیا نقصان میں۔(پ6، المآئدۃ:30)

اس آیت میں ہمارے لیے نصیحت:قابیل کے اس برے فعل سے ظاہر ہوا کہ اس کو قتل پر ابھارنے کا سبب ناجائز عشق مجازی ہے جس میں آج کل لوگ شرم و حیاء کو پیٹھ پیچھے ڈال کر اور پردے کے اسلامی احکام کی پابندی نہ کر نے کے سبب دھڑا دھڑ مبتلا ہو رہے ہیں جسکی وجہ سے قتل و غارت گری کا بازار بھی گرم رہتا ہے۔

ا الله پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے اور دوسرں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین 


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی انبیائے کرام بھیجےجن میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ذکر کیا ان کا جو واقعہ قرآن مجید میں آیا ہے اُس سے پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:

(1)غرور نہ کرنا:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

نصیحت:شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے سے غرور نے روکا لہٰذا ہمیں غروروتکبر بالکل نہیں کرنا چاہیے۔

(2)غلطی پر توبہ کرنا:فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ:37)

نصیحت:حضرت آدم علیہ السّلام سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہیں دنیا میں بھیج دیا گیاحضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے:رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)

پھر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کی ہم سے بھی اگر غلطی سے کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کر لینی چاہیے بیشک اللہ بڑا مہربان ہے۔

(3)علم کی فضیلت:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

نصیحت:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔

حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے (100) رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے (1000)نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔لہٰذا ہمیں بھی علم حاصل کرنے میں مصروف ہو جانا چاہیے۔

(4)حکمِ الٰہی پر فوری طور پر عمل کرنا:وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(پ8، الاعراف:11)

نصیحت:ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے جیسے شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کیا اور مردود ہوگیا لہٰذا ہمیں حکمِ الٰہی پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے۔

(5)انبیاء کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔


پیارے اسلامی بھائیو! بے شک قرآن پاک تو نصیحتوں اور واقعات سے بھرا پڑا ہے ان واقعات میں سے مشہور و معروف حضرت آدم علیہ السّلام کے متعلق ذکر کردہ واقعہ بھی ہے اس میں سے کچھ نصیحتیں حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

(1) افضلیت کی بنیاد: اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرو اگر اس سے اوپر والی آیات دیکھی جائیں جیسے کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو تمام اشیاء کے نام سکھائے۔جو کہ فرشتوں کو نہیں معلوم تھے۔پھر جب حضرت آدم (علیہ السّلام) نے انہیں ان اشیاء کے نام بتا دیے حتی کہ تفسیر جلالین میں ہے کہ ان اشیاء کے نام اور حکمتیں بھی بیان کردیں۔بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو سجده کرنے کا حکم دیا۔تمام فرشتوں نے حضرت آدم (علیہ السّلام) کو سجدہ کیا۔حضرت آدم (علیہ السّلام) کا فضل و شرف کس بنیاد پر تھا؟ یقینًا علم ہی کی بنیاد پر تھا۔یاد رکھیں! علم ایک ایسا وصف ہے جس کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کو عزت و شرف ملا۔اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء علیہم السلام کو یہ وصف عطا کیا۔

(2) زوال کا اہم سبب: پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تبارک و تعالیٰ نے جب فرشتوں کو سجدہ کرنے کا حکم دیا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے: فَاِذَا سَوَّیْتُهٗ وَ نَفَخْتُ فِیْهِ مِنْ رُّوْحِیْ فَقَعُوْا لَهٗ سٰجِدِیْنَ(۲۹) ترجَمۂ کنزُالایمان:تو جب میں اسے ٹھیک کرلوں اوراس میں اپنی طرف کی خاص معزّز روح پھونک لوں۔(پ14، الحجر:29)

اللہ تعالیٰ کا جیسے ہی حکم ہوا ویسے ہی تمام فرشتے سجدے میں گر گئے جیسا کہ اس سے اگلے آیت میں ہے: فَسَجَدَ الْمَلٰٓىٕكَةُ كُلُّهُمْ اَجْمَعُوْنَۙ(۳۰) اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰۤى اَنْ یَّكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۱) ترجمۂ کنزالایمان: تو اس کے لیے سجدے میں گر پڑنا تو جتنے فرشتے تھے سب کے سب سجدے میں گرے۔سوا ابلیس کے اس نے سجدہ والوں کا ساتھ نہ مانا۔(پ14، الحجر:30، 31)

