اللہ پاک نے قرآن کریم میں حضرت آدم علیہ السّلام کا ذکر فرمایا اور حضرت آدم علیہ السّلام کے واقعات سے ہمیں کئی سبق آموز نصیحتیں حاصل ہوتی ہیں، چند نصیحتیں درج ذیل ہیں:

(1)تکبر کی مذمّت:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-اَبٰى وَ اسْتَكْبَرَ ﱪ وَ كَانَ مِنَ الْكٰفِرِیْنَ(۳۴) ترجمۂ کنز الایمان:اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے منکر ہوا اور غرور کیا اور کافر ہوگیا۔(پ1،البقرۃ:34)

اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ تکبرایسا خطرناک عمل ہے کہ یہ بعض اوقات بندے کوکفر تک پہنچا دیتا ہے،اس لئے ہر مسلمان کو چاہئے کہ و ہ تکبر کرنے سے بچے۔

(2)شیطان کی حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے دشمنی کی وجہ: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَقُلْنَا یٰۤاٰدَمُ اِنَّ هٰذَا عَدُوٌّ لَّكَ وَ لِزَوْجِكَ فَلَا یُخْرِجَنَّكُمَا مِنَ الْجَنَّةِ فَتَشْقٰى(۱۱۷) اِنَّ لَكَ اَلَّا تَجُوْ عَ فِیْهَا وَ لَا تَعْرٰىۙ(۱۱۸) وَ اَنَّكَ لَا تَظْمَؤُا فِیْهَا وَ لَا تَضْحٰى(۱۱۹)ترجمۂ کنز الایمان:تو ہم نے فرمایا اے آدم بےشک یہ تیرا اور تیری بی بی کا دشمن ہےتو ایسا نہ ہو کہ وہ تم دونوں کو جنت سے نکال دے پھر تو مشقت میں پڑے۔بیشک تیرے لیے جنت میں یہ ہے کہ نہ تو بہوکا ہو نہ ننگا ہو۔اور یہ کہ تجھے نہ اس میں پیاس لگے نہ دہوپ۔(پ16،طہ:117تا119)

آیت نمبر 117 میں شیطان کا حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کو سجدہ نہ کرنا آپ عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کے ساتھ اس کی دشمنی کی دلیل قرار دیا گیا ہے،یہاں اس دشمنی کی وجہ وضاحت سے بیان کی جاتی ہے۔جب ابلیس نے حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام پر اللہ تعالیٰ کا انعام واکرام دیکھا تو وہ ان سے حسد کرنے لگا اور یہ حسد ا س کی دشمنی کا ایک سبب تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ جسے کسی سے حسد ہو تو وہ اس کا دشمن بن جاتا ہے اور وہ اس کی ہلاکت چاہتا اور اس کا حال خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

(3)سلب ایمان کا سبب: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ اِذْ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْۤا اِلَّاۤ اِبْلِیْسَؕ-قَالَ ءَاَسْجُدُ لِمَنْ خَلَقْتَ طِیْنًاۚ(۶۱)ترجمۂ کنز الایمان: اور یاد کرو جب ہم نے فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوا ابلیس کے بولا کیا میں اسے سجدہ کروں جسے تو نے مٹی سے بنایا۔(پ15، بنیٓ اسراءیل:61)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ تکبر اور حسد نے ہی ابلیس کو ایمان سے نکال کر کفر میں داخل کر دیا۔

(4)بزرگوں کے وسیلے سے مانگنا:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:فَتَلَقّٰۤى اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ كَلِمٰتٍ فَتَابَ علیہؕ-اِنَّهٗ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ(۳۷) ترجمۂ کنز الایمان:پھر سیکھ لیے آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمے تو اللہ نے اس کی توبہ قبول کی بے شک وہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔(پ1، البقرۃ: 37)

صراط الجنان میں اس کے تحت ہے: حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،نبیٔ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جب حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام سے اجتہادی خطا ہوئی تو(عرصۂ دراز تک حیران و پریشان رہنے کے بعد)انہوں نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی: اے میرے رب! مجھے محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے میں معاف فرما دے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تم نے محمد (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کو کیسے پہچانا حالانکہ ابھی تو میں نے اسے پیدا بھی نہیں کیا؟حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام نے عرض کی: اے اللہ پاک! جب تو نے مجھے پیدا کر کے میرے اندر روح ڈالی اور میں نے اپنے سر کو اٹھایا تو میں نے عرش کے پایوں پر لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ لکھا دیکھا،تو میں نے جان لیا کہ تو نے اپنے نام کے ساتھ اس کا نام ملایا ہے جو تجھے تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے آدم! تو نے سچ کہا، بیشک وہ تمام مخلوق میں میری بارگاہ میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔تم اس کے وسیلے سے مجھ سے دعا کرو میں تمہیں معاف کردوں گا اور اگر محمد(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) نہ ہوتے تو میں تمہیں پیدا نہ کرتا۔(مستدرک،ومن کتاب آیات رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم التی فی دلائل النبوۃ، استغفارآدم علیہ السّلام بحق محمدصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم،۳/۵۱۷، الحدیث:۴۲۸۶، معجم الاوسط، من اسمہ محمد،۵/۳۶، الحدیث: ۶۵۰۲، دلائل النبوۃ للبیہقی، جماع ابواب غزوۃ تبوک، باب ماجاء فی تحدیث رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔۔۔الخ، ۶/۴۸۹)

اس روایت سے یہ بھی ثابت ہے کہ مقبولان بارگاہ کے وسیلہ سے،بَحق فلاں اور بَجاہ ِ فلاں کے الفاظ سے دعا مانگنا جائز اور حضرت آدم عَلَیہِ الصّلوٰۃُ والسّلام کی سنت ہے۔

(5)مشورے کی اہمیت: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ-قَالُوْۤا اَتَجْعَلُ فِیْهَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْهَا وَ یَسْفِكُ الدِّمَآءَۚ-وَ نَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَ نُقَدِّسُ لَكَؕ-قَالَ اِنِّیْۤ اَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ(۳۰) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے فرمایامیں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں بولے کیا ایسے کو نائب کرے گا جو اس میں فساد پھیلائے اور خونریزیاں کرےاور ہم تجھے سراہتے ہوئے تیری تسبیح کرتے اور تیری پاکی بولتے ہیں فرمایا مجھے معلوم ہے جو تم نہیں جانتے۔(پ1، البقرۃ:30)

اس آیت میں حضرت آدم کی خلافت سے یہ سبق بھی ملتا ہے۔اس سے اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے اپنے ماتحت افراد سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اُس کام سے متعلق اُن کے ذہن میں کوئی بات ہو تو اُس کا حل ہو سکے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز میں ہو جائے۔ اللہ تعالٰی نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا،جیسا کہ سورۂ آل عمران میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔(آل عمران: 159) اللہ پاک کو فرشتوں اور حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کی حاجت نہیں ہے لیکن مشورہ کرنے کا فرمانا تعلیم اُمت کے لیے ہے تاکہ اُمت بھی اس سنت پر عمل کرے۔