عبدالسبحان
خان(درجۂ ثالثہ جامعۃُ المدينہ فيضان ابو عطّار ملير كراچی، پاکستان)
اللہ پاک نے قرآن مجید میں فرمایا:هٰذَا بَیَانٌ لِّلنَّاسِ وَهُدًى وَّ مَوْعِظَةٌ لِّلْمُتَّقِیْنَ(۱۳۸) ترجَمۂ کنزُالایمان:یہ لوگوں کو بتانا اور راہ دکھانا اور پرہیزگاروں کو نصیحت
ہے۔(پ4، آل عمرٰن: 138)
قرآنِ پاک کو اللہ تعالیٰ نے ہماری ہدایت اور نصیحت کیلئے
نازل فرمایا، آئیے! ان نصیحتوں کے بارے میں کچھ باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن
کا ذکر اللہ پاک نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا۔
(1) اہم کاموں میں مشاورت:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی
الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد
کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔(پ1،
البقرۃ:30)
اللہ تعالیٰ اس سے
پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورہ کی حاجت ہو،البتہ یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں
کوظاہری طور پر مشورے کے انداز میں دی گئی۔اس سے اشارۃً معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم
کام کرنے سے پہلے اپنے ما تحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ ا س کام سے متعلق
ان کے ذہن میں کوئی خلش ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے
جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے ۔اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا
کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ ترجَمۂ
کنزُالایمان: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔(آل عمران: 159) (تفسیر صراط الجنان، البقرۃ:30)
(2) علم دین کا حصول:وَ عَلَّمَ
اٰدَمَ الْاَسْمَآءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلٰٓىٕكَةِۙ-فَقَالَ
اَنْۢبِـُٔوْنِیْ بِاَسْمَآءِ هٰۤؤُلَآءِ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ(۳۱) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھائے
پھر سب اشیاء ملائکہ پر پیش کرکے فرمایا سچے ہو تو ان کے نام تو بتاؤ۔(پ1،
البقرۃ:31)
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر
تمام اشیاء پیش فرمائیں اور بطورِ الہام آپ کو ان تمام چیزوں کے نام، کام، صفات،
خصوصیات، اصولی علوم اور صنعتیں سکھا دیں۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم
عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے فرشتوں پرافضل ہونے کا سبب علم ظاہر فرمایا: اس سے
معلوم ہوا کہ علم خلوتوں اور تنہائیوں کی عبادت سے افضل ہے۔حضرت ابو ذررضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں: حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مجھ سے ارشاد فرمایا:
اے ابو ذر! تمہارا ا س حال میں صبح کرنا کہ تم نے اللہ تعالیٰ کی کتاب سے ایک آیت
سیکھی ہو،یہ تمہارے لئے 100 رکعتیں نفل پڑھنے سے بہتر ہے اورتمہارا اس حال میں صبح
کرنا کہ تم نے علم کا ایک باب سیکھا ہو جس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیاہو،تو یہ
تمہارے لئے 1000نوافل پڑھنے سے بہتر ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، البقرۃ: 31)
(3) تکبر کی مذمت:وَ اِذْ
قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى
وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا
کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور
کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)
اس آیت سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض
اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے
بچے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبی کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: تکبر حق کی مخالفت کرنے اور لوگوں کو حقیر جاننے
کا نام ہے ۔(تفسیر صراط الجنان، البقرۃ: 34)
(4)
گناہوں کے بعد توبہ کرنا:
وَ
قُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اسْكُنْ اَنْتَ وَ زَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَ كُلَا مِنْهَا
رَغَدًا حَیْثُ شِئْتُمَا۪-وَ لَا تَقْرَبَا هٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُوْنَا مِنَ
الظّٰلِمِیْنَ(۳۵) فَاَزَلَّهُمَا الشَّیْطٰنُ
عَنْهَا فَاَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِیْهِ۪-وَ قُلْنَا اهْبِطُوْا بَعْضُكُمْ
لِبَعْضٍ عَدُوٌّۚ-وَ لَكُمْ فِی الْاَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَّ مَتَاعٌ اِلٰى حِیْنٍ(۳۶) فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ
كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنزالایمان: اور ہم نے فرمایا اے آدم تو اور تیری بی بی اس جنت میں
رہو اور کھاؤ اس میں سے بے روک ٹوک جہاں تمہارا جی چاہے مگر اس پیڑ کے پاس نہ جانا
کہ حد سے بڑھنے والوں میں ہوجاؤ گے۔تو شیطان نے جنت سے انہیں لغزش دی اور جہاں
رہتے تھے وہاں سے انہیں الگ کردیا اور ہم نے فرمایا نیچے اترو آپس میں ایک تمہارا
دوسرے کا دشمن اور تمہیں ایک وقت تک زمین میں ٹھہرنا اور برتنا ہے۔ پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی
توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرہ: 35تا37)
حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے اپنی دعا میں یہ
کلمات عرض کئے:رَبَّنَا
ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَاٚ- وَ اِنْ لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَ تَرْحَمْنَا لَنَكُوْنَنَّ
مِنَ الْخٰسِرِیْنَ (۲۳) ترجمۂ کنز الایمان:اے
رب ہمارے ہم نے اپنا آپ برا کیاتو اگر تُو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو
ہم ضرور نقصان والوں میں ہوئے ۔(پ 8، الاعراف: 23)
(5) شیطان کے فریب سے بچنا:وَ
لَقَدْ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اٰدَمَ مِنْ قَبْلُ فَنَسِیَ وَ لَمْ نَجِدْ لَهٗ
عَزْمًا۠(۱۱۵) ترجَمۂ کنز الایمان: اور بےشک ہم نے آدم کو اس سے پہلے ایک
تاکیدی حکم دیا تھا تو وہ بھول گیا اور ہم نے اس کا قصد نہ پایا۔(پ16، طہ:115)
اس سے پہلے سورۂ
بقرہ، سورۂ اَعراف، سورۂ حجر، سورۂ بنی اسرائیل اور سورۂ کہف میں مختلف حکمتوں کی
وجہ سے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام اور ابلیس کا واقعہ بیان ہو ا اور اب یہاں
سے چھٹی بار ان کا واقعہ بیان کیا جا رہاہے اور اسے ذکر کرنے میں یہ حکمت بھی ہو
سکتی ہے کہ لوگوں کو معلوم ہو جائے شیطان انسانوں کا بڑ اپرانا دشمن ہے ا س لئے ہر
انسان کو چاہئے کہ وہ شیطان کی فریب کاریوں سے ہوشیار رہے اور اس کے وسوسوں سے
بچنے کی تدابیر اختیار کرے۔(تفسیر صراط الجنان، طہ: 115)
اللہ پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں قرآن پاک کی ان نصیحتوں
پر عمل کرکے اپنی دنیا و آخرت کو بہتر بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