سب کے سب سجدے میں گرگئے سوائے ابلیس کےکہ اس نے انکار کر دیا اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابلیس سے انکار کی وجہ پوچھی جیسے کہ قرآن پاک میں ہے:قَالَ یٰۤاِبْلِیْسُ مَا لَكَ اَلَّا تَكُوْنَ مَعَ السّٰجِدِیْنَ(۳۲) قَالَ لَمْ اَكُنْ لِّاَسْجُدَ لِبَشَرٍ خَلَقْتَهٗ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍ(۳۳) ترجمۂ کنزالایمان: فرمایا اے ابلیس تجھے کیا ہوا کہ سجدہ کرنے والوں سے الگ رہا۔بولا مجھے زیبا نہیں کہ بَشر کو سجدہ کروں جسے تو نے بَجتی مٹی سے بنایا جو سیاہ بودار گارے سے تھی۔(پ14، الحجر:32، 33)

شیطان نے سجدہ نہ کرنے کی وجہ خود کو افضل بتایا اور آدم علیہ السّلام حقیر سمجھا اور تکبر کیا۔جو ابلیس کبھی فرشتوں کا سردار تھا اس کے تکبر نے اسے مردود بنا دیا۔ جیسے کہ فرمان باری تعالیٰ ہے: قَالَ فَاخْرُجْ مِنْهَا فَاِنَّكَ رَجِیْمٌۚۖ(۷۷) وَّاِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: فرمایا تو جنت سے نکل جا کہ تو راندہا(لعنت کیا) گیا۔ اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔ (پ23، صٓ:77، 78)

صرف تکبر کی وجہ سے ابلیس کے عروج سے زوال تک کاسفر آپ نے سماعت کیا۔یہ تو وہ تکبر کی مثال تھی جس کو دنیا کبھی نہ بھلا پائی اگر قرآن پاک کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں کئی تکبر کی وعیدیں اور متکبر (تکبر کرنے والوں) کے انجام کے متعلق آیات ملیں گیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں تکبر اور اس جیسی دیگر بیماریوں سے شفاء عطا فرمائے۔

(3)حقیقی دشمن: پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے سنا کہ کس وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام کو عزت شرف ملا اور کس طرح ابلیس جو کہ فرشتوں کا سردار تھا اس کو مردود کر دیا گیا۔یہ سب ہونے کے بعد ابلیس نے رب تعالیٰ سے کہا کہ میں قیامت تک تیرے بندوں کو گمراہ کرتا رہوں گا جیسے کہ قرآن پاک میں ہے:قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَۙ(۳۹)ترجَمۂ کنزُالایمان:بولا اے رب میرے قسم اس کی کہ تو نے مجھے گمراہ کیا میں انہیں زمین میں بِھلاوے دوں گا اور ضرور میں ان سب کو بے راہ کردوں گا۔(پ14، الحجر:39)

کیونکہ شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کی تعظیم نہ کرنے کی وجہ سے مردود کیا گیا تھا اسی وجہ سے شیطان انسانوں کا دشمن ہو گیا اور اس نے قسم کھائی کہ میں قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو گمراہ کرتا رہوں گا۔اس کے بعد جب حضرت آدم علیہ السلام کو حضرت حواء رضی اللہ عنہا کو جنت میں بھیجا گیا تو شیطان نے سب سے پہلے رب تعالیٰ کی جھوٹی قسم کھا کر حضرت آدم علیہ السّلام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔کیونکہ اس سے پہلے کبھی کسی نے اللہ تعالیٰ کے جھوٹی قسم نہیں کھائی جس کی وجہ سے حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ہوئی، جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَوَسْوَسَ اِلَیْهِ الشَّیْطٰنُ قَالَ یٰۤاٰدَمُ هَلْ اَدُلُّكَ عَلٰى شَجَرَةِ الْخُلْدِ وَ مُلْكٍ لَّا یَبْلٰى(۱۲۰)ترجَمۂ کنزُالایمان:تو شیطان نے اسے وسوسہ دیا بولااے آدم کیا میں تمہیں بتادوں ہمیشہ جینے کا پیڑ اور وہ بادشاہی کہ پرانی نہ پڑے۔ (پ16، طہ:120)

حضرت آدم علیہ السّلام نے اس کی بات مان لی جیسے کہ اگلی آیت میں ہے: وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱) ترجمۂ کنز الایمان: اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔ (پ16، طہ:121)

حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ابلیس کے حسد کرنے کی وجہ سے ہوئی ابلیس یعنی شیطان اسی وجہ سے تمام مسلمانوں کا دشمن ہوا۔لہٰذا ہمیں ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے۔

سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے سونے والو جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے

(4) عاجزی کی اہمیت: پیارے اسلامی بھائیو! جب آدم علیہ السّلام سے لغزش واقع ہوئی تو الله تعالیٰ نے انہیں جنت سے نکال کر زمین میں بھیج دیا۔ کچھ عرصے بعد حضرت آدم علیہ السّلام نے دعا مانگی جس کا تذکرہ قرآن پاک میں اس طرح ہے:فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ:37)

حضرت آدم علیہ السّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کیے: رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)جب حضرت آدم علیہ السّلام نے عاجزی کے ساتھ اپنے رب کے حضور یہ دعائیہ کلمات عرض کیے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی عاجزی کے سبب توبہ قبول فرمالی۔اور اللہ تعالیٰ کو یہ عاجزی بہت ہی پسند آئی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی اولاد میں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر پیدا ہوئے ۔

(5) گستاخی کی مذمّت:پیارے اسلامی بھائیو! حضرت آدم علیہ السّلام سے لغزش ہوئی تو حضرت آدم علیہ السّلام نے رب تعالیٰ کے سامنے عاجزی کر کے توبہ کی تو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ کو قبول فرما لیا جبکہ اس کے برعکس ابلیس کہ اس نے اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق اور ایک پیغمبر علیہ السّلام کے حضور گستاخی کی اور اللہ تعالیٰ کا حکم ماننے سے انکار کر دیا تو وہ مردود ہوا پھر بھی اس نے توبہ نہ کی بلکہ ہٹ دھرمی کے ساتھ قائم رہا۔اب قیامت تک اس پر لعنت ہو گی۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے خاص بندوں کی بے ادبی سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السّلام کا ذکر فرمایا اور حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعات سے ہمیں کئی سبق آموز نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، چند نصیحتیں درج ذیل ہیں:

(1)تکبر کی مذمّت:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔

(2)شیطان کی حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے دشمنی کی وجہ: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)ترجمۂ کنز الایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بہوکا ہو نہ ننگا ہو۔اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے نہ دہوپ۔(پ16،طہ:117تا119)

آیت نمبر 117 میں شیطان کا حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ نہ کرنا آپ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ساتھ اس کی دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا ہے،یہاں اس دشمنی کی وجہ وضاحت سے بیان کی جاتی ہے۔جب ابلیس نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد ا س کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت چاہتا اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

(3)سلب ایمان کا سبب: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ(۶۱)ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:61)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تکبر اور حسد نے ہی ابلیس کو ایمان سے نکال کر کفر میں داخل کر دیا۔

(4)بزرگوں کے وسیلے سے مانگنا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ: 37)

صراط الجنان میں اس کے تحت ہے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد)انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب! مجھے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں معاف فرما دے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے عرض کی: اے اللہ پاک! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔(مستدرک،ومن کتاب آیات رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم التی فی دلائل النبوۃ، استغفارآدم علیہ السّلام بحق محمدصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم،۳/۵۱۷، الحدیث:۴۲۸۶، معجم الاوسط، من اسمہ محمد،۵/۳۶، الحدیث: ۶۵۰۲، دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب غزوۃ تبوک، باب ماجاء فی تحدیث رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔۔۔الخ، ۶/۴۸۹)

اس روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے،بَحق فلاں اور بَجاہ ِ فلاں کے الفاظ سے دعا مانگنا جائز اور حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی سنت ہے۔

(5)مشورے کی اہمیت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)

اس آیت میں حضرت آدم کی خلافت سے یہ سبق بھی ملتا ہے۔اس سے اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اُس کام سے متعلق اُن کے ذہن میں کوئی بات ہو تو اُس کا حل ہو سکے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز میں ہو جائے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔(آل عمران: 159) اللہ پاک کو فرشتوں اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کی حاجت نہیں ہے لیکن مشورہ کرنے کا فرمانا تعلیم اُمت کے لیے ہے تاکہ اُمت بھی اس سنت پر عمل کرے۔


حضرت آدم علیہ السّلام کا واقعہ قرآن مجید کے ان عجائبات میں سے ہے جس کے دامن میں بڑی بڑی عبرتوں اور نصیحتوں کے گوہر آبدار کے انبار پوشیدہ ہیں۔قرآن مجید کے اس واقعہ میں عبرتوں اور نصیحتوں کی بڑی بڑی درخشندہ اور تابنده تجلیاں ہیں۔اسی لئے اس واقعہ کو خداوند قدوس نے مختلف الفاظ میں اور متعدد طرز بیان کے ساتھ قرآن مجید میں بیان فرمایا۔ان میں سےچند نصیحتیں یہ ہیں:

(1) انسان کی کمزوری:فَاَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْاٰتُهُمَا وَ طَفِقَا یَخْصِفٰنِ علیہمَا مِنْ وَّرَقِ الْجَنَّةِ٘-وَ عَصٰۤى اٰدَمُ رَبَّهٗ فَغَوٰى۪ۖ(۱۲۱) ترجمۂ کنز الایمان: تو ان دونوں نے اس میں سے کھا لیا اب ان پر ان کی شرم کی چیزیں ظاہر ہوئیں اور جنت کے پتے اپنے اوپر چپکانے لگے اور آدم سے اپنے رب کے حکم میں لغزش واقع ہوئی تو جو مطلب چاہا تھا اس کی راہ نہ پائی۔ (پ16، طہ:121)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ انسان کی سب سے بڑی کمزوری کھانے پینے میں ہے اور ابلیس وشیاطین کا سب سے بڑا اور سب سے پہلا وسوسہ کھانے کے ذریعے ہی چلا۔یہ فائدہ فَاَكَلَا مِنْهَا فرمانے سے حاصل ہوا۔لہٰذا ہر مسلمان کو کھانے پینے میں بڑی احتیاط چا ہیے۔(تفسیر نعیمی، جلد 16، صفحہ 713)

(2) آگ مٹی سے افضل نہیں: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ(۶۱)ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:61)

اس آیت سے یہ فائدہ حاصل ہوا کہ آگ کسی حیثیت میں بھی مٹی سے افضل نہیں ہے، نہ اللہ پاک کی طرف سے ایسا کوئی حکم یا بیان نازل ہوا ہے، یہ ابلیس کی اپنی متکبرانہ سوچ تھی کہ اس نے آگ کو مٹی سے افضل سمجھا یہ فائدہ خَلَقْتَ طِیْنًا سے حاصل ہوا۔(تفسیر نعیمی، جلد 15، صفحہ 240)

(3) حسد کا انجام:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) ترجمۂ کنز الایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔(پ16، طہ:117)

اس آیت میں شیطان کا حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ نہ کرنا آپ علیہ السّلام کے ساتھ دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا۔ یہاں اس دشمنی کی وجہ وضاحت سے بیان کی جاتی ہے۔جب ابلیس نے حضرت آدم علیہ السّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا۔ تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد اس کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت چاہتا ہے اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔(تفسیر صراط الجنان، پ16، طہ: 117)

(4) علم کا حصول کتابوں کے بغیر:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کو تمام اشیاء کے ناموں اور ان کی حکمتوں کا علم بذریعہ الہام ایک لمحہ میں عطافرما دیا۔اس سے معلوم ہوا کہ علم کا حصول کتابوں کے سبقاً سبقاً پڑھنے ہی پر موقوف نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ جس بندے پر اپنا فضل فرمادے اس کو بغیر سبق پڑھنے اور بغیر کسی کتاب کے بذریعہ الہام چند لمحوں میں علم حاصل کرا دیتا ہے۔(عجائب القرآن مع غرائب القرآن، صفحہ 253)

(5)وسیلہ بنانا: فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ: 37)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے دعا بحق فلاں اور بجاہ فلاں کہہ کر مانگنا جائز ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام کی سنت ہے۔(تفسیر خزائن العرفان صفحہ 16)


اللہ تعالیٰ نے زمین پر اپنی خلافت کے لیے اپنے دست قدرت سے حضرت آدم علیہ السّلام کو بنایا، پھر ان میں اپنی طرف سے ایک خاص روح ڈالی اور جنت میں رہائش عطا کی، ایک عرصہ تک یہ جنت میں رہے، پھر ان کی تخلیق کے اصل مقصد کی تکمیل کے لیے درخت کا پھل کھانے کے بعد انہیں جنت سے زمین پر اتار دیا گیا۔حضرت آدم علیہ السّلام پہلے انسان بھی تھے اور زمین پر پہلے نبی بھی۔

قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نائب کے لیے چار الفاظ ذکر فرمائے ہیں:(1) خلیفہ (2) آدم (3) بشر (4) انسان۔

ان کی تفصیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کے اعتبار سے آپ عَلَيہِ السَّلام کو خلیفہ، گندمی رنگ کی وجہ سے آدم، جسم کی ظاہری وضع قطع اور کھال کی ساخت کے اعتبار سے بشر اور حقیقت وماہیت کے اعتبار سے انسان فرمایا گیا ہے۔

وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

واقعہ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ والسّلام فرشتوں سے افضل ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)

حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو اللہ تعالیٰ نے اپنا خلیفہ بنایا اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ فرشتوں سے افضل ہیں کیونکہ ہر شخص یہ بات اچھی طرح جانتا ہے بادشاہ کے نزدیک لوگوں میں سب سے بڑے مرتبے والا وہ شخص ہوتا ہے جو ولایت اور تصرف میں بادشاہ کا قائم مقام ہو۔اس واقعے سے معلوم ہوا علم انسان کو فرشتوں سے افضل بنا دیتا ہے۔

انبیاء عَلَیہم الصّلوٰۃُ والسّلام کے واقعات میں ہمارے لیے بہت سے درس اور نصیحتیں ہیں لہٰذا ان واقعات کو درس حاصل کرنے کی نیت سے پڑھیں یہاں چند نصیحتیں بیان کی جاتی ہیں :

(1) علم سے آدم کو فضیلت: حضرت آدم علیہ السّلام کو جو فرشتوں پر فضیلت عطا ہوئی اس کا ظاہری سبب ان کا علم تھا، اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادتوں سے افضل ہے۔

اشیاء کے نام معلوم نہ ہونے پر فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیا۔اس میں ہر صاحب علم بلکہ ہر مسلمان کے لیے یہ نصیحت ہے کہ جو بات معلوم نہ ہو اس کے بارے میں لاعلمی کا صاف اظہار کر دیا جائے، لوگوں کی ملامت سے ڈر کر یا عزت و شان کم ہونے کے خوف سے کبھی کوئی بات گھڑ کر بیان نہ کریں۔ (سیرت الانبیاء، ص؛80)

(2) حکمِ الٰہی کے مقابل قیاس کا استعمال: فرشتوں نے کسی پس و پیش کے بغیر حکمِ الٰہی پر فوری عمل کرتے ہوئے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا جبکہ شیطان نے حکمِ الٰہی کو اپنی عقل کے ترازو میں تولا، اسے عقل کے خلاف جانا اور اس پر عمل نہ کر کے بربادی کا شکار ہو ا۔اس سے معلوم ہوا کہ حکمِ الٰہی کو من و عن اور چوں چرا کے بغیر تسلیم کرناضروری ہے۔حکمِ الٰہی کے مقابلے میں اپنی عقل استعمال کرنا، اپنی فہم و فراست کے پیمانے میں تول کر اس کے درست ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرنا اور مخالف عقل جان کر عمل سے منہ پھیر لینا کفر کی دلدل میں دھکیل سکتا ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص95)

(3) انبیاء کی گستاخی کا حکم: اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔ (سیرت الانبیاء،ص95)

(4) برائی کے اسباب کی روک تھام: حضرت آدم علیہ السّلام کو اصل ممانعت درخت کا پھل کھانے کی تھی لیکن اس کے لئے فرمایا: اس درخت کے قریب نہ جانا اس طرز خطاب سے علماء نے یہ مسئلہ نکالا ہے کہ اصل فعل کے ارتکاب سے بچانے کے لیے اس کے قریب جانے یا قریب لیجانے والی چیزوں سے بھی روکا جاتا ہے۔علمی اصطلاح میں اسے سد ذرائع (یعنی برائی کے اسباب) کی روک تھام کہتے ہیں۔

(5) ستر عورت انسانی فطرت میں داخل ہے: حضرت آدم علیہ السّلام اور حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے لباس جدا ہوتے ہی پتوں سے اپنا بدن ڈہانپنا شروع کر دیا، یہ اس بات کی دلیل ہے کہ پوشیدہ اعضاء کا چھپانا انسانی فطرت میں داخل ہے۔لہٰذا جو لوگ ننگے ہونے کو فطرت کہتے ہیں ان کی فطرتیں مسخ ہو چکی ہیں۔

(6) حسد کی مذمت: حسد شیطانی کام ہے اور یہی وہ پہلا گناہ ہے جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کی گئی۔حسد کی تعریف یہ ہے کہ کسی کی دینی یا دنیاوی نعمت کے زوال (یعنی چھن جانے) کی تمنا کرنا یا یہ خواہش کرنا کہ فلاں شخص کو یہ یہ نعمت نہ ملے۔حسد اتنی خطرناک باطنی بیماری ہے کہ اس سے ایمان جیسی عظیم دولت چھن جانے کے خطرات لاحق ہو جاتے ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس مذموم باطنی بیماری سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے اپنے آخری نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اپنی آخری کتاب قرآنِ مجید کو نازل کیا۔ قرآنِ مجید پورا کا پورا کتابِ ہدایت ہے اور اس کا ایک ایک لفظ ہدایت کے لیے نازل ہوا۔

نیز اللہ پاک نے قرآن میں بہت سے واقعات کا ذکر کیا جس میں ہر انسان کے لیے نصیحت و ہدایت ہے۔انہی واقعات میں سے ایک واقعہ حضرت آدم علیہ السّلام کا بھی ہے جس کا ذکر اللہ پاک نے قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر کیا۔

قارئین کرام! واقعہ آدم علیہ السّلام سے بہت سی نصیحت وہدایت ہمیں حاصل ہوتی ہیں، آئیے! ان نصیحتوں میں سے پانچ کا ذکر کرتے ہیں:

(1) اللہ پاک جو چاہے کرتا ہے:اس کی شان ہے: فَعَّالٌ لِّمَا یُرِیْدُؕ(۱۶) ترجمۂ کنز الایمان:ہمیشہ جو چاہے کرلینے والا۔(پ30، البروج:16) کوئی بھی اس کے کام میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ہے اور نہ ہی کسی کی مجال ہے وہ اللہ پاک کے کام میں دخل اندازی کرے۔

مگر اس کے باوجود اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق و خلافت کے بارے میں ملائکہ سے مشورہ کیا۔ وہ رب جو اپنے کام میں مختار ہے، سب سے زیادہ علم و قدرت والا ہے، جب وہ ملائکہ سے مشورہ کر سکتا ہے تو بندہ جس کا علم و قدرت و اختیار انتہائی کم ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ اپنے کام میں بدرجہ اولیٰ مشورہ کیا کریں۔ یاد رہے کہ اللہ تعالیٰ مشورہ کرنے سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہو، البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کوظاہری طور پر مشورے کے انداز میں دی گئی۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام سے متعلق ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا کہ سورۂ آل عمرٰن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمرٰن: 159)

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے استخارہ کیا وہ نامراد نہیں ہوگااور جس نے مشورہ کیا وہ نآدم نہیں ہوگا اور جس نے میانہ روی کی وہ کنگال نہیں ہوگا۔(معجم الاوسط، من اسمہ محمد، 5/77، الحدیث: 6627-صراط الجنان ج 1، ص 105/106)

(2) علم کے فضائل:قارئین کرام! اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔

علم کی فضیلت پر بے شمار احادیث طیبہ وارد ہیں، چنانچہ حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔(ابن ماجہ،کتاب السنّۃ، باب فی فضل من تعلّم القرآن وعلّمہ، 1/142، الحدیث: 219)

حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: علم کی فضیلت عبادت کی فضیلت سے زیادہ ہے اور تمہارے دین کی بھلائی تقویٰ (اختیار کرنے میں) ہے۔(معجم الاوسط، من اسمہ علی، 3/92، الحدیث:3960-صراط الجنان ج 1، ص 108/109)

(3) انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُوَالسَّلَام فرشتوں سےافضل ہیں:واقعہ آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء کرام عَلَیہِمُ الصّلوٰۃُ والسّلام فرشتوں سے افضل ہیں اس پر کئی دلائل قرآن و حدیث میں موجود ہیں۔ان میں سے 3 دلائل درج ذیل ہیں:

اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ-ترجمۂ کنزالایمان: تم فرماؤ کیا برابر ہیں جاننے والے اور انجان۔(پ23، الزمر:9)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ زیادہ علم رکھنے والا کم علم رکھنے والے سے افضل ہوتا ہے اور حضرت آدم علیہ السّلام فرشتوں سے زیادہ علم رکھنے والے ہیں تو فرشتوں سے افضل ہوئے ۔

ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔(پ17، الانبیآء: 107)

اس آیت میں اللہ پاک اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ارشاد فرما رہا ہے کہ اے حبیب! میں نے آپ کو سارے جہاں کےلئے رحمت بنا کر بھیجا اور جہاں میں فرشتے بھی شامل ہیں تو رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ان کے لئے بھی رحمت ہوئے اور جب رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرشتوں کے لئے بھی رحمت ہیں تو ان سے افضل بھی ہوئے ۔

حدیث پاک میں ہے:حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: میرے دو وزیر آسمانوں میں ہیں اور دو وزیر زمین میں ہیں۔آسمانوں میں میرے دو وزیر حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام ہیں اور زمین میں میرے دو وزیر حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہما ہیں۔ (مستدرک، کتاب التفسیر، من سورۃ البقرۃ، 2/653-654، الحدیث: 3100-3101)

اس حدیث ِپاک سے معلوم ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم بادشاہ کی طرح ہیں اور حضرت جبرئیل اور حضرت میکائیل عَلَیْہِمَا السَّلَام دونوں ان کے وزیروں کی طرح ہیں اور چونکہ بادشاہ وزیر سے افضل ہوتا ہے اس لئے ثابت ہوا کہ حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرشتوں سے افضل ہیں۔(تفسیر کبیر، البقرۃ، تحت الآیۃ: 34، 1/445-صراط الجنان ج 1، ص109)

(4) سجدہ تعظیمی حرام ہے:سجدہ دو طرح کا ہوتا ہے (1) سجدہ عبادت (2) سجدہ تعظیمی سجدہ عبادت سے مراد کسی کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے اسے سجدہ کرنا اور سجدہ تعظیمی سے مراد کسی کی تعظیم (عزت) کرتے ہوئے سجدہ کرنا۔یہ تو قطعی عقیدہ ہے کہ سجدہ عبادت اللہ کے علاوہ کسی اور کو عبادت کے لائق سمجھتے ہوئے کرنا کفر ہے سجدہ عبادت صرف اللہ کی ذات کے ساتھ خاص ہے۔اور فرشتوں کا حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ تعظیمی کرنا یہ صرف سر کو جھکانے تک نہ تھا بلکہ باقاعدہ پیشانی کو زمین میں رکھنے کی صورت میں تھا۔سجدہ تعظیمی پہلی شریعت میں جائز تھا مگر اس شریعت میں منسوخ ہو گیا ہےاب کسی کو بھی ہم سجدہ تعظیمی نہیں کر سکتے۔

(5)تکبر کی مذمت:اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے کا نام ہے۔(مسلم، کتاب الایمان، باب تحریم الکبر وبیانہ، ص61، الحدیث: 147)

حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آدمی دوسرے لوگوں کے مقابلے میں اپنی ذات کو بلند سمجھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے تکبر کرنے والوں میں لکھ دیاجاتا ہے، پھر اسے وہی عذاب پہنچے گا جو تکبر کرنے والوں کو پہنچا۔(ترمذی، کتاب البر والصلۃ، باب ما جاء فی الکبر، 3/403، الحدیث: 2007-صراط الجنان ج 1، ص113)

اللہ پاک ہمیں قرآنِ مجید کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


اللہ پاک نے بنی آدم کو راہِ راست پر لانے اور بہت سی چیزوں کے بارے میں آگاہی دینے کے لیے کتاب(یعنی قرآن مجید) نازل فرمائی۔قرآن مجید ایک تفصیلی کتاب ہے اس میں ہر چیز کا بیان ہے۔کہیں خوشخبری تو کہیں ڈر، کہیں سزا تو کہیں جزا، کہیں عبرت تو کہیں نصیحت۔حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:قرآن پانچ طریقوں پر نازل ہوا(ان میں سے ایک) امثال (یعنی پچھلی قوموں کے حال بھی ہیں) (تو تم ان کو پڑھ کر)ان سے عبرت حاصل کرو۔(عجائب القرآن، ص237) ان امثال (واقعات) میں سے ایک اہم و ضروری واقعہ آدم علیہ السّلام بھی ہے۔ ویسے تو قرآن پاک کا ہر ہر واقعے میں لوگوں کے لیے بے شمار نصیحتیں ہیں مگر اس واقعے میں لوگوں کے لیے کئی طرح کی نصیحتیں ہیں۔جن میں سے چند یہ ہیں:

اللہ پاک نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا: قَالُوْا سُبْحٰنَكَ لَا عِلْمَ لَنَاۤ اِلَّا مَا عَلَّمْتَنَاؕ-اِنَّكَ اَنْتَ الْعَلِیْمُ الْحَكِیْمُ(۳۲) ترجمۂ کنز الایمان:بولے پاکی ہے تجھے ہمیں کچھ علم نہیں مگر جتنا تو نے ہمیں سکھایا بے شک تو ہی علم و حکمت والا ہے۔(پ1، البقرۃ: 32) اس آیت مبارکہ سے ہمیں دو نصیحتیں حاصل ہوئیں:

(1)جب کسی بندے سے کوئی سوال کرا جائے اور اس بندے کو جواب کا علم نہ ہو تو انکار کردے نہ کہ یہ عزت نفس کی وجہ اپنی طرف سے جواب دے۔جیساکہ فرشتوں کو اشیاء کا نام معلوم نہیں تھے تو انہوں نے اپنے عجز کا اعتراف کرلیا۔ ان کی عزت و مرتبہ میں کمی نہیں آئی۔

(2)اس سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ استاد کا احسان مانا جائے جیساکہ فرشتوں نے اپنے علم کی نفی کرکے فرمایا کہ جو تو نے ہمیں سیکھایا۔یونہی انہوں نے اعتراف کیا جو کچھ ہے اللہ نے سیکھایا۔اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہمیں جو بھی علم حاصل ہو اس میں استاد کا احسان مانے کہ ان کی وجہ سے حاصل ہوا نہ کہ اپنا خود کا کارنامہ سمجھیں۔

(3)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: فَاخْرُجْ اِنَّكَ مِنَ الصّٰغِرِیْنَ(۱۳) ترجَمۂ کنزُالایمان: نکل تو ہے ذلت والوں میں۔ (پ8، الاعراف:13) اور ایک مقام پر فرمایا: وَّ اِنَّ عَلَیْكَ لَعْنَتِیْۤ اِلٰى یَوْمِ الدِّیْنِ(۷۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور بےشک تجھ پر میری لعنت ہے قیامت تک۔(پ23،صٓ:78)

اس معلوم ہوا کہ جو اللہ کی بات نہ مانے یا معاذ اللہ اس سے مقابلہ کرے تو وہ اللہ کی بارگاہ سے ذلیل و رسوا کر کے نکال دیا جاتا ہے۔اور جب اللہ کسی کو لعنت دے تو اس کا کیا بنے گا(الامان و الحفیظ)اور اللہ جس کو چھوڑ دے تو کس میں ہمت جو اس کو سہارا دے؟

(4)اللہ پاک نے فرمایا: وَ اَعْلَمُ مَا تُبْدُوْنَ وَ مَا كُنْتُمْ تَكْتُمُوْنَ(۳۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے اور جو کچھ تم چھپاتے ہو۔(پ1، البقرۃ: 33)

اگر ہم یہ آیت ہر وقت اپنے ذہن میں رکھیں تو کافی گناہوں سے ہم باز رہیں۔اللہ سب جانتا ہے اگرچہ تنہائی میں ہوں یا ظاہر میں۔یہ بہت ہی بہترین نصیحت ہے کہ اللہ سب جانتا ہے اگرچہ اس آیت میں فرشتوں کو کہا گیا مگر یہ سب کے لیے ہے کیونکہ اللہ کے علم و قدرت سے کوئی چیز باہر نہیں۔

(5)اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ جسے چاہتا ہے عزت عطا فرماتا ہے جیسے حضرت آدم کو علم کے ذریعے پھر فرشتوں سے سجدہ کروایا اس سے علم و انسان کی فضیلت معلوم ہوئی کہ علم کوئی معمولی چیز نہیں۔

شعر:

رہتا ہے علم سے زندہ نام ہمیشہ داغ اولاد سے تو بس یہی دو پشت چار پشت

اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک نے لوگوں کی ہدایت کے لیے کئی انبیائے کرام بھیجےجن میں سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السّلام کو بھیجا اور ان کا تذکرہ قرآن مجید میں بھی ذکر کیا ان کا جو واقعہ قرآن مجید میں آیا ہے اُس سے پانچ قرآنی نصیحتیں درج ذیل ہیں:

(1)غرور نہ کرنا:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

نصیحت:شیطان کو حضرت آدم علیہ السّلام کو سجدہ کرنے سے غرور نے روکا لہٰذا ہمیں غروروتکبر بالکل نہیں کرنا چاہیے

(2)غلطی پر توبہ کرنا:فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔ (پ1، البقرۃ: 37)

نصیحت:حضرت آدم علیہ السّلام سے اجتہادی خطا ہوئی اور انہیں دنیا میں بھیج دیا گیاحضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ کلمات عرض کئے: رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)

پھر اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السّلام کی توبہ قبول کی ہم سے بھی اگر غلطی سے کوئی گناہ ہو جائے تو فوراً توبہ کر لینی چاہیے بیشک اللہ بڑا مہربان ہے۔

(3)علم کی فضیلت:وَ عَلَّمَ اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1، البقرۃ:31)

نصیحت:اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: حضور پُرنور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر!رضی اللہ عنہ تمہاراا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہوجس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ علم کی فضیلت بہت زیادہ ہے۔لہٰذا ہمیں بھی علم حاصل کرنے میں مصروف ہو جانا چاہیے۔

(4)حکمِ الٰہی پر فوری طور پر عمل کرنا:وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ ﳓ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-لَمْ یَكُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ(۱۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بے شک ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آدم کو سجدہ کروتو وہ سب سجدے میں گرے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا۔(پ8، الاعراف:11)

نصیحت:ہمیں اللہ تعالیٰ کے حکم پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے جیسے شیطان نے اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کیا اور مردود ہوگیا لہٰذا ہمیں حکمِ الٰہی پر فوری طور پر عمل کرنا چاہیے۔

(5)انبیاء کی گستاخی کا حکم:اللہ تعالیٰ کے انبیاء علیہم السلام کی گستاخی ایسا بڑا جرم ہے جس کی سزا میں زندگی بھر کی عبادت و ریاضت برباد ہو جاتی ہے۔ابلیس جیسے انتہائی عبادت گزار کا انجام اس کی عبرت انگیز مثال ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کر کے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین